Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

لالچ کی سزا

نامعلوم

لالچ کی سزا

نامعلوم

MORE BYنامعلوم

    ایک غریب آدمی کے مکان کی چھت ٹوٹ گئی تھی اور وہ اُس پر گھاس پھونس بچھا رہا تھا کہ اتفاق سے ایک سخی امیر بھی اُدھر آ نکلا اور کہا۔ بھلے آدمی! اس گھاس پھونس سے بارش کیا رُکے گی۔ پکی چھت بنوا لو تو ٹپکنے کا اندیشہ جاتا رہے۔‘‘

    غریب نے جواب دیا۔ ’’جناب! آپ کا فرمانا تو بے شک بجا ہے اور میں بھی جانتا ہوں۔ مگر حضور! میرے پاس پکی چھت

    بنوانے کے لیے دام کہاں؟‘‘

    امیر نے پوچھا۔ ’’پکی چھت پر کیا لاگت آئے گی؟‘‘

    غریب نے جواب دیا۔ ’’جناب! ڈیڑھ سو روپے تو لگ ہی جائیں گے۔‘‘

    یہ سن کر امیر نے جھٹ جیب میں سے ڈیڑھ سو روپے کے نوٹ نکال اُس غریب کے حوالے کر دیے کہ جاؤ اس سے اپنا

    کام چلاؤ۔

    جب امیر نوٹ دے کر چلا گیا تو غریب کے پیٹ میں چوہے دوڑنے لگے کہ یہ تو بڑا سخی دولت مند تھا۔ اگر میں پانسو کہہ دیتا تو اتنے ہی دے جاتا۔ میں نے غلطی سے کم کہہ دیا۔

    یہ سوچ کر وہ امیر کے مکان پر پہنچا اور لگا کہنے۔ جناب! میں نے اندازے میں غلطی کی تھی ۔ چھت پر پانسو روپے خرچ آئیں گئے۔‘‘

    امیر نے کہا۔ وہ ڈیڑھ سو کہاں ہیں؟‘‘

    غریب نے نوٹ نکال کر پیش کیے تو امیر نے اپنی جیب میں رکھ کر کہا ۔ ’’جاؤ۔، مجھے اتنی توفیق نہیں کہ پانسو دے سکوں۔ کوئی اور اللہ کا بندہ دے دے گا۔

    غریب بہت گھبرایا۔ مگر امیر نے ایک نہ سنی- آخر پچھتاتا اور یہ کہتا ہوا گھر کو پلٹ آیا کہ امیر کی کوئی خطا نہیں ۔ یہ میرے ہی لالچ کی سزا ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے