Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بارش

MORE BYواجدہ تبسم

    جاڑوں کے دن تھے۔۔۔ چنو میاں چھٹیوں کے ایک نہ دو پورے پندرہ دن خالہ بیگم کے ہاں گزار کر آئے تو بس پوچھئے نہیں کیا حالت تھی۔ ہر بات میں خالہ بیگم کے گاؤں کا ذکر۔

    ’’اجی جناب۔۔۔ آپ نے دیکھا ہی کیا ہے۔ گاؤں میں تو ہم نے وہ دیکھا جو آپ عمر بھر کہیں نہ دیکھ سکیں۔‘‘

    بات پیچھے کان کا یہی کہنا تھا بس۔۔۔ قسم اللہ کی طبیعت بیزار کہوگئی ان کی شیخی سے۔ مگر ہم بھی کسی سے کیا کم تھے؟ ان کی ہر بات کو اس مزے سے کاٹ دیئے کہ بس وہ بے چارے مونہہ تکتے کہی رہ جاتے۔ ہم دل ہی میں خوب ہنستے کے اچھا الو بنایا۔

    مگر ایک دن بڑی مصیبت ہو گئی۔۔۔ چنو بھائی ایک سال گاؤں میں کھائے ہوئے کھانوں کے ذکر خیر پر تل گئے۔۔۔ طرح طرح کے کھانوں کے نام لئے جارہے تھے اور ہم بڑی بےچارگی سے بیٹھے سنے جارہے تھے ایک دم کبے بی نے مجھے ٹھوکا دیا۔

    ’’تو بولتی کیوں نہیں ری۔۔۔ تجھے تو ایک سے ایک بڑھیا کھانے پکانے آتے ہیں نا۔۔۔‘‘

    یہ بات تو سچ تھی کہ مجھے ایک سے ایک بڑھیا کھانے پکانے آتے تھے، مگر چنو بھائی اپنی ریل گاڑی (میرا مطلب ہے باتوں اور گپوں کی ریل گاڑی) روکتے تب ہی کہتی نا۔۔۔؟ مگر وہ تو فل اسپیڈ پر چلے جا رہے تھے۔

    ’’اور جی سنا آپ نے خالہ بیگم کے ہاں ہم نے بوٹ پلاؤ بھی کھایا۔۔۔ اس مزے کا کہ بس پوچھئے نا۔۔۔‘‘

    بے بی نے اور میں نے ذرا حیران ہو کر ایک دوسرے کی طرف دیکھا پھر بھی ذرا جل کر بولی۔

    ’’کیا کھایا تھا۔۔۔؟‘‘

    ’’بوٹ پلاؤ۔۔۔ بوٹ پلاؤ۔۔۔ سمجھیں۔۔۔؟ اور کبھی تم نے کھایا بھی ہے۔۔۔ ارے صاحب بوٹ پلاؤ تو بس کچھ یاسمین کو ہی پکانا آتا ہے۔ آپ کیا جھک ماریں گی بھلا۔‘‘

    میں سر سے پاؤں تک پوری کی پوری جل گئی۔۔۔ ای۔ ای کر کے زبان چڑا کر بولی ’’مونہہ بڑے آئے یاسمین کے سگے۔ ایک سالن تو ڈھنگ کا نہیں پکاتی۔ خواہ مخواہ تعریف کر رہے ہیں کہ ہم جلیں۔ مگر یاد رکھئے ہم نہیں جلنے والے۔ ہم کون اس سے کم ہیں!‘‘

    چنو بھائی سنجیدہ ہوکر بولے ’’اللہ قسم بھئی ایسے بڑھیا کھانے پکانے لگی ہے کہ تم کھاؤ تو بس انگلیاں چاٹتی رہ جاؤ۔۔۔ اور قسن ہے وہ بوٹ پلاؤ تو ایسا لذیذ تھا کہ آج بھی یاد آتا ہے تو جی چاہتا ہے کہ اڑ کر گاؤں پہنچ جاؤں۔ میں چڑ کر بولی۔ ’’موئے نااصل پلاؤ کے لئے نکھیوں کی طرح اڑنا چاہ رہے ہو۔۔۔چھی۔۔۔!‘‘

    اس بات پر چنو بھائی بری طرح جل گئے۔۔۔ بولے۔

    ایسی ہی بڑی پکانے والی بی بی ہے تو پھر مجھے کھلاتی کیوں نہیں؟‘‘

    اب تو مجھے بھی تاؤ آ گیا بھیک کر بولی اور کیا سمجھتے ہیتں آپ۔۔۔ لیجئے آج شام کو ہی کھائیے۔‘‘

    ’’ہاں۔‘‘ وہ خوش ہو کر بولے۔ ’’آج کل بوٹ کا سیزن بھی تو ہے۔‘‘

    میں نے ان کی طرف کچھ حیرت سے دیکھا۔ مونہہ۔ بوٹ کا سیزن! بوٹ کا سیزن کیا بات ہوئی بھلا؟ سارا سال ہی بوٹ پہنے جاتے ہیں۔ کچھ ایسا تو ہے نہیں کہ لوگ جاڑوں میں بوٹ بہنتے ہوں اور گرمیوں میں اٹھا کر رکھ دیتے ہوں پاگل ہیں چنو بھائی بھی اور جناب میں نے کل بالکل طے کر لیا کہ بس اب شام کی تیاری ابھی سے شروع!! چنو بھائی جاتے جاتے بول گئے۔

    ’’مگر دیکھو بھئی ہرا بوٹ ہونا چاہئے۔۔۔ پیلے اور سوکھے مارے بوٹ کا پلاؤ اچھا نہیں بن سکتا۔‘‘

    اے لو۔ یہ نئی مصیبت سر تھوپ گئے۔ اب ہم برا بوٹ کس کا ڈھونڈتے پھریں۔۔۔؟ پہلی بات تو بوٹ چرا کر پلاؤ پکانا ہی خطرے سے خالی نہ تھا، اوپر سے بوٹ بھی ہرا۔۔۔! ہونہہ۔۔۔ خیر صاحب۔ وہاں سے اٹھے تو ایک ایک کے کمروں میں گھومتے پھرے۔ بھائی کے بوٹ تو بہت بڑے بڑے تھے۔ اتنے بڑے بوٹ کا پلاؤ تو ساری برات کو کافی ہوجاتا، ہمیں تو ذرا پکانا تھا بس۔ ابا جان کے بوٹ تو اس سے بھی کچھ سوا تھے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کریں تو کیا کریں۔ دو تو بج ہی چکے تھے اور پھر چنو بھائی ندیدے تو شام کے سات بجے ہی کھانے پر پل پڑتے تھے۔۔۔ بھئی پانچ گھنٹے میں آخر کیا ہو سکتا تھا۔۔۔؟ جلدی جلدی تلاش شروع کر دی اور جناب منزل تک پہونچ ہی گئے۔

    بقرعید میں بہت کم دن رہ گئے تھے نا۔۔۔ اس لئےابا جان سبھوں کے لئے جوتے لے آئے تھے۔ ببلو کے کمرے میں ایک بہت خوبصورت مخملیں ہرابوٹ رکھا ہوا تھا۔ نرم نرم اور بہت اچھا یقیناً اس کا پلاؤ بے حد لذیذ بنے گا۔۔۔اور جناب ہم سب کچھ طے کر کے وہ بوٹ اپنے کمرے میں اٹھا لائے۔ پہلے تو اتنا پیارا بوٹ کاٹتے ہوئے بہت دل دکھا، مگر پھر سوال یاسمین کا تھا۔ ورنہ چنو بھائی تو صاف کہہ جاتے کہ ’’ہونہہ پکانا ہی نہ آتا ہوگا، چپ بہانے تھے کہ بوٹ کاٹنے کو جی نہ چاہا۔‘‘

    لیجئے بسم اللہ کہہ کر کاٹ ہی دیا۔ بھائی صاحب کے شیونگ بکس سے تیز ریزر تو پہلے ہی حاصل کر لیا تھا، جلدی جلدی دونوں بوٹ کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے۔۔۔!

    نصیبن بوا کو آتے ہی مرچ مصالحہ تیار رکھنے کو کہہ دیا تھا۔ وہ کب کا سارا سامان رکھ کر اپنے گھر جا چکی تھیں۔۔۔ باورچی خانے میں ہو کا عالم تھا۔ بس اپنا ہی راج تھا۔ میں، بے بی، افروز، شہنو، سب کے سب باورچی خانے پر پل پڑے۔۔۔تھوڑی ہی دیر میں وہاں بڑی گھماگھمی نظر آنے لگی۔ افروز چاول دھونے بیٹھ گئی۔۔۔ شہنو گھی، تیل مصالحے لا لا کر مجھے دینے لگی۔۔۔ پلاؤ بڑے زور شور سے پکنے لگا۔

    بھئی ایمان کی بات تو یہ ہے کہ گھر پر بھی اور اسکول میں بھی، بارہا ہم نے پکوان پکائے تھے، مگر جہاں تک بوٹ کا پلاؤ پکانے کی بات تھی، وہ ہم آج پہلی دفعہ ہی پکار ہے تھے، اس لئے ذرا گھبراہٹ بھی طاری تھی اور ستم یہ کہ ابھی ابھی نامراد چنو بھائی کہہ گئے تھے کہ چوں کہ بوٹ پلاؤ بار بار نہیں پکتا اور کھانے لائق چیز بھی ہے، اس لئے انہوں نے اپنے دو چار دوستوں کو بھی بلوا لیا ہے۔!!

    ’’ہے ہے مر گئے۔‘‘ میں جگر تھام کر چلائی۔

    ’’ہوا کیا؟‘‘ سب دوڑی دوڑی آئیں۔

    ’’بھئی اللہ ہم نے تو بس ایک سیر چاول لئے تھے۔ انہوں نے تو اپنے چٹورے دوستوں کو دعوت دے ڈالی ہے۔ وہ تو سارا کا سارا پلاؤ پار کر جائیں گے اور پھر بوٹ تو ایک ہی کاٹا تھا ہم نے!!‘‘

    بڑی دیر بعد فیصلہ ہوا کہ ہرا بوٹ نہیں تو نہ سہی، پیلا یا سوکھا مارا ہی کسی کا اٹھا لے آئیں۔ پھر سے جناب ہم سب لڑکیاں کمروں کی طرف دوڑیں۔ ایک سے ایک سٹریل بوٹ دیکھنے میں آرہا تھا۔۔۔ کسی کے تلے گھسے ہوئے۔ کسا کا اوپر کا حصہ غائب۔۔۔ کسی کی ایڑی ہی سرے سے ندارد تھی توکوئی عین مین پھاڑ کر جمائی لیتا نظر آرہا تھا۔۔۔بڑی دیر کی تلاش کے بعد چنو بھائی کا ہی ایک بوٹ چنا گیا۔ اچھا نیا نیا بوٹ تھا بدنصیب۔۔۔اور غالباً وہ بھی عید کی تیاری میں خریدا گیا تھا۔

    بڑی مشکل سے اس کے ٹکڑے کئے گئے اور پوری پلٹن پھر سے باورچی خانے میں داخل ہوگئی۔ میں چونکہ سب میں بڑی تھی۔ (بڑی بھی تھی تو یہی ساڑھے سات آٹھ سال کی!) اس لئے سارے کام میری نگرانی اور میری ذمہ داری پر طے ہو رہے تھے۔۔۔ اور اپنے اس اعزاز پانے پر میں بے حد خوش تھی اور خواہ مخواہ ہر ایک کو ڈانٹ ڈپٹ کر رہی تھی۔

    بہر حال جناب میں نے بوٹ کے ٹکڑے ایک برتن میں صاف پانی لے کر خوب دھوئے اور پہلے انہیں الگ سے تل۔ اب بار دیکھتی ہوں کم بخت ذرا بھی گلتے۔۔۔ خیر ہم نے سمجھ لیا کہ چاولوں کو جب دم پر رکھیں گے تب بھاپ میں یہ بھی گل جائیں گے۔۔۔ ایک بار ایسے ہی تو سبزی پلاؤ پکاتے میں گاجریں ذرا کچی رہ گئی تھیں، کہ پھر چاولوں کے ساتھ بھاپ میں گل گئی تھیں۔۔۔!

    بوٹ پلاؤ کے ساتھ کھانے کو میں نے دہی کا اہتمام بھی کر لیا۔ کیوں کہ آپ جانیں پلاؤ تو بغیر دہی کے بالکل ہی بے مزہ اور بے کار چیز بن جاتا ہے۔ اب جناب ایک بڑے سے کٹورے میں گھی، لونگ، سیاہ مرچ اور الائچی ڈال کر چاول بگھار دیئے۔۔۔ مصالحہ بھی جھونک دیا اور جب چاول گلنے پر آ گئے اور دم پہ رکھنے کی نوبت آ گئی تو بوٹ کے تلے ہوئے ٹکڑے بھی اس میں ڈال دیئے۔!

    ’’واہ وا باجی۔‘‘ زینو دور سے ہی خوشبو سن کر دوڑی آئی ’’کیا خوشبودار پلاؤ پکایا ہے کہ قسم اللہ میری تو طبیعت ابھی سے کھانے کو چاہنے لگی۔

    چنو بھائی ادھر سے گزرے تو انہوں نے بھی یہی بات دہرائی اب جناب ہماری خوشی کا ٹھکانہ نہ تھا۔۔۔ چوں کہ سارے کام ہماری ’لیڈر شپ‘‘ میں ہو رہے تھے اس لئے دسترخوان بچھوانے کا اہتمام بھی ہم نے کروایا۔ ہمارے سگھڑاپے پر چوں کہ میٹھا ہ ہونے سے حرف آتا تھا، اس لئے ہم نے جھٹ پٹ نعمت خانے کا رخ کیا اور پنکی کے پینے کے لئے جو دن بھر کا دودھ رکھا تھا، اس کو اٹھا کر کھیر بنا دی۔!

    اصولاً کھانا سات بجے تیار ملنا چاہئے تھا، مگر پھر بھی ہم ذرا ناسمجھ لوگ تھے اور کام بہت بڑا تھا، اس لئے اچھے خاصے آٹھ ساڑے آٹھ بج گئے اور ایک سرے سے سارے گھر والے ہی بھوک بھوک چلانے لگے۔ چلئے بھئی ہم نے کسی نہ کسی طرح جلدی دسترخوان لگایا۔۔۔ بڑے سلیقے سے کھانا چنا اور سب مہمانوں کو کھانے کے کمرے میں چلنے کی ’’دعوت دی‘‘

    اس وقت خواہ مخواہ اپنی بڑائی کا احساس ہو رہا تھا کہ اتنے سارے لوگوں کا کھانا مجھ اکیلی نے پکایا ہے اور میں اس امیں میں سب کے سامنے کھڑی تھی کہ جیسے ہی نوالے مونہہ میں پڑیں اک دم تعریف کا شور مچ جائے۔ چنو بھائی اپنے دوستوں کے ساتھ کمرے میں داخل ہوتے ہوئے فرما رہے تھے۔

    ’’بھئی آج ہماری بہن نے خاص طور سے ہمارے لئے بوٹ پلاؤ پکایا ہے۔‘‘ ’’تب تو ٹھاٹ ہیں اپنے۔‘‘ ان کے ندیدے دوست کورس میں بولے اور سب ہاتھ دھوکر دسترخوان کھول کر بیٹھ گئے۔ مگر ابھی چنو بھائی نے پلیٹ میں پلاؤ لے کر پہلا نوالہ مونہہ میں ڈالا ہی تھا کہ وہ جھک کر غور سے پلیٹ کو دیکھنے لگے۔

    ’’یہ کیا پکا دیا ہے۔۔۔‘‘ وہ ذرا الجھ کر بولے۔ میں خوشی خوشی ذرا آگے بڑھ کر بولی ’’بوٹ پلاؤ۔۔۔ کیوں اچھا ہے نا۔‘‘

    وہ ذرا شرمندگی سے اپنے دوستوں کو دیکھتے ہوئے بولے۔

    ’’تھو تھو۔۔۔ ایسا لگ رہا ہے مجھے مرا ہوا چوہا کھا رہا ہوں۔‘‘

    مجھے تن تنا کر غصہ آ گیا ’’کتنی بار آپ نے مرے ہوئے چوہے کھائے تھے جو ان کا مزہ بھی معلوم ہے؟ اتنی محنت سے تو سارا دن لگا کر بوٹ پکایا اور ذرا دل نہیں رکھنا جانتے۔‘‘

    اب تک سب اپنی اپنی پلیٹوں میں پلاؤ لے چکے تھے اور ہر شخص ’’ریسرچ‘‘ کرتا نظر آ رہا تھا، یعنی ہر ایک کی نگاہیں اپنی اپنی پلیٹ پر جمی ہوئی تھیں۔

    ’’یہ ہرا ہرا کیا چمک رہا ہے بھئی اس میں‘‘ کوئی بدتمیز دوست بولا۔

    میرا پارہ چڑ گیا۔ ’’چنو بھائی نے تو کہا تھا کہ بوٹ ہرا ہونا چاہئے۔۔۔ اسی لئے تو میں نے خاص طور سے ببلو کا ہرا بوٹ کاٹ کر پلاؤ پکایا ہے۔‘‘

    ’’ببلو کا ہرا بوٹ۔۔۔‘‘ چنو بھائی زور سے چلائے۔۔۔!

    ’’اس میں اتنا چلانے کی کیا بات ہے۔۔۔؟ ہاں کمی آنے لگی تو آپ کا بوٹ بھی ڈال دیا۔۔۔ آپ کے دوست آ رہے تھے نا۔۔۔؟‘‘

    ’’میرا بوٹ۔۔۔ ارے باپ رے مر گیا۔ پورے سولہ روپے آٹھ آنے کا اپنی جیب خرچ میں سے خریدا تھا رے اللہ۔۔۔‘‘ ایسا کہہ کر چنو بھائی دیوانہ وار اپنے کمرے کو بھاگے اور تھوڑی ہی دیر میں واپس آ گئے ان کا مونہہ تو لٹکا ہوا تھا پھر میرا چہرہ دیکھ کر مجھ سے انہوں نے بدلہ لینے کی ٹھان لی ہو۔

    ’’سنئے حضرات۔۔۔ میری بےوقوف بہن کا، اپنے بھائی کو اپنے ہاتھوں پکایا پکوان کھلانے کو جی چاہا تو جوتوں کا پلاؤ پکا کر رکھ دیا۔‘‘

    ’’کیا مطلب۔۔۔؟ کیا مطلب۔۔۔؟ کیا مطلب۔۔۔؟‘‘

    بس ہر طرف سے یہی ایک آواز آ رہی تھی۔۔۔ اور چنو بھائی ہنسی کے مارے لوٹتے پوٹتے کسنائے جا رہے تھے کہ کس طرح یاسمین کے بونٹ پلاؤ نے ان محترمہ کو بھی بونٹ پلاؤ پکانے کی ترغیب دی اور۔۔۔

    تھوڑی ہی دیر میں یہ عالم تھا کہ میں جس کی طرف دیکھتی تھی، اسی کا مونہہ ایک فٹ پھٹا ہوا نظر آتا تھا۔۔۔ ہی ہی، ہا ہا، ہو ہو، کھی کھی، کھا کھا۔ کھو کھو۔۔۔ ایسے عجیب و غریب قہقہے میں نے اپنی عمر میں نہ سنے تھے، طرح طرح کے سر اور راگ سب کے گلوں سے نکل رہے تھے اور میں قہقہوں کی اس بارش میں بھیگ کر جیسے چڑیا بنی جا رہی تھی۔

    بھئی اب۔۔۔ اتنے دن گذر جانے پر میں یہ سمجھتی ہو کہ اس میں ہمارا کیا قصور کہ اچھے بھلے کہرے چنے کو بونٹ کہا جائے۔۔۔؟ اور سچ بھی تو ہے کہ بوٹ کے معنی سوائے جوتے کے اور کیا سمجھے جا سکتے تھے۔

    قصور تو چنو بھائی کا تھا، کیا ہوتا اگر ہری بھری یا پھر ہرا چنا کہہ دیتے۔۔۔؟؟ مگر نہیں صاحب انہیں تو ہمیں رسوا کرنا تھا۔

    بہت دن بیت گئے ہیں مگر آج بھی ان قہقہوں کی زوردار بارش کا خیال آتا ہے تو جسم میں کپکپی پیدا ہونے لگی ہے!

    مأخذ:

    کھلونا،نئی دہلی (Pg. 10)

      • ناشر: محمد یونس دہلوی
      • سن اشاعت: 1960

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے