Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بن کانٹوں کا گلاب

بانو سرتاج

بن کانٹوں کا گلاب

بانو سرتاج

MORE BYبانو سرتاج

    وہ ایک چھوٹا سا، پیارا سا بچہ تھا۔ ایک دن وہ اسکول جانے کے لئے نکلا۔ ہوا دھیرے دھیرے بہہ رہی تھی۔ جب وہ اس جگہ سے گزرا جہاں کیاریوں میں بیسیوں قسم کے گلاب کھلے ہوئے تھے تو گلاب کی خوشبو نے اس کے قدم روک لئے۔ اس کے دل میں گلابوں کے قریب جانے کی زبردست خواہش پیدا ہوئی۔ آہستہ آہستہ پودوں کی طرف ہاتھ بڑھا کر اس نے ایک پھول توڑ لینا چاہا۔

    اچانک فضا میں بچے کی چیخ بلند ہوئی۔ اس کے ہاتھ گلاب کے کانٹے چبھ گئے تھے۔ جگہ جگہ خون ننھی ننھی بوندوں کی شکل میں ابھر آیا تھا۔ وہ رو رہا تھا اور اس کے آس پاس جمع ہو جانے والے بچے اور دوسرے لوگ اس سے رونے کی وجہ پوچھ رہے تھے۔ اسی وقت ایک ایک شخص نے آگے بڑھ کر بچے کو گود میں اٹھا لیا اور پیار سے پوچھا ’’کیا ہوا بیٹے؟ مجھے بتاؤ۔‘‘

    ’’ہا ہا، ہاتھ میں کچھ چبھ گیا ہے۔ دیکھئے۔‘‘ بچے نے اپنا ہاتھ دکھایا۔

    بچے کے ہاتھ کو سہلاتے ہوئے بابا نے کہا ’’مگر بیٹے، تم گلاب کے پودے کے پاس کیوں گئے؟ گلاب کے پودے میں کانٹے ہوتے ہیں۔ یہ کانٹے ہی تمہارے ہاتھ میں چبھے ہیں۔‘‘

    بچے نے روتے ہوئے کہا ’’بابا، میں دیکھنا چاہتا تھا کہ اتنی اچھی خوشبو دینے والا گلاب کیسا ہوتا ہے۔‘‘

    بابا کی آنکھ میں آنسو آ گئے۔ انہوں نے بے کی بے نور آنکھوں سے آنسو پونچھ کر اسے گود سے نیچے اتاردیا۔ پھر بڑھ کر گلاب کا ایک پھول توڑ کر اس کے ہاتھوں میں تھماتے ہوئے کہا ’’لو دیکھو، بیٹے، یہ ہے گلاب کا پھول۔‘‘

    بابا اس دن بار بار یہی سوچتے رہے کہ گلاب کے پھول اتنے خوبصورت ہیں، مگر ان معصوم اندھے بچوں کی پہنچ سے دور ہیں۔ وہ ان پھولوں کی خوبصورتی تو دیکھ ہی نہیں سکتے، مگر ان کے لمس کا لطف بھی نہیں اٹھا سکتے کیوں کہ گلاب کے ساتھ کانٹے ہوتے ہیں۔۔۔

    بابا کے ایک دوست بابا سے ملنے آئے تو بابا نے ان کی اداسی کا سبب دریافت کیا۔ بابا نے اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا ’’دوست، تمہارے علم میں گلاب کی ایسی کوئی قسم ہے جس میں کانٹے نہ ہوں، جس سے میرے اندھے بچے بے خوف و خطر پھولوں سے کھیل سکیں؟‘‘

    بابا کے دوست نے کئی دنوں کی کھوج کے بعد ایسے گلاب کا پتہ لگا لیا۔ دوسری بار جب وہ بابا کے پاس پہنچے تو ایک ایسا قیمتی گلاب کا پودا انہیں تحفتہً پیش کیا جس میں کانٹے نہیں ہوتے۔ بابا بہت خوش ہوئے اور بڑے پیار سے اس پودے کو باغیچے کے ایک کونے میں لگایا۔ اب وہ پودا پھول دینے لگا ہے اور اندھے بچے بلا خوف پھولوں کو دیکھ پرکھ سکتے ہیں۔

    جانتے ہو بچو، یہ کہاں کا واقعہ ہے؟ یہ واقعہ ہے ورورہ شہر کے پاس آنندون کا۔ بابا کو پودا لا کر دینے والے بابا کے دوست ہیں مراٹھی کے مشہور ادیب پرشوتم لکشمن دیش پانڈے اور بابا وہ عظیم شخصیت ہیں جنہیں بابا آمٹے کے نام سے جانا جاتا ہے۔

    بابا آمٹے نے آنندون میں جس آشرم کی بنیاد ڈالی ہے وہاں سماج کے ٹھکرائے ہوئے کوڑھی لوگوں کو عزت سے جینے کا سبق پڑھایا جاتا ہے، اندھے، اپاہج، بچوں کو آزادی کے ساتھ جینے کے مواقع فراہم کئے جاتے ہیں۔۔۔ اس آشرم کو کوڑھیوں کا یا اندھوں، اپاہجوں کا آشرم نہیں کہا جاتا ہے اسے آنندون کا نام دیا گیا ہے، کیوں کہ یہاں ہر طرف آنند (خوشی) ہی آنند ہے۔

    مأخذ:

    کھلونا، نئی دہلی (Pg. 7)

      • ناشر: محمد یونس دہلوی
      • سن اشاعت: 1984

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے