Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

چالاک بوڑھا

مختار احمد

چالاک بوڑھا

مختار احمد

MORE BYمختار احمد

    سوداگر کی گمشدگی
     فاروق سوداگر کو گھر سے گئے ہوئے پورے چھ ماہ ہو گئے تھے۔ وہ ریشمی کپڑے کی تجارت کرتا تھا اور چھ ماہ پیشتر چالیس اونٹوں پر اعلیٰ اقسام کے ریشمی کپڑوں کے تھان لے کر موتی نگر انھیں فروخت کرنے کی غرض سے لے گیا تھا۔ اتنا عرصہ گزر جانے کے باوجود نہ ہی اس کا کوئی خط وغیرہ آیا تھا اور نہ ہی کسی دوسرے ذریعے سے اس کی خیر خیریت معلوم ہوئی تھی۔
    فاروق سوداگر کے ساتھ اس کا داماد نسیم  بھی گیا تھا۔ وہ اس  کی بیٹی سائرہ کا شوہر تھا اور اکثر تجارت کا مال لے کر اس کے ساتھ ہی جاتا تھا۔ وہ اس کی بیوی شاہدہ کا بھانجہ بھی تھا اور اس کی پرورش انہی کے گھر میں ہوئی تھی۔
    دراصل اس  کے ماں باپ بچپن میں ہی انتقال کر گئے تھے۔ انہوں نے اپنے پیچھے نسیم اورچھوٹے بھائی  رحیم کو چھوڑا تھا۔ ماں باپ کے مرنے کے بعد وہ دونوں بالکل بے یار و مددگار ہوگئے تھے اس لیے شاہدہ جو انکی خالہ تھی، وہ ان دونوں کو اپنے گھر لے آئی۔ اس کی ایک بیٹی بھی تھی جس کا نام سائرہ تھا اور وہ بہت چھوٹی تھی۔ ان تینوں کی پرورش ساتھ ساتھ ہونے لگی۔
    وہ تینوں بڑے ہو گئے اور وقت نے فاروق سوداگر کو بوڑھا کر دیا۔ بڑھاپے کی وجہ سے وہ زیادہ لمبا سفر بھی نہیں کر سکتا تھا۔ حالانکہ نوجوانی کے دور سے ہی وہ تجارت کرتا چلا آیا تھا اور اب کافی تجربہ کار ہو گیا تھا، مگر اس بڑھاپے کی وجہ سے وہ صرف اپنے ہی شہر تک محدود ہو کر رہ گیا تھا۔ اس نے شہر میں کپڑوں کی ایک دکان کھول لی تھی۔ مگر اس دکان سے زیادہ آمدنی نہیں ہوتی تھی۔
    نسیم جو کہ اب چوبیس سال کا ہو گیا تھا یہ ماجرہ دیکھ کر آگے بڑھا اور اپنی مدد کی پیشکش کی۔ فاروق کو اس کا سہارا غنیمت معلوم ہوا ۔ اس کی دوکان تو زیادہ چلتی نہیں تھی اس لیے اس نے یہ دوکان بند کی اور نسیم کو ساتھ لے کر دوبارہ تجارت شروع کردی۔  وہ اس کو ساتھ لے کر تجارت کا مال فروخت کرنے کے لیے شہر شہر جانے لگا۔ نسیم کی وجہ سے اب اسے زیادہ محنت و مشقت نہیں کرنا یں پڑتی تھی۔ وہ بیٹھ کر اسے صرف مشورے دیتا تھا اور سارے کام نسیم ہی انجام دیتا تھا۔
    اس طرح فاروق کا کاروبار ایک مرتبہ پھر چمک اٹھا اور دولت نے دوبارہ  اپنا رخ اس کے گھر کی طرف کر لیا۔ فاروق نسیم کی محنت اور نیک دلی کا قائل ہو گیا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ دنیا کے بہت کم بھانجے اور وہ بھی بیوی کے، اتنے ایماندار اور محنتی ہوتے ہیں۔ اس کی صلاحیتوں کے اعتراف میں اس نے اپنی بیٹی سائرہ کی شادی بھی نسیم سے کردی تھی۔
    کہنے کو تو رحیم بھی پورے بیس برس کا ہو گیا تھا مگر اس نے ابھی تک تجارت میں اپنے بھائی یا خالو کا ہاتھ بٹانے کی کوشش نہیں کی تھی۔ اسے گھومنا پھرنا پسند تھا اور اسی شوق کی بنا پر وہ کاروباری بکھیڑوں میں نہیں پڑتا تھا۔
    نسیم اس سے کہتا تھا کہ تم اب بڑے ہو گئے ہو۔  کچھ کام دام کرو۔ آخر کب تک خالہ خالو پر بوجھ بنے رہو گے۔ اس پر رحیم  ہنس کر جواب دیتا۔ نسیم بھائی۔ یہ آپ سے کس نے کہہ دیا کہ میں خالہ خالو  پر بوجھ بنا ہوا ہوں۔ خالو کے کاروبارمیں آپ بھی تو شریک ہیں۔ بس یہ سمجھ لیجئے کہ آپ کی کمائی میں میرا بھی حصّہ نکل آتا ہے۔ آپ نے بڑے بوڑھوں کی یہ بات تو سن ہی رکھی ہوگی کہ بڑا بھائی باپ کی جگہ ہوتا ہے۔ بس جس کا باپ کما رہا ہو اسے کوئی کام کرنے کی کیا ضرورت ہے۔
    اس کی بات سن کر نسیم مسکرا کر خاموش ہو جاتا تھا۔ اسے رحیم سے بہت محبّت تھی مگر وہ اسے زمانے کی اونچ نیچ سے واقف ضرور کرتا رہتا تھا۔
     فاروق اور نسیم کی اس طویل غیر حاضری نے جہاں شاہدہ اور سائرہ کو فکرمند کر دیا تھا، وہاں رحیم بھی تشویش میں مبتلا ہو گیا تھا۔ اس کے دل میں طرح طرح کے اندیشے جنم لے رہے تھے۔ اس وقت بھی وہ اپنے کمرے میں بیٹھا ان ہی دونوں کے متعلق سوچ رہا تھا کہ اس کی بھابی سائرہ وہاں پر آگئی۔ اس کے چہرے پر اداسی کا راج تھا اور وہ بہت چپ چپ دکھائی دیتی تھی۔ رحیم اس کی طرف دیکھنے لگا اور پھر دھیرے سے بولا۔ سائرہ بھابی۔ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں موتی نگر جا کر خالو جان اور نسیم بھائی کا پتہ لگاؤں۔  میرا خیال ہے کہ وہ کسی مصیبت میں گرفتار ہو گئے ہیں اور یہ ہی وجہ ہے کہ وہ ابھی تک واپس نہیں لوٹے ہیں۔
    میرا دل بھی یہ ہی کہتا ہے۔ سائرہ جلدی سے بولی۔ تم ابھی روانہ ہو جاؤ اور اگر وہ واقعی کسی مصیبت میں گرفتار ہیں تو جا کر ان کی مدد کرو۔ ان کی وجہ سے امی بیمار پڑ گئی ہیں۔
    اور آپ کا بھی بیمار پڑنے کا ارادہ ہے۔ رحیم نے اس کا سْتا ہوا چہرہ دیکھ کر کہا۔ میں اب روانگی کی تیاری شروع کرتا ہوں۔ آپ جلدی سے میرے کھانے پینے کی اشیاء کا انتظام کردیں کیونکہ مجھ سے بھوک بالکل برداشت نہیں ہوتی۔ اگر میں بھوکا ہوں اور گھوڑا گھاس کھا رہا ہو تو مجھے اس پر غصّہ آنے لگتا ہے۔
    سائرہ پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ بولی۔ ٹھیک ہے میں تمھارے ساتھ کھانے کی کافی چیزیں کر دوں گی۔ مگر دیکھو رحیم بھیّا تم جیسے ہی اپنے بھائی اور ابّا کو ڈھونڈ لو، یہاں پر جلد سے جلد آنے کی کوشش کرنا۔ رحیم نے سر ہلا دیا۔ پھر سائرہ تو چلی گئی اور وہ سفر کی تیاری میں مصروف ہو گیا۔

    لکڑی کا مکان
    موتی نگر چونکہ پچیس تیس کوس کے فاصلے پر تھا، اس لیے رحیم سورج ڈھلنے سے پہلے ہی وہاں پہنچ سکتا تھا۔ اسے سفر کرتے ہوئے دوپہر ہو گئی تھی۔ گرمیاں شروع ہو چکی تھیں۔ اس لیے سورج کی تمازت جسم کی کھال کو جھلسائے دے رہی تھی۔ گھوڑا مسلسل دوڑ رہا تھا اور  اس کے جسم سے بری طرح پسینہ بہہ رہا تھا۔ رحیم یہ چاہتا تھا کہ کہیں ٹھہر کر تھوڑا آرام کرلے۔ اس کے لیے وہ کسی سایہ دار جگہ کی تلاش میں تھا تاکہ ٹھنڈی ٹھنڈی چھاؤں میں بیٹھ کر مزے سے کھانا کھائے اور تھوڑی دیر آرام کرلے۔
    تھوڑا سا اور آگے بڑھنے کے بعد اسے پہاڑوں کی ایک طویل قطار نظرآئی۔ ان کے دامن میں درختوں کے گھنے جھنڈ تھے اور حدّ نظر تک بے ترتیبی سے اگی ہوئی لمبی لمبی گھاس تھی۔ رحیم اس جگہ کو دیکھ کر بے حد خوش ہوا۔ اس سے زیادہ اس کا گھوڑا خوش نظر آنے لگا تھا کیونکہ اس کی چال میں عجیب سی شوخی آ گئی تھی۔
    پہاڑ کے دامن میں پہنچ کر رحیم گھوڑے سے اتر گیا – ایک مناسب سی جگہ دیکھ کر اس نے وہاں پڑاؤ ڈال دیا۔ گھوڑے کی راس اس نے ایک درخت سے باندھ دی۔ گھوڑا وہاں لگی نرم نرم گھاس چرنے میں مگن ہوگیا۔
    رحیم نے اپنے تھیلے میں سے کپڑے کا دستر خوان نکال کر زمین پر بچھایا اور سائرہ نے جو کھانا بنا کر اسے دیا تھا اسے نکالنے لگا۔ اس کی بھابی نے مزے مزے کی چیزیں بنائی تھیں۔ ان میں  کباب، گوشت کے تلے ہوئے پارچے، میدے کے کئی پرتوں والے پراٹھے اور زعفرانی کھیر تھی۔ رحیم نے خوب سیر ہو کر کھانا کھایا۔ کھانے کے بعد اس نے ایک  قریبی چشمے سے خود بھی پانی پیا اور اپنے گھوڑے کو بھی پلایا۔
    اس کے بعد وہ آس پاس کے علاقے کا جائزہ لینے لگا۔ پھر ایک چیز دیکھ کر وہ چونک پڑا۔ درختوں کے جھنڈ میں گھرا وہ لکڑی کا مکان اس کی توجہ کا مرکز بنا ہوا تھا جس کا دروازہ بند تھا اور کھڑکی کھلی ہوئی تھی۔
    سب سے پہلے تو اس کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ یہ ڈاکوؤں کا اڈہ ہے۔ ڈاکوؤں کے متعلق سوچتے ہی اس کا ہاتھ بے اختیار اپنی تلوار کے دستے پر چلا گیا۔ اس نے اس لکڑی کے مکان کی طرف جانے کا فیصلہ کر لیا ۔ اس کی جگہ کوئی اور ہوتا تو اب تک وہاں سے بھاگ چکا ہوتا مگر رحیم ایک دلیر نوجوان تھا۔ اسے جرائم پیشہ افراد ذرا اچھے نہیں لگتے تھےاور یہ ہی وجہ تھی کہ وہ اس قسم کے لوگوں سے الجھنے میں ذرا بھی خوف محسوس نہیں کرتا تھا۔
    رحیم تیز تیز قدموں سے چلتا ہوا اس پراسرار مکان کی طرف چل پڑا۔ لکڑی کے مکان پر پہنچ کر اس نے پہلے یہ ضروری سمجھا کہ کھڑکی میں سے اندر جھانک کر حالات سے اچھی طرح آگاہ ہو جائے، مگر ابھی اس نے سر اونچا کر کے اندر دیکھنے کی کوشش کی ہی تھی کہ اس کے پیچھے سے کسی نے کڑکتی ہوئی آواز میں کہا۔
     اے۔ کون ہو تم؟
    رحیم نے گھبرا کر گردن گھمائ اور پھر اگلے ہی لمحے وہ حیرت سے دم بخود رہ گیا۔

    نعمانہ کی کہانی
    اسے مخاطب کرنے والی ایک لڑکی تھی۔ اس  کا رنگ گورا تھا اور  سنہری بال اس کے شانوں پر بکھرے ہوئے تھے– اس کی بڑی بڑی آنکھیں رحیم کو حیرت سے تک رہی تھیں۔ رحیم نے اتنی خوبصورت لڑکی پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ وہ اسے دیکھ کر دم بخود رہ گیا تھا۔ اس کی نظریں اس کے چہرے سے ہٹنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھیں۔ لڑکی نے جو اسے اپنی طرف یوں دیکھتا ہوا پایا تو ناگواری سے بولی۔ یوں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر کیا دیکھ رہے ہو کیا تمہیں میرے سر پر سینگ نظر آ رہے ہیں؟
    رحیم سنبھل گیا اور بھرائ ہوئی آواز میں بولا۔ لڑکی مجھے یہ جان کر
    بہت صدمہ ہوا ہے کہ تم بھی ڈاکوؤں کی ساتھی ہو۔
    لڑکی نے بھنّا کر کہا۔ میں تو تمہیں ڈاکوؤں کی ساتھی نظر آ رہی ہوں اور تم جو چوروں کی طرح میرے گھر میں جھانک رہے تھے وہ کچھ نہیں۔ اگر میں نہ آ جاتی تو تم نے ہمارا سامان پار کرنے میں کوئی کسر ہی نہیں چھوڑی تھی۔ مگر تم مجھے پہلے اس بات کا جواب دو کہ تم نے مجھے ڈاکوؤں کا ساتھی کیوں کہا تھا؟
    میرا خیال تھا کہ اس لکڑی کے مکان میں ڈاکوؤں کا بسیرا ہے۔ اگر مجھے غلط فہمی ہو گئی ہے تو مجھے معاف کر دو۔ میں یہاں پر اجنبی ہوں رحیم نے  کہا۔
    لڑکی مسکرانے لگی۔ بولی۔ کوئی بات نہیں میں نے تمھاری بات کا برا نہیں مانا ہے۔  تم بھی مجھے معاف کر دینا کیوں کہ میں نے بھی تمہیں چور کہا تھا۔
    تم اس کی فکر نہ کرو۔ میں ایسی باتوں کا برا نہیں منایا کر تا مگر یہ تو بتاؤ اچھی لڑکی تم ہو کون اور اس ویرانے میں کیوں  رہ رہی ہو۔ یہ بات صحیح ہے کہ شہروں میں آج کل مکانات بڑی مشکل سے ملتے ہیں مگر ایسا بھی کیا کہ انسان پہاڑوں  اور جنگلوں میں بسیرا کرنے لگے۔ رحیم نے کچھ حیرت سے کہا۔
    میں نے آج تک شہر نہیں دیکھا۔ کیسا ہوتا ہے شہر اور وہاں مکانات مشکل سے کیوں ملتے ہیں؟ لڑکی نے بڑے اشتیاق سے پوچھا۔
    رحیم حیرت سے لڑکی کے چہرے کو دیکھنے لگا۔ پھر دھیرے سے بولا۔ لڑکی تم مجھ سے مذاق تو نہیں کر رہی ہو؟
    مجھے مذاق ہی کرنا نہیں آتا۔ لڑکی نے بڑی سادگی سے جواب دیا اور پھر چونک کر بولی۔ ارے مجھے تمہیں اندر بٹھانا چاہئیے تھا۔ تم غالباً بڑی دور سے آ رہے ہو۔ چہرے سے تھکن کا بھی اظہار ہو رہا ہے، ٹھہرو میں دروازہ کھولتی ہوں۔
    یہ کہہ کر لڑکی نے لکڑی کے مکان کا دروازہ کھول دیا۔ رحیم جب اندر داخل ہوا تو اسے وہاں پر گھریلو سامان کی بہت تھوڑی چیزیں نظر آئیں۔ وہ کمرے میں پیال کے بستر پر بیٹھ گیا۔
    لڑکی نے کہا۔ تم آرام سے بیٹھو۔ میں تمہارے لیے کھانا لے کر آتی ہوں۔ میں تمہیں میٹھے پانی کے دریا کی مچھلی کھلاؤں گی۔
    رحیم نے کہا۔ یہاں آنے سے پہلے میں کھانا کھا چکا ہوں۔ اب کچھ بھی نہیں کھاؤں گا۔ تم آرام سے بیٹھو اور مجھے یہ بتاؤ کہ تم کون ہو اور اس جنگل بیابان میں کیوں رہ رہی ہو؟
    میرا نام نعمانہ ہے۔ لڑکی نے کہنا شروع کیا۔ میں نہیں جانتی کہ میرے ماں باپ کون ہیں۔ کیونکہ مجھے ایک بوڑھے آدمی نے پال پوس کر بڑا کیا ہے۔ میں اسے ہی اپنا باپ سمجھتی ہوں۔ اس نے مجھے بتایا تھا کہ میں اسے جنگل میں جھاڑیوں میں ملی تھی اور اس وقت سال بھر کی تھی۔
    مگر نعمانہ تمہارے اس منہ بولے  باپ کو اس ویرانے میں رہنے کی کیا ضرورت ہے؟ وہ شہر میں یا کسی گاؤں میں کیوں نہیں جابستا؟ رحیم نے تعجب سے پوچھا۔
    یہ ایک راز ہے اور میں اسے ظاہر نہیں کرنا  چاہتی۔ نعمانہ نے دوسری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
    رحیم اسے تیز نظروں سے گھورنے لگاپھر خشک لہجے میں بولا۔ اور میں
    تمہارے بغیر بتائے ہی جان گیا ہوں کہ وہ اس سنسان جگہ پر کیوں رہنا پسند کرتا ہے۔ یقیناّ وہ کوئی مجرم ہے۔ اور لوگوں کی نظروں سے چھپنا چاہتا ہے۔
    نعمانہ کا منہ حیرت سے کھل گیا، اٹکتے ہوئے بولی۔ تت۔ تمہیں کیسے پتہ چلا؟
    میری کھوپڑی میں بھوسہ نہیں بھرا ہوا ہے۔ اچھا تم سچ سچ بتاؤ کیا میری بات درست نہیں ہے؟۔ رحیم نے اپنے لہجے میں زور پیدا کرتے ہوئے کہا۔
    تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔ نعمانہ دھیرے سے بولی۔ آج سے پندرہ سولہ سال پہلے اس نے ایک آدمی کو ہلاک کر ڈالا تھا۔ اس آدمی کے بھائی اس سے بدلہ لینے کے لیے اس کے پیچھے پڑ گئے اور مجبوراً اسے وہاں سے بھاگ کر یہاں پناہ لینا پڑی۔ مقتول کے بھائی ابھی تک اس کی تلاش میں ہیں اور یہ ہی وجہ ہے کہ وہ یہاں سے کہیں اور منتقل ہونے کا سوچ ہی نہیں سکتا۔ ویسے وہ بہت رحمدل اور شریف آدمی ہے۔
    رحمدل اور شریف آدمی قتل نہیں کیا کرتے۔ رحیم نے تلخی سے کہا۔ تم نے اس کا کیا نام بتایا تھا؟
    ابھی تک میں نے اس کا نام نہیں بتایا ہے۔ میں اسے بابا کہتی ہوں ویسے اس کا نام بادل ہے۔ نعمانہ نے بتایا۔
    ہوں۔ رحیم کچھ سوچنے لگا۔ پھر کچھ دیر بعد بولا۔ میرا نام رحیم ہے۔ اور میں اپنے خالو اور بڑے بھائی کی تلاش میں نکلا ہوں۔ وہ دونوں چھہ ماہ ہوئے کچھ کپڑا لے کر اسے فروخت کرنے موتی نگر گئے تھے اور اب تک واپس نہیں لوٹے ہیں۔ تم چاہو تو میرے ساتھ چل سکتی ہو۔ میں اپنے خالو اور نسیم بھائی کو لے کر سیدھا  گھر ہی جاؤں گا۔
    اس ویرانے میں رہتے رہتے تو میں بھی تنگ آگئی ہوں، میں تمہارے ساتھ چلی تو جاؤں مگر بابا شائد اس بات کو پسند نہ کرے۔ نعمانہ نے سوچ میں ڈوبے ہوئے لہجے میں کہا۔
    تمہارا یہ بابا ہے کہاں؟۔ رحیم نے چونک کر پوچھا۔
    ہمارے پاس بھیڑ بکریوں کا ریوڑ ہے۔ بابا کی خواہش تھی کہ ان میں سے آدھی بھیڑیں بیچ دی جائیں۔ ان کے عوض ملنے والی رقم سے ایک اچھا سا مکان تعمیر کیا جائے۔ لکڑی کا یہ مکان بارش میں ٹپکنے لگتا ہے۔ وہ اسی مقصد کے لیے بھیس بدل کر شہر گیا ہے۔ وہاں پر کسی آدمی سے بھیڑوں کا سودا ہو گیا تو بڑی اچھی بات ہوگی۔
    اور اگر اسے کسی نے دیکھ لیا۔ میرا مطلب ہے اس آدمی کے بھائیوں نے جسے اس نے قتل کیا تھا تو پھر کیا ہوگا؟۔ رحیم نے پوچھا۔
    اس کے بہت کم امکانات ہیں۔ پندرہ سولہ سال کا عرصہ بہت ہوتا ہے۔  اس آدمی کے بھائی اگر بابا کی تلاش میں بھی ہوں گے تو ان کی تلاش میں پہلے جیسی شدّت اور تیزی نہ ہوگی۔ ہو سکتا  انہوں نے بابا کو فراموش ہی کر دیا ہو۔ مگر ہر مجرم بزدل ہوتا ہے وہ ہر وقت اپنے کیے ہوئے جرم کے انجام سے خوفزدہ رہتا ہے۔ بابا بھی وہم میں مبتلا ہے اور تم تو جانتے ہی ہو کہ وہم کا علاج تو  لقمان کے کے پاس بھی نہیں تھا۔ نعمانہ ایک گہری سانس لے کر بولی۔
    میں تو یہ بھی نہیں جانتا کہ لقمان کون تھا۔ اس لیے یہ بات جاننے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ اس کے پاس وہم کا علاج تھا بھی یا نہیں۔ رحیم نے بڑی سنجیدگی سے کہا۔ نعمانہ ہنسنے لگی۔ رحیم نے پھر کہا۔ نعمانہ مجھے تم سے بہت ہمدردی محسوس ہورہی ہے۔ تم اس گھٹیا سی جگہ پر کتنی بیزار اور بدمزہ زندگی گزار رہی ہو۔ تمھاری جیسی لڑکی کے لیے تو ایک بہت بڑا سا محل ہونا چاہیے تھا۔ میں چاہتا ہوں تم میرے ساتھ چلو۔ میری خالہ اور بھابی تمہیں دیکھ کر بہت خوش ہوں گی۔ ۔
    نعمانہ کے ہونٹوں پر ایک پھیکی سی مسکراہٹ نمودار ہوئی اور وہ کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے کچھ سوچنے لگی۔

    پراسرار بوڑھا
    رحیم کو وہاں بیٹھے ہوئے کافی دیر ہوگئی تھی۔ اس نے سوچا کہ اب اسے سفر پر روانہ ہو جانا چاہیے ورنہ موتی نگر پہنچتے پہنچتے رات ہو جائے گی اور رات ہونے کا یہ مطلب تھا کہ اسے سونے کے لیے کھردری زمین ہی نصیب ہوتی کیونکہ سورج کے غروب ہوتے ہی موتی نگر کاداخلی دروازہ بند کر دیا جاتا تھا۔ یہ سوچ کر وہ اٹھا اور نعمانہ سے بولا۔ اچھا نعمانہ اب میں چلتا ہوں، زندگی رہی تو میں بہت جلد تم سے دوبارہ ملنے کے لیے آؤں گا۔ اور تمہیں اپنے ساتھ شہر لے جاؤں گا۔
    شہر کا نام سن کر نعمانہ کے چہرے پر چمک آ گئی۔ رحیم سے بولی۔ بابا
    سے مجھے تمہارے ساتھ جانے کی اجازت مل جائے گی کیونکہ اس نے مجھ سے کہا تھا کہ اس کا ایک دوست جو پتہ نہیں کون سے شہر میں رہتا ہے، اگر مل گیا تو وہ مجھے اس کے پاس بھیج دے گا۔ بابا کو ہر دم یہ ہی دھڑکا لگا رہتا ہے کہ اگر وہ اس دنیا میں نہ رہا تو پھر میرا کیا بنے گا۔ میں اس ویران جگہ پر اکیلی کس طرح رہوں گی۔
    خیر میں اس بارے میں تمہارے بابا سے بات کروں گا۔ اب مجھے اجازت دو۔
    یہ کہہ کر رحیم مڑا ہی تھا کہ اچانک دروازہ کھلا۔ دروازے میں اس نے ایک بوڑھے کو دیکھا جس کے ہاتھ میں خنجر دبا ہوا تھا۔ اس بوڑھے کی نگاہیں رحیم پر جمی ہوئی تھیں۔

    شاہی باغ کا باغبان
    نعمانہ کی نظریں بھی بوڑھے پر پڑ گئی تھیں، وہ چیخ کر بولی۔ بابا۔ یہ ہمارا دشمن نہیں ہے۔
    نعمانہ کی بات سن کر بادل کے چہرے پر اطمینان کے آثار پیدا ہو گئے۔ اس نے اپنا خنجر واپس پیٹی میں رکھتے ہوئے کہا۔ میں نے تم دونوں کی آوازیں سنی تھیں اور یہ سمجھا تھا کہ آج میرے دشمن ضرور میرے گھر تک پہنچ گئے ہیں۔ مگر بیٹی یہ نوجوان کون ہے۔ شکل و صورت سے تو کوئی شہزادہ معلوم دیتا ہے۔
    نعمانہ نے  بادل کو رحیم کے متعلق بتایا۔ پھر بولی۔ بابا کیا بھیڑوں کا کوئی گاہک نہیں ملا؟
    نہیں بیٹی یہ بات نہیں ہے۔ میں نے شہر موتی نگر میں ایک شخص کو ڈھونڈ لیا ہے۔  وہ شاہی محل میں باغبان کے فرائض انجام دیتا ہے اسے دس بھیڑوں کی ضرورت ہے اور وہ انھیں خریدنے کے لیے میرے ساتھ ہی آیا ہے۔ بادل نے کہا۔
    نعمانہ نے باہر جھانکا اور حیرت سے بولی۔ یہاں تو نہیں ہے وہ!۔
    میں اتنا بے وقوف نہیں تھا کہ اسے اپنا ٹھکانہ بھی بتا دیتا۔ احیتاط اچھی چیز ہوتی ہے۔ میں اسے یہاں سے کچھ دور چھوڑ  کر آ گیا ہوں۔ تم اب جلدی سے بھیڑیں کھول دو تاکہ ان کا سودا ہو جائے۔
    میں یہ سوچ رہا ہوں کہ یہ شخص کیسا ہے جو کہ صرف بھیڑیں خریدنے کے لیے اتنی دور چلا آیا ہے؟ رحیم نے حیرانگی سے کہا۔
    بادل ہنس کر بولا۔ وہ شخص بہت ہی لالچی معلوم دیتا ہے۔ میں جانوروں کی منڈی میں کسی ایسے شخص کی تلاش میں تھا کہ جو میری بھیڑیں خرید کر منڈی میں بیچ دے۔ وہاں یہ شخص  مجھے مل گیا۔ وہ ایک آدمی سے حجّت  بازی کر رہا تھا اور یہ حجّت بازی بھیڑوں کی قیمت کے سلسلے میں ہو رہی تھی۔ میں نے جب اس سے کہا کہ میں بہترین قسم کی بھیڑیں اس کے ہاتھوں سستے داموں فروخت کرنا چاہتا ہوں تو وہ میرے ساتھ آنے کے لیے جھٹ تیار ہو گیا۔
    نعمانہ جلدی سے بھیڑیں کھول لائی جو کہ مکان کی پشت پر ایک جنگلے میں بندھی ہوئی تھیں۔ بادل انھیں ہانکتا ہوا ایک طرف کو چل پڑا۔ اس کے پیچھے نعمانہ اور رحیم بھی آنے لگے۔ وہ کچھ ہی دور گئے تھے کہ انہوں نے ایک بوڑھے کو دیکھا جو ایک بڑی سی گاڑی میں جتے اپنے گھوڑے کی رسی پکڑے ان ہی لوگوں کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اس کا چہرہ کافی بڑا تھا۔ لمبی سی ناک تھی اور چھوٹی چھوٹی آنکھیں تھیں جو لالچ سے چمک رہی تھیں۔ اس کی شکل دیکھ کر رحیم نے یہ اندازہ لگایا کہ وہ بہت حریص آدمی ہے۔ جب وہ لوگ اس کے قریب پہنچے تو بوڑھے نے منہ بنا کر کہا۔ تم نے بہت دیر کردی ہے۔ انتظار کرتے کرتے میرا برا حال ہو گیا ہے۔ اب میں ہر بھیڑ کی قیمت میں سے ایک اشرفی کاٹ لوں گا۔
    یہ تو سرا سر بے ایمانی ہو گی۔ نعمانہ نے منہ بنا کر کہا۔ بوڑھا چونک کر اسے دیکھنے لگا۔ اور پھر اچانک ہی ایسا معلوم دیا کہ جیسے نعمانہ کو دیکھ کر اسے شدید حیرت ہوئی ہے۔ وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ چند لمحے گزر گئے۔
    پھر وہ بادل کی طرف رخ کر کے بولا۔ یہ۔ یہ لڑکی کون ہے؟۔
    تم چپ چاپ بھیڑوں کا سودا کرو۔ لڑکی سے تمہیں کیا ۔ ویسے میں تمہیں بتا دوں یہ میری بیٹی ہے۔ بادل نے ناگواری سے کہا۔ اسے بوڑھے کی باتیں ایک آنکھ نہیں بھا رہی تھیں۔
    بوڑھے نے جلدی سے سر ہلا دیا اور اشرفیوں کی ایک تھیلی نکال کر بادل کو دیتے ہوئے بولا۔ یہ اشرفیاں بھیڑوں کی قیمت سے کہیں زیادہ ہیں۔ انہیں رکھو ۔ تم مجھے اپنا بہترین دوست پاؤ گے۔ اگر تمہیں کبھی مدد کی ضرورت ہو تو سیدھے میرے پاس چلے آنا۔ میں شاہی محل کا باغبان ہوں میرا نام ظہیر ہے۔ تم کسی سے بھی میرا پتہ پوچھو گے وہ بتا دے گا۔ میں موتی نگر میں بہت مشہور آدمی ہوں۔ یہ کہہ کر ظہیر نے تمام بھیڑوں کو اپنی گھوڑا گاڑی میں بھرا اور وہاں سے رخصت ہو گیا۔
    اس کی بے سروپا باتوں نے سب کو حیران کر دیا تھا۔ بادل نے سر کو جھٹکتے ہوئے کہا۔ میری سمجھ میں تو کچھ نہیں آ رہا۔ آخر اس بوڑھے ظہیر کا ان باتوںسے کیا مطلب تھا۔ پھر وہ کنجوس آدمی معمولی بھیڑوں کی اتنی زیادہ قیمت بھی دے گیا ہے۔ اور نعمانہ کو دیکھ کر وہ چونکا بھی تھا۔ آخر وہ چاہتا کیا تھا؟
    نعمانہ اور رحیم کے پاس ان باتوں کا کوئی جواب نہیں تھا۔ ظہیر کی ان پراسرار باتوں نے بادل کو پریشانی میں مبتلا کر دیا تھا۔
    جب وہ تینوں واپس مکان میں پہنچے تو رحیم نے کھنکار کر کہا۔ میرا نام رحیم ہے۔ میں ایک کام سے موتی نگر جا رہا تھا کہ اس ویرانے میں یہ مکان دیکھ کر یہاں چلا آیا۔ یہاں میری ملاقات نعمانہ سے ہوئی اور اس کی زبانی مجھے آپ کے بارے میں ساری باتوں کا علم ہوا۔ آپ نے کئی سال پہلے کسی کو قتل کردیا تھا۔ اس لیے ڈر کے مارے اس ویرانے میں رہنے لگے مگر مجھے یہ بتائیے   کہ اس معصوم لڑکی نے آپ کا کیا بگاڑا ہےجو آپ  نے اس کو بھی اس اجاڑ اور سنسان علاقے میں رہنے پر مجبور کر دیا ہے۔
    بادل کے چہرے پر اداسی نظر آنے لگی۔ خلا میں گھورتے ہوئے بولا۔ نوجوان تم صحیح کہتے ہو۔ میں واقعی بیٹی نعمانہ کے ساتھ زیادتی کر رہا ہوں۔ مگر میری بھی چند مجبوریاں ہیں۔ نعمانہ مجھے آج سے چودہ سال پہلے قریبی جنگل میں ملی تھی۔ اس وقت وہ صرف سال بھر کی تھی۔ میں شام کو جنگل سے لکڑیاں لینے کے لیے گیا تھا۔ اسی روز دوپہر کو زبردست طوفان آیا تھا اور بارش کے بھی آثار تھے۔ ایسے موسم میں گھر سے نکلنا خطرناک ہی ثابت ہوتا ہے۔ مگر چونکہ سردیوں کے دن تھے اور گھر میں لکڑیاں ختم ہو گئی تھیں اور میں رات کو دیر تک جاگنے کا عادی ہوں اس لیے میرے لیے آگ بہت ضروری تھی۔ خیر جب میں جنگل میں لکڑیاں اکھٹی کر رہا تھا تو یہ لڑکی مجھے ایک جھاڑی میں دبکی ہوئی ملی۔ اسے میں اپنے گھر لے آیا اور اور اس کی پرورش کرنے لگا۔ میں نے اس کا نام نعمانہ رکھا تھا۔ اور اب مجھے اس سے اپنی بیٹیوں کی طرح ہی محبّت ہے۔ اس قدر محبّت کرنے کے باوجود میں اسے اپنے سے جدا کرنے کو تیار ہوں۔ مگر مجھے اپنے ایک گہرے دوست کی تلاش ہے۔ میرا وہ دوست بہت اچھا ہے۔ وہ نعمانہ کی دیکھ بھال بڑے اچھے طریقے سے کر سکتا ہے۔ مگر میں اسے کافی کوششوں کے بعد بھی نہیں ڈھونڈ سکا ہوں۔ نہ جانے وہ کہاں چلا گیا ہے۔
    ہو سکتا ہے کہ میں اس سلسلے میں آپ کی کوئی مدد کر سکوں۔ اپنے دوست کا حلیہ اور نام بتائیے میں انھیں ڈھونڈنے کی کوشش تو بہرحال کروں گا۔ رحیم نے کہا۔
    اس کا نام فاروق ہے اور وہ ریشمی کپڑے کا تاجر ہے۔ بوڑھے بادل نے بتایا۔
    اس کی بات سن کر رحیم حیرت سے بولا۔ میں بھی ان ہی کی تلاش میں گھر سے نکلا ہوں۔ وہ تو میرے خالو ہیں!۔
    بادل کے چہرے پر خوشی کی ایک چمک ابھری اور وہ جلدی سے بولا۔ تم وہ ہی رحیم تو نہیں ہو جس کا ایک بڑا بھائی بھی تھا اور اس کا نام نسیم تھا۔ تم  دونوں کے ماں باپ تمہیں بچپن میں چھوڑ کر خالق حقیقی سے جا ملے تھے۔
    میں وہ  ہی رحیم ہوں؟ رحیم نے جلدی سے کہا۔
    نعمانہ ان کی گفتگو کو بڑی حیرت اور دل چسپی سے سن رہی تھی۔ بادل کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی اور اس نے کہا۔ میری دوستی تمہارے باپ قیصر اور خالو فاروق سے بہت پہلے سے چلی آ رہی تھی مگر قسمت کو ہمارا ساتھ منظور نہیں تھا۔ تمہارے باپ کو موت نے چھین لیا۔ میری دشمنی وہاں کے ایک آدمی سے بہت پرانی چلی آ رہی تھی۔ ایک روز جھگڑا بڑھ گیا اور میرا وہ دشمن میرے ہاتھوںمارا گیا۔ میں خوف کی وجہ سے وہ جگہ ہی چھوڑ کر بھاگ نکلا۔ یوں حالات کی تیز چکی میں پس کر میں اور میرے دوست ایسے بچھڑے کہ اب تک نہیں مل سکے ہیں۔ تمہارے باپ سےتو  خیر ملاقات نہیں ہو سکتی مگر فاروق تو زندہ ہے۔ میں ایک مرتبہ چھپ کر اس کےمکان پر گیا تھا مگر وہاں جا کر پتہ چلا کہ وہ یہ گھر چھوڑ کر کہیں اور جا بسا ہے۔ بہرحال اب خدا کا شکر ہے کہ تم مل گئے ہو۔ پہلے مجھے اپنی زندگی یوں عزیز تھی کہ میں نعمانہ کو دکھوں اور غموں سے بچانا چاہتا تھا۔ مگر اب میں اطمینان سے مر سکوں گا۔ رحیم تم اسے اپنے ساتھ لے جانا۔ فاروق کو میری کہانی سنا دینا۔ وہ پرانی دوستی کے ناطے نعمانہ کا اپنی بیٹیوں کی طرح خیال رکھے گا۔
    بادل کی باتیں سن کر نعمانہ اداس ہو گئی تھی۔ وہ بادل کو اپنا باپ ہی سمجھتی تھی، وہ بولی۔ بابا تمہیں بھی میرے ساتھ چلنا پڑے گا۔ اگر تم نہ گئے تو میں بھی نہیں جاؤں گی۔
    رحیم نے اس کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا۔ نعمانہ کا مطالبہ بالکل درست ہے۔ آپ اس قتل کا کفارہ دے سکتے ہیں اور پھر میرا خیال ہے کہ آپ کو اپنے جرم کی کافی سزا مل گئی ہے۔آپ کو ہمارے ساتھ ہی چلنا چاہئے۔
    اس مسئلے پر میں بعد میں غور کروں گا۔ بادل نے ٹالتے ہوئے کہا۔ تھوڑی دیر وہاں پر خاموشی چھائی رہی پھر رحیم اٹھتے ہوئے بولا۔ اچھا اب میں چلوں گا، مجھے کافی دیر ہو گئی ہے۔ میں کوشش کروں گا کہ اپنے خالو اور بھائی کو جلد سے جلد ڈھونڈنکالوں۔ انھیں لے کر میں سیدھا یہیں آوں گا۔ اور پھر ہم سب واپس چلیں گے۔
    نعمانہ اسے باہر تک چھوڑنے کے لیے آئی۔ رحیم اپنے گھوڑے پر سوار ہوا اور وہاں سے روانہ ہو گیا۔ نعمانہ دیر تک اسے جاتا دیکھتی رہی۔

    باغبان کی چالاکی
    ظہیر نعمانہ کو دیکھ کر یونہی نہیں چونکا تھا۔ اسے شاہی باغ میں کام کرتے ہوئے دس سال ہو گئے تھا اور وہ محل میں بلا روک ٹوک آتا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ وہ بادشاہ کی بیٹی شہزادی فرزانہ کے لیے پھولوں کا گلدستہ بھی ہر شام کو بنا کر اس کے کمرے میں رکھ کر آتا تھا۔ شہزادی فرزانہ صرف پھولوں کی خوشبو سے لطف اندوز ہو سکتی تھی، ان کا رنگ روپ اپنی نظروں سے نہیں دیکھ سکتی تھی کیونکہ برسوں پہلے جب وہ صرف ایک سال کی تھی اور بادشاہ اور ملکہ کے ساتھ جنگل گئی تھی تو وہاں ایک زبردست طوفان آیا تھا۔ اس طوفان کی وجہ سے ہر طرف افرا تفری مچ گئی تھی۔ وہ ایک کنیز کی گود میں تھی۔ کنیز بھاگ کر کسی محفوظ جگہ جانا چاہتی تھی کہ اسی دوران ایک درخت کی موٹی سی شاخ تیز ہواؤں کی وجہ سے ٹوٹ کر ان پر آن پڑی۔ شہزادی کے سر پر چوٹ لگی تھی۔ اس کے سر کے زخم کا علاج تو ہوگیا تھا مگر جب وہ کچھ بڑی ہوئی تو بادشاہ اور ملکہ کو پتہ چلا کہ وہ دیکھ نہیں سکتی ہے۔ اس کا بہت علاج کروایا گیا مگر اس کی آنکھیں ٹھیک نہ ہو سکی تھیں۔ اس بات سے بادشاہ اور ملکہ ہر وقت اداس رہتے تھے۔
    ظہیر یوں حیران تھا کہ شہزادی فرزانہ اور نعمانہ کی شکلیں حیرت انگیز طریقے سے ایک دوسرے سے مشابہت رکھتی تھیں۔  جب اس نے بادل کے ساتھ پہلی مرتبہ نعمانہ کو دیکھا تھا تو وہ یہ ہی سمجھا تھا کہ وہ شہزادی فرزانہ ہی ہے مگر یہ خیال صرف ایک لمحہ کے لیے ہی تھا کیونکہ دوسرے ہی لمحہ وہ یہ سمجھ گیا تھا کہ وہ شہزادی فرزانہ کی شکل کی کوئی اور لڑکی ہے۔
    بوڑھا ظہیر ایک عیّار  انسان تھا۔ اسے دولت سے  بہت محبّت تھی۔  دولت کی خاطر وہ کچھ بھی کر سکتا تھا۔ نعمانہ کو دیکھ کر اس کے ذہن میں ایک منصوبہ ترتیب پانے لگا تھا اور اسے توقع تھی کہ اگر یہ منصوبہ کامیاب ہو گیا تو اس کے قدموں میں اشرفیوں کے ڈھیر لگ جائیں گے۔  اتنی بہت سی دولت کا تصور کرتے ہی اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ اس کا گھر آ گیا تھا۔ اس نے گھوڑا گاڑی سے بھیڑیں اتار کر انھیں گھر میں ایک کمرے میں بند کر دیا۔ پھر گھوڑے کو اصطبل میں باندھ کر وہ محل کی طرف چل پڑا۔
    یہ بھیڑیں اس نے اس لیے خریدی تھیں کہ وہ اپنی شادی کر رہا تھا۔ اس کی بیوی چار پانچ سال ہوئے فوت ہو چکی تھی۔ شائد وہ اس عمر میں شادی نہ کرتا مگر حالات ہی کچھ ایسے ہوگئے تھے کہ وہ مجبور ہو گیا۔  اس کا ایک دوست تھا۔  اس نے ظہیر سے کچھ رقم ادھار لی تھی اور مقررہ وقت گزر جانے کے بعد بھی قرض کی رقم لوٹانے میں ناکام رہا تھا۔ ظہیرکے اس دوست کی ایک لڑکی بھی تھی۔ یہ لڑکی بوڑھے ظہیر کو پسند آ گئی اور اس نے اپنے دوست کے سامنے یہ شرط رکھ دی کہ اگر وہ اپنی لڑکی کی شادی اس سے کرنے کو تیار ہوجائے تو وہ قرض کی تمام رقم معاف کر دے گا۔ دوسری صورت میں وہ اس معاملے کو قاضی تک لے جائے گا۔ اس کا دوست ایک شریف آدمی تھا اور ہر شریف آدمی اپنی عزت سے ڈرتا ہے لہٰذا وہ اپنی لڑکی کی شادی ظہیر سے کرنے پر تیار ہو گیا۔ شادی چند دنوں بعد ہو رہی تھی اور اس نے یہ بھیڑیں شادی میں آنے والے مہمانوں کی ضیافت دینے کی غرض سے خریدی تھیں۔
    ظہیر تھوڑی دیر بعد محل پہنچ گیا تھا ۔ اسے بادشاہ سے ملاقات کرنی تھی اور بادشاہ کے پاس پہنچنے میں اسے کوئی دشواری پیش نہیں آئی۔ بادشاہ اسے دیکھ کر بولا۔ کیا بات ہے ظہیر؟
    ظہیر نے ادب سے ہاتھ باندھے اور سر جھکا کر بولا۔ جہاں پناہ آپ کے لیے ایک خوش خبری لے کر آیا ہوں۔
    بادشاہ نے حیران ہو کر پوچھا۔ خوش خبری۔ کیسی خوش خبری۔ کیا تم نے باغ میں کوئی انوکھا پودا لگایا ہے؟
    جی نہیں۔ ظہیر نے سر ہلا کر کہا۔ خوش خبری یہ ہے کہ اب شہزادی فرزانہ صاحبہ دیکھنے کے قابل ہو جائیں گی۔
    ظہیر کی بات سن کر بادشاہ کے چہرے پر حیرت کے آثار پیدا ہو گئے تھے۔ اس نے کہا۔ ظہیر کیا تم سچ کہہ رہے ہو؟
    ظہیر مسکرا کر بولا۔ جہاں پناہ۔ میں بالکل سچ کہہ رہا ہوں۔
    مگر یہ بات کیسے ممکن ہے۔ ہم نے شہزادی کی بینائی کے لیے ہر جتن کر کے دیکھ لیا ہے۔ دور دور سے قابل طبیب بلا کر اس کا علاج کروایا ہے مگر تمام کوششوں کے باوجود وہ دیکھنے کے قابل نہ ہوسکی۔ تم بھلا اسے کیسے ٹھیک کر سکتے ہو۔
    ظہیر نے گردن گھما کر ادھر ادھر دیکھا اور پھر سنجیدگی سے بولا۔ حضور میری بات پر یقین کیجئے۔ میں زیادہ تفصیل نہیں بتا سکتا۔ صرف اتنا سن لیجئے کہ میری دوستی ایک پری سے ہے۔ اس پری کا نام گم سم پری ہے۔ ایک دفعہ میں نے اس کی جان ایک خونخوار دیو سے بچائی تھی اس وجہ سے وہ میری احسان مند ہے۔ ابھی گزشتہ ہفتے وہ مجھ سے ملی تھی۔ مجھ سے کہنے لگی میں تمہارے زیر احسان ہوں اگر تمھاری کوئی خواہش ہو تو مجھے بتاؤ۔ میں اسے پورا کروں گی۔ میرے ذہن میں فوراً شہزادی صاحبہ کا خیال آیا۔ مجھ سے آپ کی اور ملکہ صاحبہ کی پریشانی نہیں دیکھی جاتی۔  میں نے گم سم پری سے کہا کہ میری تو صرف ایک ہی خواہش ہے کہ کسی طرح ہماری شہزادی صاحبہ دیکھنے کے قابل ہو جائیں۔ اس نے جواب دیا کہ یہ کوئی مشکل بات نہیں ہے۔ وہ سلیمانی سرمہ لا کر شہزادی صاحبہ کی آنکھوں میں لگا دے گی اور شہزادی صاحبہ کی آنکھیں ٹھیک ہو جائیں گی۔ تو جہاں پناہ آج رات وہ پری میرے گھر آئے گی۔ اس نے  مجھے منع کر رکھا تھا کہ میں اس کی اور اپنی دوستی کا ذکر کسی سے نہ کروں۔  وہ کسی کے سامنے نہیں آنا چاہتی۔ آپ بھی اس بات کو اپنے تک ہی محدود رکھئیے گا۔
    بادشاہ جو مکّار ظہیر کی باتوں پر یقین کر چکا تھا، خوشی سے لرزتی ہوئی آواز میں بولا۔ اوه ظہیر۔ ہم نہیں جانتے تھے کہ تم ہمارے اتنے وفادار ہو گے اور ہماری پریشانی کو اپنی پریشانی سمجھو گے۔ اگر ہماری بیٹی کی بینائی واپس آ گئی تو ہم تمہیں بہت سارا  انعام و اکرام دیں گے۔
    ظہیر نے اپنی خوشی کو چھپاتے ہوئے کہا۔ جہاں پناہ میرا یہ ہی سب سے بڑا انعام ہو گا کہ شہزادی صاحبہ کی بینائی واپس آ جائے۔
    بادشاہ اس کے جواب سے بہت خوش ہوا۔ گلے سے سْچےّ موتیوں کا ہار اتار کر اسے دیا اور بولا۔ بس گم سم پری تمہیں جیسے ہی سلیمانی سرمہ دے تو ویسے ہی یہاں چلے آنا۔
    ظہیر نے جلدی سے کہا۔ جہاں پناہ میں آپ کو یہ بتانا بھول گیا تھا کہ وہ سلیمانی سرمہ صرف اسی صورت میں اثر کرے گا کہ اسے گم سم پری خود اپنے ہاتھوں سے شہزادی صاحبہ کی آنکھوں میں لگائے۔ میں اسے محل میں لا نہیں سکتا کیونکہ وہ مجھ سے ناراض  ہو جائے گی کہ میں نے دوسروں کو اس کے متعلق کیوں بتایا ہے۔ اب صرف ایک ہی صورت رہ جاتی ہے کہ شہزادی صاحبہ میرے گھر چلیں ۔ اگر اتنی بڑی خوشی تھوڑی سی تکلیف اٹھانے سے مل جائے تو بری نہیں ۔
    بادشاہ کچھ سوچنے لگا۔ پھر سر ہلا کر بولا۔ ٹھیک ہے۔ تم شہزادی کو اپنے ساتھ لے جا سکتے ہو۔
    شہزادی فرزانہ نے بھی جب یہ بات سنی تو وہ بھی بادشاہ  اور ملکہ کی طرح بہت خوش ہوئی۔ اس نے جلدی جلدی بہترین کپڑے زیب تن کئے اور شاہی بگھی میں  بیٹھ کر ظہیر کے ساتھ اس کے گھر کی طرف روانہ ہوگئی۔
    ظہیر کا گھر آ گیا تھا۔ وہ شہزادی کو لے کر گھر میں داخل ہوا۔ اور پھر بجائے کسی کمرے کا رخ کرنے کے وہ شہزادی فرزانہ کو تہہ خانے کی طرف لایا۔ تہہ خانے کا دروازہ کھول کر اس نے شہزادی فرزانہ کو زور سے دھکّا دے دیا۔ وہ بے چاری چیختی چلاتی ہوئی سیڑھیوں پر لڑھکتی تہہ خانے کے فرش پر جا گری۔ خوف و دہشت سے اس کا برا حال ہوگیا تھا۔ وہ زور زور سے رونے لگی۔
    ظہیر زور زور سے ہنسنے لگا۔ اس نے کہا۔ تو اب اسی تہہ خانے میں صبح تک قید رہے گی۔  میں اس وقت تو ایک ضروری کام سے جا رہا ہوں۔ واپس آتے ہی سب سے پہلے تجھےقتل کردوں گا تاکہ میرا راز ہمیشہ راز ہی رہے۔
    یہ کہہ کر اس نے تہہ خانے کا دروازہ زور سے بند کر دیا اور وہاں سے چلا آیا۔ پھر وہ اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر اپنے ایک جادوگر دوست سے ملنے کے لیے چل دیا۔ وہ آبادی سے ہٹ کر ایک میدان میں  رہتا تھا۔ اس کا نام انگارہ جادوگر تھا۔ وہ اپنے گھر میں ہی مل گیا۔ ظہیر کی طرح وہ بھی بہت ظالم اور مکّار آدمی تھا۔ ظہیر کو دیکھ کر وہ خوش ہو گیا۔ مسکراتے ہوئے بولا۔ کیوں بھئی ظہیر کیسے آنا ہوا۔
    ظہیر نے جواب دیا۔ میں اس وقت بہت جلدی میں ہوں۔ میں نے ایک بہت بڑا چکّر چلایا ہے اور اب مجھے تمھاری مدد کی ضرورت ہے۔
    تم پورا قصّہ سناؤ۔ میں تمہاری مدد ضرور کروں گا۔ انگارہ جادوگر نے کہا۔
    ظہیر نے ایک گہری سانس لے کر کہا۔ مجھے ایک ایسی لڑکی ملی ہے جو بادشاہ کی بیٹی کی ہمشکل ہے۔ تم جانتے ہو کہ ہماری شہزادی اندھی ہے۔ لہذا میں نے ایک منصوبہ کے تحت بادشاہ  کو یہ یقین دلا دیا ہے کہ میں اس کی بیٹی کی بینائی واپس دلا سکتا ہوں۔ شہزادی اب میرے تہہ خانے میں قید ہے۔ میں اسے صبح قتل کر دوں گا۔ اب تم مجھے پانی پر ایسا جادو پڑھ کر دے دو کہ اگر وہ پانی شہزادی فرزانہ کی ہمشکل لڑکی پر چھڑک دیا جائے تو وہ اپنی گزشتہ زندگی کو فراموش کر دے اور خود کو شہزادی فرزانہ اور بادشاہ اور ملکہ کو اپنا ماں باپ سمجھنا شروع کر دے۔ اس طرح بادشاہ یہ ہی سمجھے گا کہ میری وجہ سے اس کی بیٹی کی آنکھیں ٹھیک  ہوگئی ہیں اور پھر وہ اس کے بدلے انعام میں مجھے لاکھوں اشرفیاں دے گا۔
    لاکھوں اشرفیوں کا سن کر انگارہ جادوگر کی آنکھیں خوشی سے چمکنے لگیں۔ وہ لالچ بھرے لہجے میں بولا۔ اور تم ان لاکھوں اشرفیوں میں سے مجھے کتنی اشرفیاں دو گے؟
    ظہیر نے بڑے اطمینان سے کہا۔ ہم دونوں انھیں آدھی آدھی بانٹ لیں گے۔
    ظہیر کی یہ بات سن کر انگارہ جادوگر خوشی سے کھل گیا۔ اس نے جلدی سے جادو کا پانی ایک بوتل میں بند کر کے اسے دے دیا اور بولا۔ جب تم یہ پانی اس لڑکی پر چھِڑکو گے تو وہ خود کو سچ مچ شہزادی فرزانہ سمجھنے لگے گی۔ مگر دیکھنا انعام ملنے کے بعد مجھے مت بھول جانا ورنہ میں تمام بھانڈا پھوڑ دوں گا۔
    ظہیر نے بڑی زور سے گردن ہلائی۔ تمہیں تو بھولنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مگر وہ تو دیکھو۔ تمھارے گھر کی طرف یہ گھڑ سوار کون آ رہا ہے۔ اس نے کھڑکی کی طرف اشارہ کر کے کہا۔
    انگارہ جادوگر چونک کر کھڑکی سے باہردیکھنے لگا اور ظہیر نے اسی لمحے کا  فائدہ اٹھاتے ہوئے بڑی تیزی سے اپنی تلوار نکالی اور پھرتی سے انگارہ جادوگر کی گردن پر وار کر دیا۔ اس کی گردن کٹ کر دور جا گری اور اس کا جسم فرش پر گر کر تڑپنے لگا۔ اس کے مرتے ہی چاروں طرف اندھیرا چھا گیا۔ ایک خوفناک شورکانوں کے پردے پھاڑنے لگا۔ پھر یکایک بڑے زور کی آندھی چلنے لگی اور انگارہ جادوگر کا مکان بھک سے اڑ گیا۔
    تھوڑی دیر بعد یہ شور شرابہ تھم گیا تو ظہیر نے خود کو میدان میں کھڑا پایا۔ اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی اور وہ بڑ بڑایا۔ ہونہہ۔ یہ لالچی اور دھوکہ باز جادوگر مجھ سے آدھی اشرفیاں ٹھگنا چاہتا تھا۔ اس نے اپنی تلوار نیام میں رکھ لی۔ اور گھوڑے پر سوار ہو کر پہاڑوں کی طرف چل دیا۔ رات ہو گئی تھی اسے یہ بھی فکر نہیں تھی کہ اس کی واپسی تک شہر کا دروازہ بند ہو جائے گا کیونکہ وہاں کے پہرے دار اس کے دوست تھے۔ اس کا گھوڑا بڑی تیزی سے اپنی راہ پر گامزن تھا۔ آج کی رات اسے دو قتل کرنا تھے۔ ایک شہزادی فرزانہ کا اور دوسرا بوڑھے بادل کا۔ ویسے وہ اس بات سے بے خبر تھا کہ انگارہ جادوگر کے مرتے ہی پانی پر کیا ہوا جادو بے اثر ہو گیا تھا۔

    رحیم کا انتقام
    رحیم شام کو ہی شہر میں پہنچ گیا تھا۔ اسے کسی سرائے کی تلاش تھی  تاکہ رات وہاں بسر کرے اور صبح ہوتے ہی اپنے خالو اور بھائی  کی تلاش شروع کر دے۔ اسے وہاں گھومتے ہوئے زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ اچانک وہ ٹھٹھک کر رہ گیا۔ وہ بڑی حیرت سے اپنے خالو اور بھائی کو دیکھ رہا تھا جو حیران اور پریشان نظر آ رہے تھے۔ ان کے جسموں پر کپڑے بھی نہایت معمولی تھے۔ رحیم تیزی سے ان کی طرف بڑھا۔ اسے دیکھ کر وہ دونوں کھل اٹھے۔ خالو نے آگے بڑھ کر اسے سینے سے لگا لیا اور نسیم نے اس کی پشت تھپتھپاتے ہوئے کہا۔
    رحیم تم بڑے موقع سے یہاں پہنچے ہو۔ ہماری جیبیں بالکل خالی ہیں ۔ کیونکہ ہم خالو بھانجے آج ہی جیل سے چھوٹے ہیں۔
    جیل سے؟ رحیم نے بڑی حیرت سے کہا۔
    نسیم نے سر ہلا دیا اور بولا۔ پہلے کسی سرائے میں ایک اچھا سا کمرہ لیتے ہیں۔ پھر تفصیل سے گفتگو ہوگی۔
    رحیم حیران حیران سا ان کے ساتھ ہو لیا۔ پھر وہ لوگ ایک سرائے میں ٹھہر گئے۔ کھانے سے فارغ ہو کر فاروق تو بستر پر لیٹ کر سو گیا اور یہ دونوں بھائی ایک دوسرے سے باتیں کرنے میں مصروف ہوگئے۔
    نسیم اسے اپنی کہانی سنانے لگا۔ اس نے کہا۔ اپنے ساتھ لایا ہوا کپڑا ہم نے اچھے داموں فروخت کر دیا تھا۔ تمام رقم لے کر ہم گھر آنے کی تیاری کر رہے تھے۔ خالو جان کو باغبانی کا شوق ہے۔ انہوں نے کسی سے سن لیا تھا کہ شاہی محل کے باغبان کے گھر میں بڑے نایاب پھولوں کے پودے ہیں۔ خالو جان اور میں اس کے گھر گئے تاکہ اس سے پھولوں کے پودے خرید سکیں۔ وہ بہت چالاک آدمی ہے۔ اس کا نام غالباً ظہیر ہے۔ اس نے ہم سے بڑی چاپلوسی سے کی باتیں کیں اور یہ بھی کہا کہ وہ کل ہمیں شاہی باغ سے ایک ایسے گلاب کی شاخ بھی لا کر دے گا جس میں گیندے کے پھول بھی کھلتے ہیں۔ اس کی اس بات سے خالو جان بہت متاثر ہوئے۔ اس مکّار اور چالباز شخص نے ہمیں اس بات پر بھی آمادہ کر لیا کہ ہم وہ رات اس کے گھر ہی گزاریں۔ اس نے رات کے کھانے کا انتظام کیا۔ کھانے کے فوراً ہی بعد ہمیں اچانک نیند نے آ لیا اور ہم دونوں سو گئے۔ صبح جب آنکھ کھلی تو یہ دیکھ کر ہم حیرت زدہ رہ گئے کہ ہمارے جسموں پر نہایت معمولی کپڑے تھ۔ ہماری تمام رقم بھی غائب تھی جو ہم نے پٹکوں میں رکھ کر اپنی کمر سے باندھی ہوئی تھی۔ ہمارے پاس دو گٹھڑیاں رکھی ہوئی تھیں اور سب سے عجیب جو بات تھی وہ یہ تھی کہ میں اور خالو جان ایک چلتی پھرتی شاہراہ پر پڑے ہوئے تھے اور ہمارے ارد گرد لوگوں کی بھیڑ لگی ہوئی تھی ۔ بھیڑ میں موجود لوگ ہمیں بڑی عجیب و غریب نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔ ہم بوکھلا کر اٹھ بیٹھے۔ تھوڑی دیر بعد وہ مکّار ظہیر چند سپاہیوں کو لے کر وہاں آ گیا اور بولا۔ یہ  دونوں وہ ہی چور ہیں جنہوں نے میرے گھر میں چوری کی تھی۔
    میں اس کی تمام مکّاری سمجھ گیا تھا۔ اس نےہماری دولت ہتھیانے کے لیے یہ سب کچھ کیا تھا۔ سپاہیوں نے ہمیں گرفتار کر لیا۔ کیونکہ ہمارے پاس سے چوری کا سامان بھی برامد ہو گیا تھا جو ہمارے پاس رکھی ہوئی گٹھڑیوں میں اس عیار باغ بان نے رکھوا دیا تھا۔ ہم نے بہت دہائیاں  دیں کہ ہم بے قصور ہیں مگر کسی نے ہماری ایک نہیں سنی اور اس ناکردہ جرم کے صلے میں ہمیں چار ماہ کے لیے جیل میں بند کر دیا گیا۔ آج چار ماہ پورے ہوگئے تھے اس لیے ہم اب آزاد ہو گئے ہیں۔ خدا کا شکر کہ ہمیں تم مل گئے ورنہ ہم بڑی دشواریوں میں پڑ جاتے۔
    یہ ظہیر تو بہت ہی کمینہ آدمی ہے۔ رحیم نے پوری کہانی سن کر بڑے غصّے سے کہا۔ میری اس سے ملاقات ہو چکی ہے۔  اس کے اس فریب کا میں اسے ضرور جواب دوں گا۔
    نہیں اس سے الجھنا بے کار ہے۔ ہو سکتا ہے وہ ہمیں کسی اور مصیبت میں پھنسا دے۔ یہ رات خیریت سے بسر ہو جائے تو پھر کل ہم اپنے شہر روانہ ہو جائیں گے۔  مجھے احساس ہے کہ خالہ اور سائرہ ہماری گمشدگی سے بہت پریشان ہوں گی۔
    ہاں۔ دونوں ہی فکر اور پریشانی کرنے میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش کر رہی ہیں اور اس فکر اور اور پریشانی کا یہ اثر ہوا ہے کہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ خالہ کون سی ہیں اور سائرہ بھابی کون سی ہیں۔ رحیم نے بڑے مزے سے سر ہلا کر کہا۔ نسیم ہنسنے لگا اور ہنستے ہوئے بستر پر دراز ہو گیا۔ آج ایک عرصہ بعد نرم نرم آرام دہ بستر میّسر ہوا تھا یہ ہی وجہ تھی کہ وہ بھی جلد گہری نیند سو گیا۔
    رحیم کو اسی وقت کا انتظار تھا۔  وہ چپکے سے اٹھا اور دروازہ کھول کر باہر نکل آیا۔ اس کو ظہیر پر بہت غصّہ آ رہا تھا۔ تمام پریشانیاں اسی کی پیدا کی ہوئی تھیں اور رحیم ان تمام تکلیفوں اور  ذلّتوں کا بدلہ اس سے لینا چاہتا تھا جو اس کی وجہ سے اس کے خالو اور بھائی کو اٹھانا پڑی تھیں۔
    بوڑھے باغبان ظہیر کا گھر ڈھونڈنے میں اسے کوئی دقّت پیش نہیں آئی کیونکہ اس نے لوگوں سے  اس کے گھر کے متعلق دریافت کر لیا تھا۔ ظہیر کے گھر میں تالا پڑا ہوا تھا۔ رحیم سوچنے لگا کہ آخر وہ اتنی رات کو کہاں جا سکتا ہے۔ اچانک اسے اپنے کانوں میں کسی کی سسکیوں کی آوازیں آئیں۔ یہ آوازیں مکان کے اندر سے آ رہی تھیں لہذا رحیم نے اندر جانے کا فیصلہ کر لیا۔ وہ دیوار پھاند کر صحن میں پہنچا اور پھر سارے گھر میں گھوم پھر کر دیکھنے لگا کہ سسکیوں کی آوازیں کہاں سے آ رہی ہیں۔  جلد ہی وہ تہہ خانے تک پہنچ گیا۔ اس نے جلدی سے تہہ خانے کا دروازہ کھولا۔ اندر گھپ اندھیرا تھا۔  رحیم جلدی سے ایک لیمپ روشن کر کے لایا اور پھر وہ بڑی حیرت سے بولا۔ ارے نعمانہ تم یہاں کیا کر رہی ہو؟
    تہہ خانے میں موجودلڑکی بالکل نعمانہ کی ہمشکل تھی اور ظاہر ہے وہ نعمانہ نہیں شہزادی فرزانہ تھی۔ شہزادی فرزانہ پہلے تو ڈری کہ رحیم بھی اس بوڑھے باغبان کا ساتھی ہے مگر رحیم نے جلد ہی اس کی یہ غلط فہمی دور کر دی۔
    شہزادی فرزانہ نے اسے بڑی تفصیل سے اپنی کہانی سنائی۔ اس کی کہانی سن کر رحیم نے کہا۔  تو کیا پری نے تمھاری آنکھوں میں سلیمانی سرمہ لگا دیا تھا۔ اب تو تم دیکھ سکتی ہو۔
    نہیں۔ پری سے تو میری ملاقات ہی نہیں ہوئی۔ مجھے تہہ خانے میں دھکّا دے کر وہ بد بخت تو چلا گیا تھا مگر اسی دوران ایک حیرت انگیز بات یہ ہوئی کہ جب ظہیر نے مجھے سیڑھیوں پر سے دھکّا دے کر تہہ خانے میں گرایا تھا تو میرا سر زمین سے ٹکرایا تھا اور میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی اور شائد اس چوٹ اور رونے کا ہی اثر تھا کہ میری دونوں آنکھیں ٹھیک ہو گئی ہیں۔
    اپنی آنکھیں ٹھیک ہوجانے کے سبب وہ بہت خوش نظر آ رہی تھی۔ رحیم شہزادی فرزانہ کی نعمانہ سے ملتی جلتی شکل پر غور کر رہا تھا اور پھر اچانک ہی اس کےذہن میں ظہیر کا منصوبہ واضح ہو گیا۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ ظہیر بادشاہ کو بے وقوف بنا کر اس سے انعام کی رقم حاصل کرنا چاہتا ہے۔
    اس نے شہزادی فرزانہ کو اس کی چالاکی سے آگاہ کیا تو وہ بڑے جوش سے بولی۔ نعمانہ اگر میری ہمشکل ہے تو یقیناً میری بہن ہو گی، میری ایک جڑواں بہن آج سے چودہ سال پہلے جنگل میں کھو گئی تھی۔ اس وقت ہم دونوں ایک ایک سال کی تھیں اور ابّا حضور ہماری امی کے ساتھ سیر و تفریح کی غرض سے جنگل آئے تھے۔ ہم دونوں بہنیں بھی ساتھ تھیں۔  وہاں اچانک زبردست آندھی آ گئی اور اس آندھی کے نتیجے میں ایسی بھگدڑ مچی کہ میری دوسری بہن پالنے سے گر کر کہیں کھو گئی اور کافی ڈھونڈنے کے بعد بھی نہیں ملی۔ سب نے یہ فرض کر لیا تھا کہ وہ کسی جانور کا شکار ہو گئی ہوگی۔
    ابھی شہزادی کی بات ختم ہوئی تھی کہ کسی نے باہر سے دروازہ کھولا۔ رحیم اور شہزادی صحن میں تھے اور وہاں پر لیمپ جل رہا تھا۔ اندر داخل ہونے والا ظہیر تھا۔ اس کے کاندھے پر بے ہوش نعمانہ تھی۔ دراصل ظالم ظہیر نے بوڑھے بادل کو نعمانہ کے سامنے ہی قتل کر دیا تھا اور اس صدمے کی وجہ سےوہ بے ہوش ہو گئی تھی۔ ظہیر اسے گھوڑے پر ڈال کر گھر لے آیا مگر اب جب اس نے اپنے گھر میں رحیم کو دیکھا تو وہ غصّے سے آگ بگولہ ہو گیا۔ اس نے نعمانہ کو زمین پر لٹایا  اور تلوار نکال کر رحیم پر جھپٹا۔
    رحیم نے بھی اپنی تلوار نکال لی اور دونوں میں شدید لڑائی ہونے لگی۔ شہزادی فرزانہ انھیں حیرت و خوف سے دیکھ رہی تھی۔ رحیم ایک ماہر شمشیر زن تھا۔ اس نے پینترے بدل بدل کر حملے کرنے شروع کر دیے جس کے نتیجے میں بوڑھا ظہیر زیادہ دیر تک اس کا مقابلہ نہ کر سکا۔  اس کاجسم زخموں سے چور ہو گیا تھا۔ پھر وہ زمین پر گر پڑا اور کچھ دیر تک تڑپنے کے بعد ٹھنڈا ہو گیا۔
    اتنی دیر میں نعمانہ کو بھی ہوش آ گیا تھا۔ وہ اٹھ کر بیٹھ گئی۔ اس کی نظر شہزادی فرزانہ پر پڑی تو اپنی ہمشکل لڑکی کو وہ حیرت سے دیکھنے لگی۔ شہزادی فرزانہ نے اسے ہوش میں آتا دیکھ کر جلدی سے آگے بڑھ کر اس کی کلائی دیکھی اور پھرخوشی سے چیخ مار کر اس سے لپٹ گئی۔ نعمانہ کی کلائی پر شاہی مہر ثبت  تھی، جس سے ثابت ہو گیا تھا کہ وہ ہی اس کی گمشدہ بہن ہے۔
    پھر وہ تینوں محل آئے۔ بادشاہ اور ملکہ کو جب یہ پتہ چلا کہ ان کی کھوئی ہوئی بیٹی بھی مل گئی ہے اور شہزادی فرزانہ کی آنکھیں بھی ٹھیک ہو گئی ہیں تو وہ دونوں خوشی سے بے حال ہو گئے۔ اپنے ماں باپ کو پا کر نعمانہ بھی  بہت خوش تھی۔ بادشاہ اور ملکہ رحیم کے بہت شکر گزار تھے۔ جس کی بدولت عیّار  ظہیر اپنے انجام کو پہنچ گیا تھا۔
    اگلے دن رحیم کے اس کارنامے کی خبر فاروق اور نسیم  کو بھی ہو گئی۔ بادشاہ نے انھیں بھی محل میں ہی بلا لیا تھا۔  اس نے دونوں کے سامنے رحیم کی ذہانت اور بہادری کی بے حد تعریف کی۔ بادشاہ کے منہ سے رحیم کی تعریف سن کر فاروق اور نسیم خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے۔ نعمانہ جو اب شہزادی نعمانہ بن گئی تھی اسے بھی رحیم کی تعریف سن کر بہت اچھا لگ رہا تھا۔
    بادشاہ کو اس بات کا بھی علم ہو گیا تھا کہ ظہیر کی مکّاری کی وجہ سے فاروق اور نسیم کو جیل کی ہوا کھانا پڑ گئی تھی۔ جس کی وجہ سے انہوں نے مہینوں اپنے گھر کا منہ نہیں دیکھا ہے۔ اس بات پر اس نے افسوس کا اظہار کیا۔
    اگلے روز رحیم نے بادشاہ سے رخصت ہونے کی اجازت طلب کی۔ بادشاہ انھیں کچھ اور دن اپنا مہمان بنا کر رکھنا چاہ رہا تھا مگر اسے احساس تھا کہ ان کے گھر والے فاروق اور نسیم کی گمشدگی سے بہت پریشان ہوں گے۔ اس لیے اس نے بادل نخواستہ انھیں جانے کی اجازت دے دی۔ اس نے انھیں بہت قیمتی انعامات سے نوازا اور رحیم کو ہدایت کی کہ وہ اس کے بعد محل آتا جائے رہے۔ اس کے جانے کا سن کر شہزادی نعمانہ اداس نظر آنے لگی تھی۔ ملکہ اس کی حالت دیکھ کر مسکرانے لگی۔ وہ سمجھ گئی تھی شہزادی نعمانہ اسے پسند کرنے لگی ہے۔
    وہ لوگ جب اپنے گھر پہنچے تو انھیں دیکھ کر رحیم کی خالہ اور سائرہ بھابی خوشی سے کھل اٹھیں۔ انہوں نے الله کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا کہ فاروق اور نسیم ساتھ خیریت کے گھر لوٹ آئے تھے۔ ان کی کہانی سن کر رحیم کی خالہ اور بھابی نے حیرت کے مارے منہ میں انگلیاں دبا لی تھیں۔ سائرہ نے رحیم کے سر پر ہلکے سے چپت مار کر کہا۔ تم تو بہت تیز نکلے۔ ہم تو سمجھتے تھے کہ تم گھومنے پھرنے والے ایک کھلنڈرے لڑکے ہو۔ تم نے تو کمال کر دکھایا ہے۔ اس کی بات سن کر رحیم مسکرانے لگا۔ انھیں اس بات کی بھی بہت خوشی ہوئی تھی کہ رحیم کی ذہانت اور بہادری کی بدولت بادشاہ اور ملکہ کو ان کی کھوئی ہوئی بیٹی بھی مل گئی تھی۔
    رحیم تھوڑے تھوڑے دنوں بعد محل کا چکّر ضرور لگا لیتا تھا۔ بادشاہ اور ملکہ اسے اپنے بیٹوں کی طرح ہی چاہنے لگے تھے۔ وہ محل میں آتا تو سب خوش ہوجاتے تھے۔ نعمانہ تو بہت ہی خوش ہوتی تھی اور ہر دم اس کے ساتھ ساتھ رہتی تھی۔
    دونوں شہزادیاں چونکہ جوان ہو گئی تھیں۔ اس لئے ایک روز بادشاہ نے ان دونوں کی شادی کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس سلسلے میں اس نے ملکہ سے مشوره کیا۔ ملکہ کو شہزادی نعمانہ کی پسند کا علم تھا۔ اس بات کا اظہار اس نے بادشاہ سے بھی کردیا۔ فرزانہ کا رشتہ پڑوسی ملک کے ایک خوبصورت شہزادے کی طرف سے آیا ہوا تھا۔ یوں شہزادی فرزانہ اس شہزادے سے بیاہ دی گئی اور شہزادی نعمانہ کی شادی رحیم سے ہو گئی۔ اور پھر سب بڑے چین و سکون سے زندگی گزارنے لگے۔

                                                                                                            

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے