انوکھا بھوت
ناصر اور اس کی امی ابو پہاڑی کے نئے بنگلے میں منتقل ہوئے تو بہت خوش تھے۔ جب وہ اپنے گھر کی بالکونی میں کھڑے ہو کر اردگرد نظر دوڑاتے تو چاروں طرف کے دل فریب مناظر انہیں مسحود کر کے دیکھ دیتے۔ طلوع آفتاب اور غروب آفتاب تو دیدنی تھے۔ لیکن ناصر کی امی پروین کی یہ خوشی اس وقت غارت ہو گئی جب وہ بنگلے کے سرونٹ کوارٹر میں داخل ہوئیں اور انہیں وہاں ایک بھیانک چہرہ نظر آیا۔ اس چہرے کو دیکھ کر ان کی چیخ نکل گئی اور وہ چہرہ یہ چیخ سنتے ہی غائب ہو گیا۔
پروین خوفزدہ ہو کر اپنے کمرے میں چلی گئیں۔ جلدی سے شوہر کو فون کیا اور انہیں فی الفور گھر آنے کو کہا۔ علیم دفتر کے سارے کام کاج چھوڑ چھاڑ کر گھر پہنچا۔ بیوی نے ڈراؤنے چہرے کے بارے میں بتایا تو وہ دھڑکتے دل کے ساتھ سرونٹ کوارٹر میں داخل ہوا، مگر اسے وہاں کوئی چہرہ دکھائی نہیں دیا۔ ہاں ایک ٹوٹی پھوٹی الماری کھولی تو اس میں خستہ حالت میں پڑا ہوا ایک ڈھانچہ ضرور نظر آیا۔ اسے گمان گزرا کہ اس کی بیوی یہ ڈھانچہ دیکھ کر خوفزدہ ہوئی ہوگی لیکن جب پروین سے دریافت کیا تو اس نے بتایا کہ اس نے تو کوئی الماری کھولی ہی نہیں۔ وہ تو جیسے ہی سرونٹ کوارٹر میں داخل ہوئی تھی، ایک بھیانک شکل اس کے سامنے آ گئی تھی۔
ناصر چھٹی کے وقت سکول سے گھر لوٹا تو اس کی امی ابو نے اس سے ہولناک چہرے یا ڈھانچے کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ لیکن اس کی امی نے اسے تاکید کی کہ وہ سرونٹ کوارٹر کی طرف کبھی نہ جائے۔
ناصر نے پوچھا ’’کیوں؟‘‘۔ تو پروین بولی: ’’وہاں گندگی پھیلی ہوئی ہے۔ کیڑے مکوڑے گھومتے پھرتے ہیں۔ آدمی کو کاٹ سکتے ہیں۔‘‘
ناصر بولا: ’’تو امی، پھر وہاں صفائی کرا دیں نا‘‘
پروین نے کہا ’’کبھی کرادی گے۔ فی الحال تو اور بکھیڑے بہت ہیں۔‘‘
ایک روز ناصر گھر پر اکیلا تھا۔ اچانک اسے سرونٹ کواٹر جاکر اسے دیکھنے کا خیال آیا۔ اس نے کیڑے مارنے والی اسپرے کی بوتل اٹھائی اور سرونٹ کارٹر کا رخ کیا۔ دروازہ کھولا تو سامنے پڑی خالی چارپائی پر ایک بدشکل بھوت جیسی چیز لپٹی ہوئی تھی۔ ناصر کو دیکھ کر وہ ایک دم کھڑی ہو گئی اور تیزی سے ٹوٹی پھوٹی الماری میں گھس گئی۔
ناصر نڈر اور متجسس لڑکا تھا۔ وہ الماری کی طرف لپکا اور اس کے پٹ کھولے تو سامنے ایک ڈھانچے کو ہلتے جلتے دیکھا۔ ناصر بڑ بڑایا ’’کمال ہے، وہ شکل الماری میں گھستے ہی ڈھانچے میں بدل گئی‘‘۔
چند روز بعد ناصر اپنے والدین کے ہمراہ بازار گیا تو ایک دکان سے اس نے بھوتوں والے دو عدد ماسک خریدے۔ جنہیں پہن کر بچے چھوٹوں اور بڑوں کو ڈرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ موقعے کی تلاش میں تھا کہ کب وہ گھر پر اکیلا ہو۔ جب اس کے ابوسودا سلف لینے گئے اور امی کسی کام سے تھوڑی دیر کے لئے پڑوسن کے گھر گئیں تو ناصر نے اپنا ڈرانے والا ماسک پہنا اور سرونٹ کوارٹر کی طرف لپکا۔ اندر داخل ہوا تو دیکھا کہ بھدی شکل والا بھوت اس کی طرف پیٹھ کئے کھڑا تھا۔ وہ دھیرے دھیرے آگے بڑھا اور ایک د زور سے ’’بھؤ‘‘ کہا۔ بھوت نے پلٹ کر دیکھا اور ناصر کو اصلی بھوت سمجھ کر بھاگتے ہوئے الماری میں جاگھسا۔
ناصر قہقہے لگاتا ہوا واپس آیا۔ اس کی امی واپس آچکی تھیں۔ پوچھا ’’قہقہے کیوں لگا رہے ہو؟‘‘۔
بولا: ’’امی، میں نے بھوت کو ڈرا دیا ہے‘‘۔
’’بھوت! کیسا بھوت! کیسے ڈرا دیا؟‘‘ پروین پریشان ہو کر بولی۔
’’وہ جو سرونٹ کوارٹر میں رہتا ہے‘‘۔
’’اچھا‘‘۔
’’ہاں امی! میں نے بھوت والا ماسک پہنا اور بھوت کے پیچھے کھڑے ہوکر جو ایک دم سے بھؤ کہا تو وہ ڈر کے مارے الماری میں جا چھپا۔ امی! آپ یہ دوسرے والا ماسک پہنیں اور پھر ہم دونوں مل کر اسے ڈراتے ہیں‘‘۔
پروین جواب تک بھوت سے خوفزدہ تھی، اپنے نڈر بیٹیے کی بات سن کر بہادر بن گئی۔ ماسک پہن کر بولی ’’چلو چلتے ہیں‘‘۔
ناصر نے اپنی امی کا ہاتھ پکڑ اور انہیں سرونٹ کوارٹر لے گیا۔ اندر داخل ہوئے تو ناصر اور اس کی امی نے مل کر زور سے ’بھؤ کا نعرہ لگایا۔ ڈرپوک بھوت خوف سے تھر تھر کانپنے لگا اور لجاجت سے بولا: ’’خدا کے لیے ایسا نہ کیا کرو۔ تم نے تو میری جان نکال دی۔ کیا ایک بندے کا ڈرانا کافی نہیں تھا کہ اب دو دو بندے مل کر مجھے ڈرا رہے ہو۔‘‘
ناصر آواز بدل کر بولا: ’’اگر تم نے اپنی جان کی خیر منانی ہے تو تمہیں یہاں سے نکلنا ہوگا ورنہ ہم تمہارا حشر نشر کر دیں گے۔‘‘
بدشکل بھوت نے کہا ’’ٹھیک ہے تم میری جان بخشی کر دو میں کل سے کہیں اور اپنا ٹھکانا تلاش کروں گا‘‘۔
’’ٹھیک ہے‘‘ ناصر نے کہا ’’تمہاری جان بخشی کی جاتی ہے‘‘۔
وہ دن اور آج کا دن سرونٹ کوارٹر میں نہ وہ بھوت نظر آیا نہ ڈھانچہ۔ خدا جانے بچارے بھوت نے کہا اپنا ٹھکانا بنایا ہوگا۔ بےچارا بھوت!
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.