Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
noImage

نامعلوم

نامعلوم کے اشعار

153.2K
Favorite

باعتبار

زاہد شراب پینے دے مسجد میں بیٹھ کر

یا وہ جگہ بتا دے جہاں پر خدا نہ ہو

دل ٹوٹنے سے تھوڑی سی تکلیف تو ہوئی

لیکن تمام عمر کو آرام ہو گیا

جان لینی تھی صاف کہہ دیتے

کیا ضرورت تھی مسکرانے کی

زندگی یوں ہی بہت کم ہے محبت کے لیے

روٹھ کر وقت گنوانے کی ضرورت کیا ہے

بے چین اس قدر تھا کہ سویا نہ رات بھر

پلکوں سے لکھ رہا تھا ترا نام چاند پر

کسی کو کیسے بتائیں ضرورتیں اپنی

مدد ملے نہ ملے آبرو تو جاتی ہے

لوگ کانٹوں سے بچ کے چلتے ہیں

میں نے پھولوں سے زخم کھائے ہیں

عید آئی تم نہ آئے کیا مزا ہے عید کا

عید ہی تو نام ہے اک دوسرے کی دید کا

تم ہنسو تو دن نکلے چپ رہو تو راتیں ہیں

کس کا غم کہاں کا غم سب فضول باتیں ہیں

مل کے ہوتی تھی کبھی عید بھی دیوالی بھی

اب یہ حالت ہے کہ ڈر ڈر کے گلے ملتے ہیں

مجھ کو چھاؤں میں رکھا اور خود بھی وہ جلتا رہا

میں نے دیکھا اک فرشتہ باپ کی پرچھائیں میں

دیکھا ہلال عید تو آیا تیرا خیال

وہ آسماں کا چاند ہے تو میرا چاند ہے

ان کے ہونے سے بخت ہوتے ہیں

باپ گھر کے درخت ہوتے ہیں

کچھ خوشیاں کچھ آنسو دے کر ٹال گیا

جیون کا اک اور سنہرا سال گیا

پیتا ہوں جتنی اتنی ہی بڑھتی ہے تشنگی

ساقی نے جیسے پیاس ملا دی شراب میں

جن کے کردار سے آتی ہو صداقت کی مہک

ان کی تدریس سے پتھر بھی پگھل سکتے ہیں

یہ تو اک رسم جہاں ہے جو ادا ہوتی ہے

ورنہ سورج کی کہاں سالگرہ ہوتی ہے

حسین چہرے کی تابندگی مبارک ہو

تجھے یہ سالگرہ کی خوشی مبارک ہو

دنیا میں وہی شخص ہے تعظیم کے قابل

جس شخص نے حالات کا رخ موڑ دیا ہو

مانگی تھی ایک بار دعا ہم نے موت کی

شرمندہ آج تک ہیں میاں زندگی سے ہم

اے آسمان تیرے خدا کا نہیں ہے خوف

ڈرتے ہیں اے زمین ترے آدمی سے ہم

ایک بوسے کے طلب گار ہیں ہم

اور مانگیں تو گنہ گار ہیں ہم

تنہائیاں تمہارا پتہ پوچھتی رہیں

شب بھر تمہاری یاد نے سونے نہیں دیا

پیمانہ کہے ہے کوئی مے خانہ کہے ہے

دنیا تری آنکھوں کو بھی کیا کیا نہ کہے ہے

غم وہ مے خانہ کمی جس میں نہیں

دل وہ پیمانہ ہے بھرتا ہی نہیں

گزر تو جائے گی تیرے بغیر بھی لیکن

بہت اداس بہت بے قرار گزرے گی

کتابیں بھی بالکل میری طرح ہیں

الفاظ سے بھرپور مگر خاموش

اس بھروسے پہ کر رہا ہوں گناہ

بخش دینا تو تیری فطرت ہے

خدا کرے نہ ڈھلے دھوپ تیرے چہرہ کی

تمام عمر تری زندگی کی شام نہ ہو

شام ہوتے ہی چراغوں کو بجھا دیتا ہوں

دل ہی کافی ہے تری یاد میں جلنے کے لیے

شاخیں رہیں تو پھول بھی پتے بھی آئیں گے

یہ دن اگر برے ہیں تو اچھے بھی آئیں گے

اب میں سمجھا ترے رخسار پہ تل کا مطلب

دولت حسن پہ دربان بٹھا رکھا ہے

تشریح

رخسار یعنی گال، دولتِ حسن یعنی حسن کی دولت، دربان یعنی رکھوالا۔ یہ شعر اپنے مضمون کی ندرت کی وجہ سے زبان زدِ عام ہے۔ شعر میں مرکزی حیثیت ’’رخسار پر تل‘‘ کو حاصل ہے کیونکہ اسی کی مناسبت سے شاعر نے مضمون پیدا کیا ہے۔ محبوب کے رخسار کو دربان(رکھوالا) سے مشابہ کرنا شاعر کا کمال ہے۔ اور جب دولتِ حسن کہا تو گویا محبوب کے سراپا کو آنکھوں کے سامنے لایا۔

رخسار پر تل ہونا حسن کی ایک علامت سمجھا جاتا ہے۔ مگر چونکہ محبوب پیکرِ جمال ہے اس خوبی کی مناسبت سے شاعر نے یہ خیال باندھا ہے کہ جس طرح بری نظر سے محفوظ رکھنے کے لئے خوبصورت بچوں کے گال پر کالا ٹیکہ لگایا جاتا ہے اسی طرح میرے محبوب کو لوگوں کی بری نظر سے بچانے کے لئے خدا نے اس کے گال پر تل رکھا ہے۔ اور جس طرح مال و دولت کو لٹیروں سے محفوظ رکھنے کے لئے اس پر دربان (رکھوالے)بٹھائے جاتے ہیں بالکل اسی طرح خدا نے میرے محبوب کے حسن کو بری نظر سے محفوظ رکھنے کے لئے اس کے گال پر تل بنایا ہے۔

شفق سوپوری

سلیقے سے ہواؤں میں جو خوشبو گھول سکتے ہیں

ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جو اردو بول سکتے ہیں

یہ بے خودی یہ لبوں کی ہنسی مبارک ہو

تمہیں یہ سالگرہ کی خوشی مبارک ہو

میں اپنے ساتھ رہتا ہوں ہمیشہ

اکیلا ہوں مگر تنہا نہیں ہوں

دل میں طوفان ہو گیا برپا

تم نے جب مسکرا کے دیکھ لیا

یہ ہمیں ہیں کہ ترا درد چھپا کر دل میں

کام دنیا کے بہ دستور کیے جاتے ہیں

دیکھا نہ کوہ کن کوئی فرہاد کے بغیر

آتا نہیں ہے فن کوئی استاد کے بغیر

موت سے کیوں اتنی وحشت جان کیوں اتنی عزیز

موت آنے کے لیے ہے جان جانے کے لیے

عیش کے یار تو اغیار بھی بن جاتے ہیں

دوست وہ ہیں جو برے وقت میں کام آتے ہیں

فرشتے حشر میں پوچھیں گے پاک بازوں سے

گناہ کیوں نہ کیے کیا خدا غفور نہ تھا

دوستی خواب ہے اور خواب کی تعبیر بھی ہے

رشتۂ عشق بھی ہے یاد کی زنجیر بھی ہے

شہر میں مزدور جیسا در بدر کوئی نہیں

جس نے سب کے گھر بنائے اوس کا گھر کوئی نہیں

زندگی کے اداس لمحوں میں

بے وفا دوست یاد آتے ہیں

گونجتے رہتے ہیں الفاظ مرے کانوں میں

تو تو آرام سے کہہ دیتا ہے اللہ حافظ

پلکوں کی حد کو توڑ کے دامن پہ آ گرا

اک اشک میرے صبر کی توہین کر گیا

ہم نے اس کو اتنا دیکھا جتنا دیکھا جا سکتا تھا

لیکن پھر بھی دو آنکھوں سے کتنا دیکھا جا سکتا تھا

عید کے بعد وہ ملنے کے لیے آئے ہیں

عید کا چاند نظر آنے لگا عید کے بعد

چہرہ کھلی کتاب ہے عنوان جو بھی دو

جس رخ سے بھی پڑھو گے مجھے جان جاؤ گے

سنا ہے تیری محفل میں سکون دل بھی ملتا ہے

مگر ہم جب تری محفل سے آئے بے قرار آئے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے