Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بارہ بہنیں

اشرف صبوحی

بارہ بہنیں

اشرف صبوحی

MORE BYاشرف صبوحی

    ایک تھا بادشاہ، جس کے تھیں بارہ لڑکیاں، سب کی سب بڑی خوبصورت تھیں۔ سب ایک ہی ساتھ رہتیں اور ایک ہی کمرے میں سوتیں، سب کی چارپائیاں کمرے میں برابر سے لگی ہوئی تھیں۔ جب لڑکیاں سوجاتیں توبادشاہ خوآکرباہر سے کمرے کا دروازہ بندکردیتا۔ بادشاہ کوڈرتاتھا کہ لڑکیوں کوکہیں کوئی تکلیف نہ پہنچ جائے۔ اس لئے وہ ہررات کودروازہ بند کردیتاتھا اورصبح سویرے ہی کھول جاتا۔

    ایک دن صبح کوجب بادشاہ دروازہ کھولنے آیاتو یہ دیکھ کر اسے بڑا تعجب ہوا کہ بارھوں لڑکیوں کے جوتے ایک قطار میں رکھے ہوئے ہیں ،ہرجوتے کی ایڑی گھسی ہوئی ہے۔ جوتے گردمیں اٹے ہوئے ہیں۔ بادشاہ سمجھ گیاکہ لڑکیاں ضروررات کوکہیں گئیں تھیں مگرلڑکیاں کیوں کرباہرگئیں، یہ اس کی سمجھ میں نہ آیا۔ لڑکیوں سے پوچھنا مناسب نہ سمجھا آخرمیں مجبورہوکر اس نے اعلان کیا کہ جوکوئی بھی معلوم کرلے گا کہ شہزادیاں رات کوکہاں جاتی ہیں اس کی شادی اس شہزادی سے کردی جائے گی جس کوو ہ پسند کرے گا۔ راج پاٹ بھی اسی کودے دیاجائے گا۔ مگرشرط یہ ہے کہ تین دن کے اندر معلوم کرکے بتلائے ورنہ پھانسی دے دی جائے گی۔

    کچھ دنوں کے بعدایک شہزادہ آیا اور اپنے آپ کو اس کام کے لئے پیش کیا۔ بادشاہ نے اس کااستقبال بڑی دھوم دھام سے کیا۔ شہزادیوں کاکمرہ دکھلایا۔ کمرے کے پاس ہی شہزادے کے سونے اوررہنے کاانتظام کیا۔ تاکہ نزدیک سے شہزادیوں کی نگرانی اچھی طرح کرسکے۔

    رات کوشہزادیوں کے کمرے کا دروازہ کھلا چھوڑدیاگیا تاکہ شہزادہ ان کے سونے جاگنے کواچھی طرح دیکھ سکے۔ لیکن ابھی تھوڑی ہی رات گئی تھی کہ شہزادے کی آنکھوں میں نیند بھرآئی اوروہ بے خبر ہوکرسورہا۔ شہزادیاں ہررات کی طرح آج رات کو بھی گھومنے گئیں جب صبح سویرے بادشاہ آیا تواس نے دیکھا کہ لڑکیوں کے جوتوں پرگردپڑی ہوئی ہے اورایڑیاں گھسی ہوئی ہیں ۔ بادشاہ نے شہزادہ سے پوچھا کہ ’’بتلاؤ لڑکیاں کہاں گئی تھیں؟‘‘ شہزادہ کوئی جواب نہ دے سکا۔ دوسری اورتیسری رات کوبھی شہزادیاں گھومنے گئیں اورشہزادہ ہررات سوتارہا۔ آخر چوتھے دن شہزادے کوپھانسی دے دی گئی۔

    اس کےبعد بہت سے شہزادے آئے مگرکوئی بھی یہ نہ معلوم کرسکا کہ شہزادیاں کب اورکہاں گھومنے جاتی ہیں۔

    ایک دن ایسا اتفاق ہواکہ ایک غریب سپاہی سڑک سے گزررہاتھا۔ اس نے بھی بادشاہ کااعلان دیکھا۔ جی میں آیا کہ کسی طرح یہ بھیدمعلوم ہوجاتا توزندگی بڑے آرام سے گزرتی لیکن یہ بھید کیسے معلوم ہویہ اس کی کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ اسی سوچ میں چلاجارہاتھا کہ ایک بڑھیا ملی، بڑھیا نے پوچھا ’’سپاہی سپاہی کہاں جارہے ہو؟‘‘ سپاہی نے کہا ۔’’یہ تومجھ کو بھی نہیں معلوم، مگردل یہ چاہتاہے کہ کسی طرح شہزادیوں کے گھومنے کابھید معلوم ہوجاتا توبڑااچھا ہوجاتا۔‘ بڑھیا نے کہا یہ کوئی مشکل بات نہیں۔ بس تم ہمت کرلوتوبیڑاپار ہے۔ دیکھو رات کوکھانے کے بعد لڑکیاں شراب بھجوائیں گی اس کو نہ پینا، اس کے پینے سے بڑی گہری نیند آتی ہے ۔ تم ہرگز ہرگز شراب مت پینا ۔بستر پر لیٹتے ہی سوتاہوا بن جانا اور یہ ظاہر کرناکہ تم گہری نیندمیں سورہے ہو، تاکہ شہزادیاں نڈرہوکر گھو منے جاسکیں، یہ لبادہ بھی اپنے ساتھ لے جاؤ، اس میں خاص بات یہ ہے کہ جب تم اس کو اوڑھ لوگے تو تمہیں کوئی بھی نہیں دیکھ سکتا اورتم سب کودیکھ سکتے ہو۔‘‘

    جب بڑھیا سب کچھ سمجھا چکی توسپاہی کی ہمت اوربڑھ گئی۔ وہ بادشاہ کے پاس خوش خوش گیااور کہنے لگا میں معلوم کروں گاکہ شہزادیاں رات کوکہاں گھومنے جاتی ہیں۔ بادشاہ نے سپاہی کو عمدہ کپڑے پہنائے اور شہزادیوں کے کمرے کے پاس لے جاکراس کے سونے کاکمرہ بتلادیا۔

    شام ہوتے ہی ایک شہزادی شراب کاپیالہ لیے ہوئے سپاہی کے پاس آئی اورہنس کر پینے کوکہا۔ سپاہی نے اپنے حلق کے پاس ایک تھیلی باندھ رکھی تھی۔ سپاہی نے بڑی ہوشیاری سے شراب تھیلی میں انڈیل لی۔ چارپائی پر لیٹتے ہی گہری نیند میں سوتا ہوا بن گیا۔ شہزادیاں یہ دیکھ کر بہت خوش ہوئیں۔

    آدھی رات کے قریب شہزادیاں اٹھیں، کپڑے پہنے، بال سنوارے اورگھومنے جانے کے لئے تیار ہوگئیں۔ سپاہی اپنی چارپائی پر لیٹا ہوا یہ سب دیکھ رہا۔ شہزادیاں ہنستی ہوئیں کمرے سے باہر نکلیں اور گھومنے کے لئے جانےلگیں۔ سپاہی چپکے سے اٹھا۔ لبادہ اوڑھ کرشہزادیوں کے پیچھے ہولیا۔

    تھوڑی دور چلنے کے بعد سب سے چھوٹی شہزادی بولی،’’مجھے ڈرلگ رہا ہے، نہ جانے آج کیا بات ہے دل خوش نہیں۔‘‘ بڑی شہزادی نے کہا ’’تم بس یوں ہی ڈررہی ہو۔ کوئی بات نہیں۔‘‘ یہ کہہ کر تمام شہزادیاں ہنستی ہوئی ایک باغ میں پہنچیں۔ باغ کے تمام درحت نہایت خوبصورتی سے برابرلگے ہوئے تھے۔ پتیاں چاندی کی طرح سفیدتھیں۔ سپاہی نے ایک درخت سے چھوٹی سی شاخ توڑلی۔ شاخ توڑنے سے آواز پیداہوئی۔ چھوٹی شہزادی سہم گئی اور دوسری بہنوں سے کہنے لگی ’’کیا تم لوگ یہ آواز نہیں سن رہی ہو۔ آج ضرورکچھ نہ کچھ ہونے والا ہے۔ مجھے توبڑا ڈرلگ رہا ہے۔‘‘بڑی شہزادی نے پھرہنس کر اس کی بات کوٹالا اور کہا کہ کچھ نہیں بس تمہیں کچھ وہم ہوگیاہے۔ چلتے چلتے شہزادیاں دوسرے باغ میں پہنچیں جہاں درختوں ی پتیاں سنہرے رنگ کی تھیں، باغ کے بیچ میں ایک خوبصورت چبوترا بناہوا تھا۔ سب شہزادیاں اس پربیٹھ گئیں۔ یہاں بارہ پیالے شربت کے بھرے ہوئے رکھے تھے ہرایک شہزادی نے ایک پیالہ پیااور پھرآگے کی طرف چلیں۔ سپاہی نے یہاں بھی ایک ٹہنی توڑی۔ اورایک پیالہ اٹھاکرلبادہ میں رکھ لیا۔چھوٹی شہزادی شاخ ٹوٹنے کی آواز پر پھرڈری اور بڑی شہزادی نے پھردلاسہ دیا۔

    تھوڑی دیر کے بعد شہزادیاں ایک دریاکے کنارے پہنچیں۔ جہاں بارہ کشتیاں کنارے پرلگی ہوئی تھیں۔ اورہرایک کشی میں ایک شہزادہ بیٹھا ہوا تھا۔ شہزادیاں ایک ایک کشتی میں بیٹھ گئیں اوردریا کے بیچ میں جاکرموجوں کا تماشا دیکھنے لگیں۔

    صبح ہوتے ہوتے شہزادیاں واپس آکر اپنی چارپائی پرسوگئیں۔ بادشاہ نے صبح کوشہزادیوں کے گھومنے کاحال سپاہی سے پوچھا ۔سپاہی نے تفصیل سے تمام جگہیں بتلادیں اورثبوت کے طورپر درختوں کی شاخیں اورپیالہ پیش کردیا۔ بادشاہ نے لڑکیوں کوبلاکر پوچھا کہ ’’سپاہی جوکچھ کہہ رہاہے ٹھیک ہے۔‘‘لڑکیوں نے کہا ۔’’ہاں سچ ہے۔‘‘

    بادشاہ نے اپنا مقرر کیاہوا انعام دینے کااعلان کردیا۔ سپاہی نے بڑی شہزادی کوپسند کیااس سے شادی کردی گئی اورسپاہی کوسلطنت ولی عہدبنادیاگیا۔

    مأخذ:

    پریوں کی کہانیاں (Pg. 23)

    • مصنف: اشرف صبوحی
      • ناشر: مکتبہ پیام تعلیم، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 2013

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے