Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ہمدردی کا صلہ

نامعلوم

ہمدردی کا صلہ

نامعلوم

MORE BYنامعلوم

    بہت پرانے زمانے کی بات ہے کہ ایک چھوٹی سی پہاڑی کے دامن میں میاں بیوی رہتے تھے جو بہت ہی بوڑھے تھے۔ ان کا مکان دیہات سے ذرا الگ تھلگ تھا۔ ان کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ دودھ کے لیے ایک گائے رکھی ہوئی تھی۔ ضرورت کے مطابق اناج اور سبزی اگا لیتے تھے اور اپنے باغیچے میں انہوں نے انگور کی بیلیں بھی لگائی ہوئی تھیں۔ ان کی یہ ایک بڑی اچھی عادت تھی کہ ان کے ہاں کوئی بھوکا بھٹکا اور تھکا ہارا مسافر آجاتا تو وہ اس کی بڑی خدمت کرتے اور خوش ہوتے مگر ان کے ہمسائے دیہات کے لوگ مسافروں سے بہت برا سلوک کرتے تھے۔ جب کوئی غریب مسافر گاؤں سے گزرتا تو وہ اپنے کتے اس پر چھوڑ دیتے بچے گھروں سے نکل آتے اور پتھر پھینکتے۔ مسافر کی اس بے کسی پر گاؤں کے لوگ خوش ہوتے اور تالیاں بجاتے۔ پھر جو کچھ مسافر کے پاس ہوتا، لوٹ لیتے۔ جو لوگ اس دیہات کے رہنے والوں کی بری عادت سے واقف تھے وہ میلوں کا چکر کاٹ لینا بہتر سمجھتے مگر اس گاؤں کے راستے سے نہ گزرتے تھے۔ اس گاؤں کے لوگ اور بچے البتہ اس وقت بڑے شریف اور مہذب نظر آتے جب ان کے گاؤں سے کوئی زرق برق لباس پہنے کوئی امیر آدمی گزرتا۔ وہ اسے سلام کرتے۔ اس موقعے پر ان کے کتے بھی خاموش ہوجاتے۔ میاں بیوی نے ان لوگوں کو بہتیری دفعہ سمجھایا کہ مسافروں سے اس بری طرح پیش نہیں آنا چاہئے جس طرح تم پیش آتے ہو۔ لیکن شریر لوگ کبھی ان کی بات نہ سنتے۔ میاں بیوی کو ان کی حالت پر بڑا افسوس ہوتا کہ یہ خود تو بگڑے ہوئے ہیں، اپنے بچوں کو بھی بگاڑ رہے ہیں۔

    ایک دن میاں بیوی رات کا کھانا کھا کر سونے سے پہلے تفریح کے طور پر اپنے مکان کے باہر بیٹھے ہوئے اپنی گائے اور انگور کی بیلوں کی باتیں کر رہے تھے کہ ان کے کانوں میں کتوں کے زور زور سے بھونکنے اور بچوں کے چلانے کی آوازیں آئیں۔ اس سے ان کی باتوں کا سلسلہ رک گیا اور میاں بیوی سے کہنے لگا! ‘‘آہ! معلوم ہوتا ہے گاؤں سے کوئی مسافر گزر رہا ہے جبھی تو کتوں اور بچں کا شور سنائی دے رہا ہے، کیسے بدبخت لوگ ہیں، مسافر کو کچھ کھلانے پلانے کی بجائے وہ ان پر کتے چھوڑ دیتے ہیں اور بچے پتھر برسانا شروع کردیتے ہیں۔’‘ بیوی نے افسوس کرتے ہوئے جواب دیا۔ ‘‘ہاں! شریر لوگوں نے پھر شیطانی کھیل شروع کردیا ہے۔’‘ بوڑھے نے سر ہلاتے ہوئے گہرا سانس لیا اور کہا۔ ‘‘میں ڈرتا ہوں، کہیں اس گاؤں کے لوگ کسی بڑے عذاب کا شکار نہ ہوں۔ خیر جب تک ہم تم زندہ ہیں، مسافروں کی خدمت کرتے ہی رہیں گے۔ کتوں اور بچوں کا شور نزدیک سے نزدیک تر ہوتا گیا اور مسافر آگے بڑھتے گئے۔ ان میں سے چھوٹے قد کا مسافر بڑا ہوشیار تھا۔ جب کتے اس کے نزدیک پہنچتے تو وہ اپنے ڈنڈے سے انہیں ڈراتا۔ دوسرا مسافر لمبے قد کا تھا۔ وہ بڑی لاپروائی سے چل رہا تھا، بوڑھے نے بیوی سے کہا۔ ‘‘آؤ ہم ان مسافروں کو اپنے مکان میں لے آئیں ان کو اس وقت مدد کی بڑی ضرورت ہوگی۔’‘ نیک دل بیوی نے کہا۔ ‘‘آپ اکیلے جائیے، میں اتنے میں ان کے کھانے کا کوئی انتظام کرتی ہوں۔’‘ بوڑھا باہر چلا گیا اور آگے بڑھ کر ان کو خوش آمدید کہا اس پر چھوٹے قد کے مسافر نے بوڑھے کا شکریہ ادا کیا اور اچھا سلوک دیکھا تو پوچھا ‘‘بابا آپ ایسے برے ہمسایوں میں کس طرح زندگی گزار رہے ہیں۔’‘ بوڑھے نے جواب دیا کہ شاید مجھے قدرت نے اسی لیے اس جگہ آباد کی ہے کہ میں اپنے ہمسایوں کے برے سلوک کے بدلے مسافروں سے اچھی طرح پیش آؤں۔ یہ کہتے کہتے بوڑھا ان مسافروں کو اپنے مکان میں لے آیا جہاں وہ ایک بنچ پر بیٹھ گئے۔ دن بھر چلنے سے وہ تھکے ہوئے اور بھوک سے نڈھال نظر آتے تھے۔ بوڑھا مکان کے اندر گیا اور بیوی سے کھانا لانے کے لیے کہا۔ مسافروں کے سامنے روٹی، تھوڑا سا مکھن، دودھ کا ایک برتن اور انگوروں کا ایک گچھا رکھ دیا گیا جسے دیکھ کر وہ کہنے لگے کہ یہ تو اچھی خاصی دعوت ہوگئی، مگر بڑی بی نے افسوس کیا کہ وہ ایسے وقت آئے ہیں کہ رات کا کھانا وہ کھا چکے ہیں، انہیں اگر اس بات کا علم ہوتا کہ کوئی مسافر آرہا ہے تو وہ رات کو کھانا ہی نہ کھاتے۔ مسافروں نے ہنس کر جواب دیا۔ نہیں بڑی بی، یہ بہت کافی کھانا ہے، آپ فکر نہ کریں اور دودھ کے لئے اپنے پیالے بڑھا دیے۔ بڑی بی نے پیالوں میں دودھ ڈالا تو برتن خالی ہوگیا۔ مسافر جو پیاسے تھے، ایک ہی سانس میں سارا دودھ پی گئے اور کہا کہ بہت ہی عمدہ دودھ ہے۔ پھر دوبارہ پیالے دودھ کے لئے آگے کر دیئے۔ بڑی بی گھبرائی کہ اب کیا کروں، برتن میں ایک گھونٹ بھی باقی نہیں۔ مسافروں نے گھبراہٹ دیکھی تو چھوٹے قد کا مسافر اٹھا اور برتن کو خود جھکا کر دونوں پیالے دودھ سے پر کر لیے اور بڑے مزے سے پی گئے۔ میاں بیوی یہ دیکھ کر حیران ہوگئے کہ یہ کوئی معمولی مسافر نہیں ہیں، کیونکہ برتن میں دودھ کا ایک گھونٹ بھی نہیں تھا اور انہوں نے خالی برتن سے دودھ نکال لیا تھا۔ اس طرح جس کھانے کو بھی وہ ہاتھ لگاتے کم ہونے کی بجائے بڑھتا ہی جاتا۔ کھانے کے دوران میں باتیں بھی ہو رہی تھیں۔ مسافروں نے پوچھا کہ بابا اس جگہ جہاں اب گاؤں آباد ہے، کوئی جھیل بھی تھی۔ بوڑھے نے جواب دیا۔ ‘‘ہاں تھی مگر وہ سینکڑوں برس کی بات ہے۔’‘ پھر گاؤں کے لوگوں کی بری عادتوں کی باتیں شروع ہوگئیں اور لمبے قد کے اجنبی نے کہا کہ جب اس دیہات کے لوگوں کو انسانوں سے کوئی ہمدردی نہیں تو اس جگہ پر جھیل ہونی چاہئے نہ کہ یہ ظالم لوگ اور یہ کہتے کہتے اس نے تیز نظروں سے دیہات کی طرف دیکھا۔ بوڑھے نے کہا کہ میں صبح اس دیہات کے لوگوں کو سمجھاؤں گا کہ وہ اپنی عادتوں سے باز آجائیں مگر اجنبی نے کہا کہ بابا وہ تمہیں صبح کہاں ملیں گے۔ مجھے دکھاؤ وہ گاؤں ہے کہاں۔ دونوں میاں بیوی جب باہر نکل کر دیکھنے لگے تو جہاں وہ کل تک دیہات اور چراگاہ دیکھتے تھے، اب انہیں وہاں ایک جھیل نظر آئی، انہیں اپنے آپ پر اعتبار نہ آیا۔ بڑے میاں کی پریشانی دیکھ کر لمبے قد کے مسافر نے گرج دار آواز میں کہا: ‘‘اتنے برے لوگوں کا دنیا میں رہنے کا کوئی فائدہ نہ تھا۔ وہ سب اس جھیل میں مچھلیاں بن گئے ہیں۔ چھوٹے قد کے مسافر نے مذاق کرتے ہوئے بڑے میاں سے کہا: ‘‘دیکھو جب بھوک لگے تو اس جھیل سے ضیافت اڑانے کے لئے مچھلیاں پکڑ لینا۔ ایسے لوگوں کی یہی سزا تھی۔ تم لوگ انسانوں سے مہربانی کا سلوک کرتے رہے ہو اس لیے تمہارے دودھ اور کھانے میں ہمیشہ برکت رہے گی اس برتن سے کبھی دودھ ختم نہیں ہوگا۔ مسافر آتے رہیں گے اور تم ان کی خدمت کرتے رہو گے۔’‘ میاں بیوی ابھی اپنے مہمانوں کا شکریہ ہی ادا کرنے لگے تھے کہ وہ غائب ہوگئے۔ دونوں ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہ گئے۔ اس کے بعد جب تک وہ جیتے رہے، ان کے برتن میں دودھ کبھی ختم نہ ہوا، مسافر آتے تھے، دودھ پیتے تھے، کھانا کھاتے تھے لیکن ان کے برتن کا دودھ ختم ہوا نہ کھانا۔

    مأخذ:

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے