تمام
تعارف
غزل19
نظم10
شعر562
مزاحیہ1
ای-کتاب35
تصویری شاعری 30
آڈیو 1
ویڈیو 625
قطعہ5
قصہ59
بچوں کی کہانی25
لوری1
گیت2
پہیلی37
نامعلوم کے اشعار
دل ٹوٹنے سے تھوڑی سی تکلیف تو ہوئی
لیکن تمام عمر کو آرام ہو گیا
زاہد شراب پینے دے مسجد میں بیٹھ کر
یا وہ جگہ بتا دے جہاں پر خدا نہ ہو
زندگی یوں ہی بہت کم ہے محبت کے لیے
روٹھ کر وقت گنوانے کی ضرورت کیا ہے
بے چین اس قدر تھا کہ سویا نہ رات بھر
پلکوں سے لکھ رہا تھا ترا نام چاند پر
کسی کو کیسے بتائیں ضرورتیں اپنی
مدد ملے نہ ملے آبرو تو جاتی ہے
لوگ کانٹوں سے بچ کے چلتے ہیں
میں نے پھولوں سے زخم کھائے ہیں
عید آئی تم نہ آئے کیا مزا ہے عید کا
عید ہی تو نام ہے اک دوسرے کی دید کا
مل کے ہوتی تھی کبھی عید بھی دیوالی بھی
اب یہ حالت ہے کہ ڈر ڈر کے گلے ملتے ہیں
تم ہنسو تو دن نکلے چپ رہو تو راتیں ہیں
کس کا غم کہاں کا غم سب فضول باتیں ہیں
مجھ کو چھاؤں میں رکھا اور خود بھی وہ جلتا رہا
میں نے دیکھا اک فرشتہ باپ کی پرچھائیں میں
دیکھا ہلال عید تو آیا تیرا خیال
وہ آسماں کا چاند ہے تو میرا چاند ہے
ان کے ہونے سے بخت ہوتے ہیں
باپ گھر کے درخت ہوتے ہیں
پیتا ہوں جتنی اتنی ہی بڑھتی ہے تشنگی
ساقی نے جیسے پیاس ملا دی شراب میں
کچھ خوشیاں کچھ آنسو دے کر ٹال گیا
جیون کا اک اور سنہرا سال گیا
یہ تو اک رسم جہاں ہے جو ادا ہوتی ہے
ورنہ سورج کی کہاں سالگرہ ہوتی ہے
جن کے کردار سے آتی ہو صداقت کی مہک
ان کی تدریس سے پتھر بھی پگھل سکتے ہیں
حسین چہرے کی تابندگی مبارک ہو
تجھے یہ سالگرہ کی خوشی مبارک ہو
دنیا میں وہی شخص ہے تعظیم کے قابل
جس شخص نے حالات کا رخ موڑ دیا ہو
مانگی تھی ایک بار دعا ہم نے موت کی
شرمندہ آج تک ہیں میاں زندگی سے ہم
اے آسمان تیرے خدا کا نہیں ہے خوف
ڈرتے ہیں اے زمین ترے آدمی سے ہم
غم وہ مے خانہ کمی جس میں نہیں
دل وہ پیمانہ ہے بھرتا ہی نہیں
ایک بوسے کے طلب گار ہیں ہم
اور مانگیں تو گنہ گار ہیں ہم
پیمانہ کہے ہے کوئی مے خانہ کہے ہے
دنیا تری آنکھوں کو بھی کیا کیا نہ کہے ہے
تنہائیاں تمہارا پتہ پوچھتی رہیں
شب بھر تمہاری یاد نے سونے نہیں دیا
اس بھروسے پہ کر رہا ہوں گناہ
بخش دینا تو تیری فطرت ہے
گزر تو جائے گی تیرے بغیر بھی لیکن
بہت اداس بہت بے قرار گزرے گی
کتابیں بھی بالکل میری طرح ہیں
الفاظ سے بھرپور مگر خاموش
شام ہوتے ہی چراغوں کو بجھا دیتا ہوں
دل ہی کافی ہے تری یاد میں جلنے کے لیے
خدا کرے نہ ڈھلے دھوپ تیرے چہرہ کی
تمام عمر تری زندگی کی شام نہ ہو
شاخیں رہیں تو پھول بھی پتے بھی آئیں گے
یہ دن اگر برے ہیں تو اچھے بھی آئیں گے
یہ بے خودی یہ لبوں کی ہنسی مبارک ہو
تمہیں یہ سالگرہ کی خوشی مبارک ہو
دل میں طوفان ہو گیا برپا
تم نے جب مسکرا کے دیکھ لیا
سلیقے سے ہواؤں میں جو خوشبو گھول سکتے ہیں
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جو اردو بول سکتے ہیں
میں اپنے ساتھ رہتا ہوں ہمیشہ
اکیلا ہوں مگر تنہا نہیں ہوں
موت سے کیوں اتنی وحشت جان کیوں اتنی عزیز
موت آنے کے لیے ہے جان جانے کے لیے
عیش کے یار تو اغیار بھی بن جاتے ہیں
دوست وہ ہیں جو برے وقت میں کام آتے ہیں
فرشتے حشر میں پوچھیں گے پاک بازوں سے
گناہ کیوں نہ کیے کیا خدا غفور نہ تھا
دیکھا نہ کوہ کن کوئی فرہاد کے بغیر
آتا نہیں ہے فن کوئی استاد کے بغیر
دوستی خواب ہے اور خواب کی تعبیر بھی ہے
رشتۂ عشق بھی ہے یاد کی زنجیر بھی ہے
شہر میں مزدور جیسا در بدر کوئی نہیں
جس نے سب کے گھر بنائے اوس کا گھر کوئی نہیں
جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں
میں اپنے شہر کا سب سے بڑا فسادی ہوں
پلکوں کی حد کو توڑ کے دامن پہ آ گرا
اک اشک میرے صبر کی توہین کر گیا
گونجتے رہتے ہیں الفاظ مرے کانوں میں
تو تو آرام سے کہہ دیتا ہے اللہ حافظ
ہم خدا کے کبھی قائل ہی نہ تھے
ان کو دیکھا تو خدا یاد آیا
چہرہ کھلی کتاب ہے عنوان جو بھی دو
جس رخ سے بھی پڑھو گے مجھے جان جاؤ گے
یہ ہمیں ہیں کہ ترا درد چھپا کر دل میں
کام دنیا کے بہ دستور کیے جاتے ہیں