Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پنجرے کی شہزادی

نامعلوم

پنجرے کی شہزادی

نامعلوم

MORE BYنامعلوم

    ہزاروں سال پہلے کا واقعہ ہے چین پر ایک نیک دل بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ اس کی ایک ہی لڑکی تھی۔ شہزادی خاور اس کا نام تھا۔ وہ بہت خوبصورت تھی۔ اس کا چہرہ سورج کی طرح چمکتا دمکتا تھا۔ شہزادی کو بچپن ہی سے پھول اچھے لگتے تھے۔ وہ ہر وقت اپنے محل کے باغ میں کلیوں اور پھولوں سے کھیلتی رہتی۔ ایک دن سیر کے دوران اس نے گلاب کی ٹہنی پر پھدکتی ہوئی ایک سوہنی، من موہنی سی چڑیا دیکھی۔ شہزادی کا جی چاہتا تھا کہ اس چڑیا کو پکڑ کر کسی پنجرے میں بند کر لے۔ اس نے دوڑ کر چڑیا کو پکڑنے کی کوشش کی، مگر چڑیا جتنی خوبصورت تھی، اتنی ہی شرارتی تھی۔ وہ ایک شاخ سے اڑتی تو دوسری پر جا کر بیٹھ جاتی۔

    آخر تھک کر شہزادی نے ایک کنکری اٹھائی اور چڑیا کو دے ماری۔ وہ بے چاری زخمی ہو کر کیاری میں گر گئی۔ شہزادی خاور اسے پکڑنے کے لئے لپکی، مگر جوں ہی اس کے قریب گئی، اس کی نظروں کے سامنے دھواں سا چھا گیا۔ پھر اس دھوئیں میں شہزادی کو ایک کالی کالی ڈراؤنی شکل نظر آئی۔ وہ ڈر کے مارے سہم گئی، اور پیچھے دوڑنے والی تھی کہ کسی کے قہقہے کی آواز سنائی دی۔ شہزادی کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ اس نے ایک چیخ ماری، اور غش کھا کر زمین پر گر پڑی۔ دور کھڑا مالی یہ منظر دیکھ رہا تھا۔

    وہ بھاگا بھاگا شہزادی کے پاس آیا، اور اسے ہوش میں لانے کی بڑی کوشش کی۔ جب کافی دیر تک شہزادی کو ہوش نہ آیا، تو وہ اسے اٹھا کر ملکہ کے پاس لے آیا۔ بادشاہ کو اطلاع ملی تو وہ بھی دربار برخاست کر کے محل میں چلا آیا اور بہت سے حکیموں کو شہزادی کے علاج کے لئے بلوایا، مگر اسے ہوش نہ آیا۔ یہ خبر ملک کے کونے کونے میں پھیل گئی۔ رات کے بارہ بجے کے قریب بادشاہ پریشانی کے عالم میں شہزادی کی چارپائی کے گرد ٹہل رہا تھا کہ اسے کمرے میں ایک آواز آئی ’’سب یہاں سے نکل جاؤ ورنہ شہزادی مرجائے گی۔‘‘ بادشاہ کو اپنی اکلوتی بیٹی سے بہت پیار تھا، وہ فوراً کمرے سے نکل گیا۔ اور دن نکلنے کا انتظار کرنے لگا۔ صبح سویرے وہ شہزادی کے کمرے میں داخل ہوا تو وہ شہزادی کو بستر سے غائب پاکر حیران رہ گیا۔ چارپائی کے سرہانے ایک پیاری سی چڑیا بیٹھی ہوئی تھی۔ بادشاہ نے اسے اڑانا چاہا، مگر ایسا نہ ہوسکا۔ بادشاہ نے اپنے وزیر کو بلا کر صلاح مشورہ کیا، تو وزیر نے کہا:

    ’’جہاں پناہ! اس چڑیا کو پنجرے میں بند کر دیا جائے۔‘‘ اس کے بعد سارے ملک میں منادی کر دی جائے گئی، کہ جو پنجرے کی چڑیا کو شہزادی کے روپ میں لائے گا اسی سے شہزادی کی شادی کردی جائے گی۔ یہ اعلان سن کر بہت سے لوگ اپنی قسمت آزمانے نکلے، لیکن کوئی بھی اس راز کو نہ سمجھ سکا۔ اتفاق سے دور دراز کے شہر میں ایک غریب لڑکا رہتا تھا۔ جس نے دن رات ایک کر کے دسویں جماعت پاس کی تھی۔ اس لڑکے کا نام شریف تھا۔ وہ بڑا محنتی اور بااخلاق لڑکا تھا۔ اس کا دل چاہتا تھا کہ کسی طرح سے وہ پنجرے کی چڑیا کو شہزادی کے روپ میں لے آئے اور پھر چین کا بادشاہ بن جائے۔

    شریف ایک رات اسی سوچ میں ڈوبا ہوا تھا کہ اسے کمرے سے کھی کھی کھی کی آواز سنائی دی۔ شاید کوئی ہنس رہا ہے، شریف نے سوچا۔ پھر اس نے اردگرد دیکھا لیکن وہاں اسے صرف اپنا ہی سایہ نظر آرہا تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد پھر ہنسی کی آواز آئی۔ شریف مخاطب ہوا:

    ’’کون ہے؟‘‘

    ’’میں ہوں۔‘‘ آواز آئی۔

    اس نے پوچھا۔ ’’میں کون؟‘‘

    آواز آئی۔ ’’میں بھوت ہوں۔‘‘

    شریف نے سوال کیا۔ ’’یہاں کیا لینے آئے ہو؟‘‘

    بھوت نے جواب دیا۔ ’’کچھ نہیں۔‘‘

    ’’جاؤ پھر مجھے آرام کرنے دو۔‘‘ شریف نے کہا۔ بھوت نے کہا۔ ’’میں نہیں جاؤں گا۔‘‘ شریف نے کہا۔ ’’تو نہ جاؤ، میرے ساتھ آکر لیٹ رہو۔‘‘ بھوت یہ سن کر بہت خوش ہوا۔ اس نے شریف سے کہا۔ ’’تم اچھے لڑکے معلوم ہوتے ہو۔ مجھے دوست بنانا پسند کروگے؟‘‘

    ’’کیوں نہیں۔‘‘ شریف نے جواب دیا۔ اور پھر ایک ننھے منے بونے کی شکل کا بھوت شریف کے کمرے میں ٹہلنے لگا۔ دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور گھل مل کر باتیں کرنے لگے۔ شریف نے بھوت کو بتایا کہ اس کے دل میں شہزادی سے شادی کرنے کی خواہش ہے۔ مگر وہ بے چاری تو پنجرے میں بند ہے۔ بھوت یہ سن کر بہت ہنسا اور کہنے لگا۔ ’’یار فکر مت کرو، تمہاری یہ خواہش پوری ہوجائے گی۔‘‘ اس کے بعد بھوت نے کہا کہ ’’میں یہ سارا راز خوب جانتا ہوں۔‘‘

    شریف نے پوچھا:

    ’’کیسے؟ ذرا بتاؤ تو سہی۔‘‘

    بھوت نے کہا۔ ’’ایک دن میں صبح شہزادی کے باغ میں چڑیا بن کر اڑ رہا تھا کہ شہزادی نے مجھے کنکری مار کر چھیڑا، مجھے غصہ آگیا۔ میں جب اپنے اصلی روپ میں آیا، تو شہزادی بے ہوش ہوگئی۔ رات کو میں اسے وہاں سے اٹھا لایا اور اس کی جگہ ایک چڑیا چھوڑ آیا۔

    اب یہ شہزادی سمندر پار کے جزیرے کی ایک کال کوٹھری میں بند ہے یہ لو اس کی چابی، لیکن میرے دوست ذرا ہمت سے جانا، راستہ بہت خطرناک ہے۔ اگر کوئی اور بھوت تمہارا راستہ روکے تو اسے میری یہ انگوٹھی دکھا دینا۔‘‘ اتنا کہہ کر بھوت کمرے سے غائب ہوگیا۔ شریف دوسرے دن سیدھا بادشاہ کے پاس پہنچا اور اس سے کہا کہ مجھے اصل راز معلوم ہوچکا ہے۔ آپ کی بیٹی سمندر پار کے جزیرے میں قید ہے۔ میں جب اسے رہا کراؤں گا تو یہ پنجرے کی چڑیا خود بخود اڑ جائے گی۔

    بادشاہ یہ سن کر بہت خوش ہوا۔ شریف نے اس سے اجازت طلب کی اور کال کوٹھڑی کی طرف روانہ ہوگیا۔ راستے میں اسے ایک بوڑھا بابا ملا، اس نے شریف سے کہا۔ ’’بیٹا! مجھے بڑی بھوک لگی ہوئی ہے، کچھ کھانے کو ہے تو دے دو؟‘‘ شریف کے پاس ایک ہی روٹی تھی جو اس نے بابا کو دے دی۔ بابا نے اسے دعائیں دیں۔ وہ اپنی منزل کی طرف جارہا تھا کہ سمندر کے کنارے، باہر خشکی پر ایک مچھلی تڑپ رہی تھی۔ شریف نے اسے پکڑ کر پانی میں چھوڑ دیا۔ مچھلی نے بھی اسے ڈھیر ساری دعائیں دیں۔ پھر شریف کو راستے میں کئی بھوت ملے، مگر اس نے اپنی انگوٹھی دکھائی تو انہوں نے اسے جانے دیا۔ سمندر پار کے جزیرے میں پہنچتے ہی شریف کی نظر ایک پرانی ٹوٹی پھوٹی کوٹھڑی پر پڑی۔ وہ سمجھ گیا کہ شہزادی یہیں ہوگی۔ اس نے بڑھ کر دروازہ کھولا تو سامنے پتوں کے بنے ہوئے قالین پر شہزادی خاور سوئی ہوئی تھی۔ شریف کے قدموں کی آواز سن کر وہ جاگ پڑی اور اپنے قریب ایک انسان کی صورت دیکھ کر وہ رونے لگی۔ شریف نے اس کی ہمت بڑھائی اور اسے واپس محل میں لے آیا۔ بادشاہ اپنی بیٹی کو زندہ سلامت دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ اس نے پنجرے کی طرف دیکھا تو وہ خالی تھا۔ چڑیا اس میں سے خودبخود اڑ چکی تھی اور اس کے سامنے اس کی بیٹی خاور بیٹھی تھی۔ بادشاہ نے اس کی شادی شریف سے کردی، اور دونوں ہنسی خوشی زندگی گزارنے لگے۔

    مأخذ:

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے