تمام
تعارف
غزل20
نظم10
شعر563
مزاحیہ شاعری1
ای-کتاب35
تصویری شاعری 30
آڈیو 1
ویڈیو 630
قطعہ6
قصہ59
بچوں کی کہانی78
لوری1
گیت2
پہیلی37
نامعلوم کی بچوں کی کہانیاں
چوہیا اور چڑیا کی کہانی
ایک تھی چوہیا اور ایک تھی چڑیا۔ دونوں کا آپس میں بڑا اخلاص پیار تھا اور بہنیں بنی ہوئی تھیں۔ ایک روز صبح کو چڑیا نے کہا: ’’کہ چلو بہن چوہیا ذرا ہوا کھا آئیں‘‘ چوہیا نے کہا چلو دونوں سہیلیاں مل کر چلیں ہوا کھانے۔ چڑیا تو ارتی اڑتی جاتی تھی اور چوہیا پھدک
فقیر کی کہانی
ایک فقیر تھا۔ وہ اپنی جھونپڑی میں رہا کرتا تھا۔ اس نے ایک مینا پال کے پنجرے میں بند کر کے اپنی جھونپڑی میں لٹکا رکھی تھی۔ فقیر روز بھیک مانگنے جایا کرتا تھا۔ اس مینا نے جو اس فقیر کو بھیک مانگتے دیکھا۔ تو اس پر بھی فقیر کی صحبت کا اثر ہوا۔ اور وہ بھی
مور کی کہانی
ایک مور تھا اور ایک تھا گیدڑ۔ دونوں میں محبت تھی۔ دنوں کی صلاح ہوئی۔ کہ چل کر بیر کھاؤ۔ وہ دونوں کے دونوں مل کر چلے کسی باغ میں۔ وہاں ایک بیری کا درخت تھا۔ جب اس درخت کے قریب پہنچے۔ تو مور ار کر اس درخت پر جا بیٹھا۔ درخت پر بیٹھ کے پکے پکے بیر تو آپ
مکھی کی کہانی
ایک مکھی بیٹھی اپنا گھر لیپ رہی تھی۔ گھر لیپتے لیپتے اپنا نام بھول گئیں۔ گھر لیپتے لیپتے لیپتے جو انہیں اپنے نام کا خیال آیا۔ تو گئیں ہمسائی کے ہاں۔ ہمسائی سے جاکر کہا۔ بی ہمسائی بی ہمسائی میرا نام بتاؤ۔ اس نے کہا۔ بوا میں نہیں جانتی۔ میرے گھر میں جو
موسل کے چاول
پرانے زمانے میں کونکن دیس میں بڑے عالم رہا کرتے تھے۔ ایک وقت تھا جب وہاں ودھوا راجن نامی ایک شاعر بھی رہا کرتا تھا۔ ایک اچھا شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ وہ دولت مند بھی کافی تھا۔ لیکن ایک بار سیہ یادری دیس کے راجہ نے کونکن پر ایک بھاری فوج لے کر چڑھائی کر
ٹمک ٹوں کی کہانی
اڈھاک تلے کی میں لکڑی لائی۔ لکڑی لے میں نے بڑھیا کو دی۔ بڑھیا نے مجھے آدھی روٹی دی۔ آدھی روٹی لے میں نے کمہار کو دی۔ کمار نے مجھے گھڑا دیا۔ گھڑا لے میں نے گھوسی کو دیا۔ گھوسی نے مجھے بھینس دی۔ بھینس لے میں نے دولہا کو دی۔ دلہا نے مجھے دلہن دی۔ دلہن لے
سپاہی کی کہانی
ایک سپاہی تھے۔ وہ کہیں سے چلے آتے تھے۔ رستے میں ایک آواز آئی کہ ’’اے میاں گھوڑے سوا! لمبی چوٹی برخوردار۔‘‘ ایک سندیسہ لیتے جائیو۔ اس نے دیکھا۔ تو ادھر ادھر کوئی نظر نہ آیا۔ پھر اس نے گھوڑا ہانکا تو پھر اس کو یہی آواز آئی کہ ’’اے میاں گھوڑے
طوطے مینا کی کہانی
ایک تھا طوطا اور ایک تھی مینا۔ طوطے کا گھر تو تھا نون کا اور مینا کا گھر تھا موم کا۔ ایک دن جو پڑی دھوپ۔ ایسی دھوپ پڑی۔ ایسی دھوپ پڑی۔ کہ مینا کا گھر جو تھا سو پگھل گیا۔ وہ گئیں طوطے کے پاس۔ کہ اے بھئی طوطے آج ایسی دھوپ پڑی۔ کہ میرا گھر پگھل گیا۔ اگر
لکشمن_ریکھا
دلی میں ایک بازار ہے، بازار سیتا رام۔ محمد شاہ رنگیلے کے زمانے میں وہاں ساہو سیتا رام رہا کرتے تھے۔ ساہو سیتا محمد شاہ رنگیلے کے شاہی خزانچی تھے اور لاکھوں کروڑوں کے مالک بھی۔ انہیں کے نام پر بازارسیتا رام آباد ہوا۔ ان کے بیٹے کی شادی تھی۔ شادی بیاہ
میرا نام کیا ہے؟
ایک بہت ہی پیارا سا بونا جنگل میں رہتا تھا۔ اس کے باغ میں ایک چھوٹی سی چڑیا رہتی تھی، جو روز صبح ہونے کے لئے گانا گاتی تھی، گانے سے خوش ہو کر بونا چڑیا کو روٹی کے ٹکڑے ڈالتا تھا۔ بونے کا نام منگو تھا وہ چڑیا سے روز گانا سنتا تھا۔ ایک دن بہت ہی عجیب
ہونہار بروا
پٹنہ کے قریب ایک جنگل تھا۔ اس کا نام تھا پیلی کانن۔ بہت دن ہوئے پیلی کانن میں ایک طرف ایک ٹوٹی پھوٹی عمارت کھڑی تھی۔ اسے دیکھ کر یوں لگتا تھا گویا کبھی اس عمارت کی شان بھی نرالی ہوگی۔ ایک روز دوپہر کے وقت چند بچے عمارت کے قریب ایک ٹیلے پر راجہ کا
ملیدہ کوٹنے والی کی کہانی
ایک تھا چوہا۔ ایک تھی چوہیا۔ دونوں میں ہوئی لڑائی۔ چوہیا روٹھ راٹھ کر ایک کونے میں بیٹھ گئیں۔ چوہے گئے کہ بی چوہیا اٹھو آٹا گوندھو۔ چوہیا نے کہا : ’’ماری کوٹی کونے لاگی‘‘ میں کیا تیرا آٹا گوندھوں گی؟ چوہا گیا آپ آٹا گوندھ آیا۔ پھر آیا کہ اٹھو بی چوہیا
عقلمند بوڑھیا
دو چور ایک گھر میں گھسے۔ آدھی رات کا وقت تھا۔ گھر میں مٹی کے تیل کا دیا جل رہا تھا۔ وہ گھر ایک بوڑھیا کا تھا جس کا اس دنیا میں کوئی بھی عزیز رشتے دار نہیں تھا۔ وہ اکیلی تھی اور کمانے کے قابل بھی نہیں تھی۔ محلے کے لوگ صبح شام اس کو کھانا دے جایا کرتے
اونٹ کی کہانی
ایک اونٹ سڑک پر چلا جاتا تھا۔ ایک مینڈکی اس کے پیر تلے آ گئی۔ مینڈکی نے اونٹ سے کہا۔ کہ لنبو لنبو کے لم ٹنگو شہزادی نبو کچلی تھی۔ اونٹ نے کہا۔ کہ لنبو لنبو کے لم ٹنگو شہزادی بنو کچلی تھی۔ اونٹ نے جواب دیا۔ کہ چل موئی نکٹی چیٹی تجھے کسی نے دیکھا تھا؟
اور بادشاہ سلامت پھٹ گئے
الٹانگر کے بادشاہ سلامت جب اینڈتے اکڑتے دربار میں داخل ہوئے تو نقیب نے کڑک کر کہا۔۔۔’’باادب، با ملاحظہ ہوشیار، شہنشاہ معظم۔ اعلی حضرت فرماں روائے الٹانگر تشریف لاتے۔۔۔‘‘ اور پکارنے والا ابھی پوری بات بھی نہ کہنے پایا تھا کہ بادشاہ سلامت دھڑام سے وزیر
وہ تو ہماری بھی نانی نکلی
ظفر، شوکت اور اقبال اپنے چچا سے کہانی سننے کے لیے ضد کر رہے تھے۔ چھوٹی نسرین بھی توتلی زبان سے ان کا ساتھ دے رہی تھی۔۔۔ ’’چچا ہمیں تھگوں والی کہانی سناؤ‘‘۔ ’’ہاں ہاں! ٹھگوں والی۔ ٹھگوں والی۔ ٹھگوں والی۔‘‘۔ دوسرے بھی بول پڑے اور شور مچانے لگے۔ ’’اچھا
اچھے دوست
شاکر اور انور گہرے دوست تھے۔ دونوں تیسری جماعت میں پڑھتے تھے۔ ساتھ اسکول جاتے اور ساتھ واپس آتے۔ ساتھ ہی اسکول کا کام کرتے اور رات کے وقت گلی کے بچوں کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلتے۔ شاکر کے والد شیخ صاحب اور انور کے والد ملک صاحب دونوں ان کی دوستی سے بہت
کھلونوں کی شکایت
’’یا اللہ! میں اور کتنے دن یوں پلنگ کے نیچے گندی سندی پڑی رہوں گی؟‘‘ نوری نے آزردگی سے سوچا، اس کو گندا رہنا سخت ناپسند تھا۔ ابھی پچھلے دنوں ہی زینب نے اس کی شادی کا کھیل کھیلا تھا۔ خوبصورت لال رنگ کا لہنگا اور سنہری بیل والا دوپٹہ پہنا کر اس کو دلہن
وفادار گیند
طہٰ میاں کی سالگرہ آئی اور ڈھیر سارے تحفے ساتھ لائی۔ خود بخود گھومنے والی اور سائرن بجانے والی کار، ریموٹ کنٹرول سے چلنے والی کشتی، ایک چھوٹا سا بٹوے کی شکل کا ٹیلی ویژن جو جیب میں رکھا جا سکتا تھا۔ چھوٹا سا کیمرہ اور دوربین، چھوٹی سی چھرے والی بندوق
ایک تھیلی کے چٹے بٹے
کہا جاتا ہے کہ کسی زمانے میں دو آدمی پیدل سفر پر نکلے، ایک مشرق سے مغرب کی طرف اور دوسرا مغرب سے شرق کی جانب، دونوں کی مڈبھیڑ کسی تالاب پر ایک سایہ دار درخت کے نیچے ہوئی۔ دوپہر کا وقت تھا، چلچلاتی دھوپ تھی، دونوں نے درخت کے گھنے اور ٹھنڈے سائے میں کچھ
ہاتھی کے گلے میں ڈھولک
ایک دفعہ مہاراجا رنجیت سنگھ نے کسی میراثی پرخوش ہو کر روپے اور خلعت کے ساتھ اسےایک ہاتھی بھی بخش دیا۔ مہاراجا نے تو بڑی فیاضی دکھائی۔ مگر میراثی بہت گھبرایا کہ اسے روز دانہ چارہ کہاں سے کھلاؤں گا اور خدمت کے لیے نوکر کہاں سے لاؤں گا۔ کچھ سوچنے
اوئے چوہا!
مسٹر چوہے خاں روز لوگوں سے بھری ہوئی بس کو سڑک پر فراٹے بھرتے دیکھتے ان کا بھی جی چاہتا کہ وہ بس کی سیر کریں۔ لیکن چھوٹے پاؤں ہونے کی وجہ سے اتنی لمبی چھلانگ نہ لگا سکتے تھے کہ پائیدان پر جا چڑھیں۔ سردیوں کے دن تھے۔ چوہے خاں سڑک پر بیٹھے دھوپ سینک
پنجرے کی شہزادی
ہزاروں سال پہلے کا واقعہ ہے چین پر ایک نیک دل بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ اس کی ایک ہی لڑکی تھی۔ شہزادی خاور اس کا نام تھا۔ وہ بہت خوبصورت تھی۔ اس کا چہرہ سورج کی طرح چمکتا دمکتا تھا۔ شہزادی کو بچپن ہی سے پھول اچھے لگتے تھے۔ وہ ہر وقت اپنے محل کے باغ میں
گھاس کی شکایت
راجاوکرمادتیہ بھارت کے مشہور راجا تھے۔ کہا جاتا ہے کہ راجا کو بھگوان نے وہ طاقت دی تھی کہ وہ چھپی ہوئی چیزوں کا پتہ چلا لیتے تھے۔ ایک دن انہوں نے اپنے دربار میں کہا کہ وہ جنگل کی سیر کرنا چاہتے ہیں۔ وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ ا کی حکومت میں جانوروں اور
ہمدردی کا صلہ
بہت پرانے زمانے کی بات ہے کہ ایک چھوٹی سی پہاڑی کے دامن میں میاں بیوی رہتے تھے جو بہت ہی بوڑھے تھے۔ ان کا مکان دیہات سے ذرا الگ تھلگ تھا۔ ان کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ دودھ کے لیے ایک گائے رکھی ہوئی تھی۔ ضرورت کے مطابق اناج اور سبزی اگا لیتے تھے اور اپنے
دل اور زبان
کہتے ہیں جب لقمان حکیم پڑھ کر فارغ ہو چکے تو استاد نے کہا۔ ’’لقمان! آج ایک بکرا ذبح کرو اور اس میں جو سب سے اچھی چیز سمجھو، ہمارے لیے پکا لاؤ۔‘‘ لقمان نے بکرا حلال کر کے اس کے دل اور زبان کو خوب اچھے مسالوں کے ساتھ بھون بھان کر استاد کے سامنے رکھ دیا۔
گدھا اور گھوڑا
دو شخص کسی شہر سے لاہور روانہ ہوئے جن میں سے ایک تو گھوڑے پر سوار تھا۔ اور دوسرا گدھے پر۔ گدھے والے نے کہا۔ ’’میاں سوار خاں! سفر میں دو آدمی مل کر چلیں۔ تو ایک دوسرے کی رفاقت سے بہت خوش رہتے ہیں۔ اگر ہم تم ساتھی ہو جائیں تو راستہ بھی اچھا کٹے اور منزل
کام سے نہ ڈرو
ایک سوداگر کسی سفر میں جہاز پر سوار ہوا تو باتوں باتوں میں کپتان سے پوچھا۔ ’’آپ کے والد کیا کام کرتے تھے؟‘‘ اس نے کہا۔ ’’مہربان! باپ پر کیا موقوف ہے۔ ہماری سات پیڑھیاں جہاز رانی ہی کرتے تھے گزر گئی ہیں۔‘‘ سوداگر نے پوچھا۔ آپ کے باپ کی قبر کہاں ہے؟‘‘ کپتان
استاد کی مار
ایک دن مامون رشید کی والدہ نے اس کے استاد سے کہلا بھیجا۔ ’’شہزادہ گھر میں شوخی کرتا ہے۔ اسے سزا دینی چاہیے۔‘‘ استاد نے شہزادے کے منہ پر دو چار طمانچے لگا کر کان پکڑوا دیے۔ جس سے مامون کو اتنی تکلیف ہوئی کہ بے اختیار آنسو جاری ہو گئے۔ یہ کان پکڑے
لالچ کی سزا
ایک غریب آدمی کے مکان کی چھت ٹوٹ گئی تھی اور وہ اُس پر گھاس پھونس بچھا رہا تھا کہ اتفاق سے ایک سخی امیر بھی اُدھر آ نکلا اور کہا۔ بھلے آدمی! اس گھاس پھونس سے بارش کیا رُکے گی۔ پکی چھت بنوا لو تو ٹپکنے کا اندیشہ جاتا رہے۔‘‘ غریب نے جواب دیا۔ ’’جناب!
سچائی کا انجام
ایک کسان کے کھیت میں کسی امیر کے گھوڑے گھس گئے۔ جنہوں نے کچھ تو روند کر اور کچھ چر کر کھیت کا ستیاناس کر دیا۔ کسان غصے بھرا ہوا امیر کے پاس گیا اور کہا کہ آپ کے گھوڑوں نے میرا کھیت تباہ کر دیا ہے۔ امیر نے کہا۔ تمھارے خیال میں کتنا نقصان ہوا ہوگا؟‘‘ کسان
گفتگو کا سلیقہ
ایک دفعہ ہارون رشید نے خواب میں دیکھا کہ میرے بہت سے دانٹ ٹوٹ کر گر پڑے ہیں۔ صبح ہوئی تو عالموں کو بلا کر خواب کی تعبیر پوچھی۔ ایک شخص نے کہا۔ ’’آپ کے اکثر عزیز آپ کے سامنے مر جائیں گے۔‘‘ یہ بات ہارون رشید کو اتنی ناگوار گزری کہ اس شخص کو اسی وقت دربار
علم کی طاقت
کولمبس جس نے امریکہ دریافت کیا تھا ایک جہاز ران کا بیٹا تھا۔ ایسے لوگوں کو ستاروں کی چال بخوبی معلوم ہوتی ہے۔ کیونکہ اسی علم پر جہاز رانی موقوف ہے۔ ایک دن کولمبس کو خیال آیا کہ سمندر کا دوسرا کنارہ بھی دیکھنا چاہیے۔ کیا عجب کہ ادھر بھی کوئی ملک آباد
ماں کی خدمت
گرمی کے دنوں میں ایک امیر دوپہر کے وقت اپنے کمرے میں سو رہا تھا اور نوکر باہر بیٹھا پنکھا کھینچ رہا تھا کہ آقا اور ملازم دونوں کو نیند آ گئی۔ گرمی کے مارے امیر کی آنکھ کھلی تو اس نے پانی کے لیے نوکر کو آواز دی مگر جواب نہ پا کر خود باہر نکلا تو دیکھا
آج کا کام نہ رکھو کل پر
ایک دفعہ کسی گاؤں کا چودھری سودا لینے شہر میں آیا تو دیکھا، کسی جگہ لوگ ایک وکیل کی بڑی تعریف کر رہے ہیں کہ وہ تو سو سو روپے کی ایک ایک بات بتاتا اور ہزار ہزار روپے کا ایک ایک نکتہ سمجھاتا ہے۔ چودھری نے دل میں کہا۔ ’’ہم بھی چل کر اس کی کوئی بات سن آئیں
ہنر کی دولت
کسی جزیرے میں ایک امیر رہتا تھا۔ جسے شکار کا بہت شوق تھا مگر شکار کو جاتے ہوئے ایک جگہ کسی غریب ٹوکریاں بننے والے کی زمین پڑتی تھی۔ اس زمین میں نرسل اگے ہوئے تھے۔ اس کھیت کی ناہمواری اور نرسلوں میں سے گزرنے کی تکلیف امیر کو بہت ناگوار معلوم ہوتی تھی۔ ایک
دو بھائی
دو بھائیوں کو جیب خرچ کے لیے گھر سے ایک ایک پیسہ روز مل جایا کرتا تھا۔ چھوٹے کی تو یہ عادت تھی کہ کبھی خرچ کرتا اور کبھی اس صندوق میں ڈال دیتا جو مدرسے میں غریب بچوں کی امداد کے لیے رکھا رہتا تھا۔ بڑے بھائی کی یہ حالت تھی کہ جب مدرسے میں کھیلنے کی چھٹی
دولت اور علم
ایک شہر میں دو دولت مندوں کے بیٹے آپس میں گہرے یار تھے۔ دونوں کی ایک ہی زمانے میں شادیاں ہوئیں اور دو ہی سال میں ایک کے ہاں لڑکا ہوا۔ دوسرے کے ہاں لڑکی۔ دونوں نے اقرار کیا کہ جوان ہونے پر ان دونوں بچوں کا آپس میں بیاہ کر دیں گے۔ لڑکی والے نے لڑکی
بے فکری
ایک دن اکبر بادشاہ دربار لگائے بیٹھا تھا کہ ایک ہاتھی کے بے قابو ہو کر چھوٹ جانے سے ’’ہٹو بچو‘‘ کا غل ہونے لگا۔ بادشاہ نے کھڑکی کی طرف منہ کیا تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک نوجوان نے دوڑتے ہوئے ہاتھی کی دم پکڑ کر اسے فوراً روک لیا ہے۔ بادشاہ نے بیر بل کو اس
کچے سوت کی انٹی
ایک شخص کے بیٹے ہمیشہ لڑتے جھگڑتے رہتے تھے۔ ایک دن باپ نے سب کو پاس بلایا اور کچے سوت کی ایک انٹی دے کر فرمایا۔ ’’تم سب شہ زور نوجوان ہو۔ آج تمہاری طاقت کا امتحان ہے۔ اگر تم میں سے کوئی اس انٹی کو ایک دو جھٹکوں میں توڑ دے تو ہم پانچ روپے انعام دیں گے۔‘‘
غرور کا انجام
اٹلی کا ایک بادشاہ حکومت اور دولت کے گھمنڈ میں غریب سے بات تک کرنا برا جانتا تھا۔ اس لیے اکثر لوگ اسے پسند نہیں کرتے تھے۔ ایک دن یہ شکار میں کسی جانور کے پیچھے گھوڑا ڈالے اتنی دور نکل گیا کہ نوکر چاکر سب بچھڑ گئے اور بادشاہ اکیلا رہ گیا۔ اتنے میں ایک
محمود اور ایاز
سلطان محمود اپنے نوکروں میں سے ایاز پر بڑا مہربان تھا۔ اس لیے تمام نوکر اسی فکر میں رہتے تھے کہ اس کی کوئی شکایت کر کے سلطان کا دل کھٹا کردیں۔ آخر بہت تلاش کے بعد انہیں معلوم ہوا کہ ایاز جس پلنگ پر سویا کرتا ہے۔ اس کے سرہانے چاندی کا ایک صندوق رکھا
بہلول دانا
بہلول نامی ایک بزرگ غزنی کے رہنے والے تھے۔ یہ اکثر ایسی حرکتیں اور ایسی باتیں کر دیا کرتے تھے جو بظاہر سمجھ میں نہ آتی تھیں۔ بھوک لگتی تو بھری مجلس میں کچھ لے کر کھانا شروع کر دیتے۔ نیند آتی تو چاہے کوئی امیر یا غریب پاس بیٹھا ہو یہ پاؤں پھیلا کر لیٹ
بردباری کا نتیجہ
ایک محلے میں دو ہمسائے پاس پاس رہتے تھے۔ ایک بڑا لڑاکا تھا اور دوسرا دھیما اور دانا۔ دانا کے یہاں کچھ مرغیاں پلی ہوئی تھیں مگر اس بات کا وہ ہمیشہ خیال رکھتا۔ کہ ہمسایوں کو تکلیف نہ ہو۔ باہر جاتے وقت مرغیوں کو دانہ پانی دے کر بند کر جاتا اور جب گھر آتا
بڑھیا کا جھونپڑا
کہتے ہیں۔ نوشیران نے شاہی محل بنوانا چاہا تو اس کے چوکور بنانے کے لیے ایک طرف کسی قدر زمین کی ضرورت تھی۔ جس پر ایک غریب بڑھیا کا جھونپڑا بنا ہوا تھا۔ سرکاری ملازموں نے بڑھیا سے زمین خریدنی چاہی تو اس نے بیچنے سے انکار کر دیا۔ نوشیرواں نے سنا تو فرمایا۔
گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں
ایک کسان کا بیٹا کھیل کود میں وقت کو بے فائدہ گنوایا کرتا تھا۔ باپ نے بہت سمجھایا مگر اس نے اپنی عادت نہ بدلی۔ آخر باپ نے سوچ کر یہ ترکیب نکالی کی بسنت کے دن صبح کے وقت بیٹے کو اپنے ساتھ کھیت پر لے گیا اور کہا۔ بیٹا! آج کے دن جن سب سے اچھی بالوں کے دانے
بادشاہ اور غریب میں فرق
ایک بادشاہ خود تو رحم دل اور نیک مزاج تھا۔ مگر اس کا بیٹا اتنا بے رحم اور تلخ مزاج کہ جب دیکھ غصے میں تیوری چڑھائے ہوئے نوکروں کو ڈانٹتا ڈپٹتا مارتا پیٹتا ہی نظر آتا۔ بادشاہ کو یہ خبریں پہنچتیں تو بہت رنج ہوتا۔ بہتیرا اشاروں میں سمجھاتا۔ مگر بیٹے پر
دیانتداری
کہتے ہیں۔ نوشیروان عادل اکثر راتوں کو بھیس بدل کر رعایا کا حال دیکھا کرتا تھا۔ ایک رات وہ کسی زمیندار کے گھر پہنچا جو مہمان نوازی میں بہت مشہور تھا۔ نوشیرواں نے سوداگروں کے لباس میں اس کے گھر جا کر دستک دی۔ تو شریف زمیندار خوشی کے ساتھ دروازہ کھول کر