Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

عقلمند بوڑھیا

نامعلوم

عقلمند بوڑھیا

نامعلوم

MORE BYنامعلوم

    دو چور ایک گھر میں گھسے۔ آدھی رات کا وقت تھا۔ گھر میں مٹی کے تیل کا دیا جل رہا تھا۔ وہ گھر ایک بوڑھیا کا تھا جس کا اس دنیا میں کوئی بھی عزیز رشتے دار نہیں تھا۔ وہ اکیلی تھی اور کمانے کے قابل بھی نہیں تھی۔ محلے کے لوگ صبح شام اس کو کھانا دے جایا کرتے تھے۔ وہ اس میں سے کھاتی اور خدا کا شکر ادا کرکے عبادت میں مصروف ہوجاتی۔

    اس دن بھی وہ عشا کی نماز پڑھنے کے بعد کافی دیر تک اللہ اللہ کرنے کے بعد سوئی تھی کہ گھر میں دو چور گھس آئے۔ ایک چور کا پیر بوڑھیا کی چارپائی سے جو ٹکرایا تو اس کی آنکھ کھل گئی۔

    اس نے دونوں چوروں کو دیکھ لیا لیکن بے فکر ہو کر لیٹی رہی۔ اسے فکر ہوتا بھی کیوں، گھر میں تھا ہی کیا جس کے چوری چلے جانے کا ڈر ہوتا۔ دل ہی دل میں ہسنتی رہی اور چوروں کو دیکھتی رہی۔ جو ادھر ادھر نقدی یا زیور تلاش کرتے پھر رہے تھے۔ آخر جب چور تلاش کرتے کرتے تھک گئے اور مایوس ہو کر لوٹنے لگے تو بڑھیا بول اٹھی!

    ’’کیوں! کچھ نہیں ملا‘‘۔

    دونوں چور بوڑھیا کی آواز سن کر چونک اٹھے۔ ان کا خیال تھا کہ بوڑھیا سو رہی ہے۔

    ’’تم چور ہو نا۔‘‘ بوڑھیا پھر بولی۔ اس کے بوڑھے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔

    ’’ہاں ماں! ہم چور ہیں۔‘‘ ان میں سے ایک نے کہا۔

    ’’تو پھر تمہاری ماں تین دن سے بھوکی ہے۔ تمہیں اس گھر سے کیا مل سکتا ہے۔‘‘ بوڑھیا نے کچھ سوچ کر کہا۔ حالانکہ وہ تین دن سے بھوکی ہرگز نہیں تھی۔ اس نے تو رات کو سونے سے پہلے بھی خوب پیٹ بھر کر کھایا تھا۔

    ’’کیا کہا۔۔۔ تم تین دن سے بھوکی ہو۔‘‘ دوسرے چور نے حیران ہو کر کہا۔

    ’’ہاں! میں اس دنیا میں اکیلی ہوں۔ میرا کوئی نہیں، پھر بھلا میں کھاؤں کہاں سے، تمہاری طرح چوری بھی نہیں کرسکتی۔ محلے کے لوگ ترس کھا کر کچھ دے دیتے ہیں تو کھا لیتی ہوں۔ تین دن سے کسی محلے والے نے بھی نہیں پوچھا، اب تم ہی کہو، میں کھاؤں تو کہاں سے کھاؤں۔‘‘

    ’’اوہ۔۔۔ ماں یہ بات ہے۔‘‘

    پہلا چور بولا۔ وہ بہت رحمدل تھا۔ اس نے دوسرے سے کہا۔

    ’’چلو ہم کہیں سے ماں کے لیے کچھ کھانے کو لائیں۔‘‘

    ’’ہاں! چلو۔‘‘ دوسرا بولا۔

    دونوں کچھ کہے بغیر بوڑھیا کے گھر سے نکل کر چلے گئے۔ بوڑھیا ان کے جانے کے بعد مسکرائی اور چارپائی پر لیٹ گئی اسے یقین تھا کہ دونوں چور ضرور واپس آئیں گے۔

    اس کا خیال ٹھیک ہی نکلا۔ دو گھنٹے بعد دونوں چور پھر بوڑھیا کے گھر میں داخل ہوئے۔ وہ ابھی جاگ رہی تھی انہیں دیکھتے ہی اٹھ بیٹھی:

    ’’تم آگئے بیٹا۔‘‘

    ’’ہاں ماں، ہم آگئے اور خالی ہاتھ نہیں آئے۔ تمہارے لیے کھانے کی بہت ساری چیزیں لائے ہیں۔‘‘

    ’’جیتے رہو۔ تم کتنے اچھے ہو، کاش میرا بھی تمہارے جیسا کوئی بیٹا ہوتا۔‘‘ بوڑھیا نے کہا۔

    ’’ہم بھی تو تمہارے بیٹے ہی ہیں ماں!‘‘ ایک چور نے کہا۔

    ’’خدا تمہیں ہمیشہ خوش رکھے۔‘‘

    ’’اچھا اب یہ کھانے پینے کی چیزیں لو اور خوب پیٹ بھر کر کھاؤ۔۔۔ اب تم فکر نہ کیا کرنا۔ ہم ہر روز تمہیں کھانے کی چیزیں دے جایا کریں گے۔‘‘

    دوسرے چور نے کہا۔

    ’’اچھا مگربیٹا۔۔۔ یہ سب چیزیں تم لائے کہاں سے ہو۔‘‘

    ’’کیوں ماں تم نے یہ بات کیوں پوچھی۔‘‘ ایک چور حیران ہو کر بولا۔

    ’’بس یونہی۔ بھلا اتنی رات گئے یہ چیزیں تمہیں کہاں سے مل گئیں۔‘‘

    ’’ماں! سچی بات تو یہ ہے کہ ہم یہ چیزیں چرا کر لائے ہیں۔‘‘ دوسرا چور بول اٹھا۔

    ’’کیا کہا۔ چرا کر لائے ہو۔‘‘

    بوڑھیا نے چونک کر کہا۔

    ’’ہاں! ہمارا تو پیشہ ہی یہی ہے۔‘‘

    ’’تب پھر میں یہ چیزیں نہیں کھاؤں گی۔‘‘ بوڑھیا نے کہا۔

    ’’کیوں کیوں۔‘‘ دونوں چور حیران ہو کر بولے۔

    ’’اس لیے کہ یہ چوری کی چیزیں ہیں اور میں چوری کا مال نہیں کھاؤں گی، چوری کا مال کھانا حرام کھانا ہے۔‘‘

    ’’لیکن ماں! تم تین دن سے بھوکی ہو۔‘‘ چور نے یاد دلایا۔

    ’’یہ ٹھیک ہے کہ میں تین دن سے بھوکی ہوں، لیکن اس کے باوجود میں چوری کا مال نہیں کھاؤں گی۔ چاہے بھوک سے میری جان ہی کیوں نہ نکل جائے۔‘‘

    دونوں چور حیران رہ گئے آخر ایک نے کہا۔

    ’’پھر تو تمہیں صبح تک بھوکا رہنا پڑے گا۔‘‘

    ’’کیا مطلب۔ تم کیا کہنا چاہتے ہو۔ بوڑھیا نے پوچھا۔

    ’’صبح ہم تمہارے لیے محنت مزدوری کرکے کچھ کھانے کے لئے لے آئیں گے۔ لیکن اس وقت نہیں لاسکتے۔‘‘

    ’’تم میرے لیے اتنی تکلیف کیوں کروگے۔ جاؤ جاکر چوریاں کرو، کھاؤ پیو۔‘‘

    ’’نہیں ماں! ہم تمہیں بھوکا نہیں رہنے دیں گے۔‘‘

    دونوں چور بوڑھیا کے گھر میں زمین پر پڑ کر سو رہے۔ صبح ہوئی تو دونوں گھر سے نکل گئے دوپہر تک وہ محنت مزدوری کرتے رہے، پھر انہوں نے کھانے کی کچھ چیزیں خریدیں اور بوڑھیا کے گھر آئے۔ انہوں نے چیزیں اس کے سامنے رکھ دیں۔

    ’’لو ماں! یہ چیزیں ہم خرید کر لائے ہیں اور خرید کر بھی چوری کے پیسوں سے نہیں لائے بلکہ محنت مزدوری کر کے لائے ہیں۔‘‘ ایک چور نے کہا۔

    ’’تم نے خود بھی ابھی تک کچھ کھایا یا نہیں۔‘‘ بوڑھیا نے پوچھا۔

    ’’نہیں ماں۔ بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جوان بیٹوں کی ماں گھر میں بھوکی بیٹھی ہو اور وہ خود مزے کرتے پھریں۔ ہم نے کھانے کو ہاتھ تک نہیں لگایا۔‘‘

    ’’تو پھر پہلے تم اس میں سے کھاؤ۔‘‘

    بوڑھیا نے کہا۔

    ’’یہ کیسے ہوسکتا ہے ماں!‘‘

    ’’میں جو کہتی ہوں۔ چلو کھاؤ۔‘‘

    دونوں نے چند لقمے کھائے۔

    یہ کھانا تمہیں کیسا لگا۔‘‘ بوڑھیا نے پوچھا۔

    ’’بہت ہی مزے دار خدا کی قسم آج تک ہم نے اس سے زیادہ مزے کا کھانا نہیں کھایا۔‘‘ ایک نے حیران ہو کر کہا۔

    ’’یہ اس لیے کہ یہ حلال کی کمائی کا کھانا ہے، تم آج تک حرام کی کمائی کا کھانا کھاتے رہے ہو۔ وعدہ کرو کہ آئندہ کبھی چوری نہیں کروگے۔‘‘

    ’’ہم وعدہ کرتے ہیں ماں کہ کبھی چوری نہیں کریں گے۔‘‘

    تینوں ایک دوسرے سے لپٹ گئے۔

    مأخذ:

    عقل مند بڑھیا

      • ناشر: مسعود عمر, سدا بہار پبلیکیشنز، دہلی

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے