Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

فوزیہ اور بون سائی

ایاز محمود

فوزیہ اور بون سائی

ایاز محمود

MORE BYایاز محمود

    فوزیہ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی تھی اور گھر بھر کی لاڈلی۔ سارا گھر اس کا دیوانہ تھا۔ بڑی اماں کا خیال تھا کہ ضرورت سے زیادہ لاڈ پیار نے فوزیہ کو بگاڑ دیا ہے اور خاص طور پر کھانے پینے کے معاملے میں تو وہ ضدی ہو کر رہ گئی ہے۔

    بڑی اماں ٹھیک کہتی تھیں۔ جب بھی کھانا لگتا تو ایک مسئلہ کھڑا ہوجاتا۔

    ’’پیاری بیٹی۔ کھانا کھا لو۔‘‘ امی خوشامد کرتیں۔

    باجی اور ابو پیار سے سمجھاتے، مگر فوزیہ کو ایک تو کچھ پسند ہیں نہیں آتا اور جو وہ کچھ کھاتی بھی تو چند نوالے کھا کر ہاتھ روک لیتی۔

    ان باتوں کا نتیجہ اور کیا ہوسکتا ہے۔ وہ اپنی عمر سے کہیں چھوٹی اور کمزور نظر آتی تھی۔ جو بھی ملنے جلنے والی آتیں تو وہ اسے دیکھ کر امی سے یہ ضرور کہتیں۔

    ’’ارے بہن! اسے کچھ کھلایا پلایا کرو۔ دیکھو لڑکی کیسی سوکھ کر کانٹا ہوگئی ہے۔‘‘

    اور امی تو بے چاری ٹھنڈا سانس بھر کر رہ جاتیں۔

    ایک دن ابو دفتر سے گھر لوٹے تو انہوں نے امی سے کہا۔

    ’’ایک باغ میں پھولوں کی نمائش ہو رہی ہے۔ بچوں سے کہیں جلدی تیار ہوجائیں۔‘‘

    بس پھر کیا تھا۔ تھوڑی دیر میں سب تیار ہوکر باغ میں جاپہنچے۔

    پھولوں کی نمائش دیکھنے میں بڑا ہی مزا آیا۔

    فوزیہ تو ایک اسٹال پر بس کھڑی ہی ہوگئی۔ 

    دیکھئے ابو! کتنے ننھے منہ سے درخت، اس نے حیرت اور خوشی سے کہا۔

    یہ آم، نیم اور پیپل وغیرہ کے درخت تھے۔ جن کی عمریں تو کم ازکم پانچ دس سال ہوں گی مگر ان کا قد ایک ڈیڑھ فٹ سے زیادہ نہ تھا۔ ان کے تنے بھی تھے، شاخیں اور پتے بھی۔ بالکل بڑے درختوں کی طرح۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے کسی نے جادو کی چھڑی گھما کر انہیں اتنا بونا سا بنا دیا ہو۔

    گھر واپس پہونچتے ہی فوزیہ نے سب سے پہلا سوال بونے درختوں کے بارے میں کیا۔

    ابو نے اسے بتایا کہ ان درختوں کو جب یہ ننھے منے پودے ہوتے ہیں ایک خاص طریقے سے بڑھنے سے روک دیا جاتا ہے۔ یہ ایک بہت پرانا جاپانی فن ہے اور اسے ’’بون سائی‘‘ کہتے ہیں۔

    ’’یہ سب کیسے ہوتا ہے ابو؟ فوزیہ نے تجسس سے پوچھا۔

    ابو نے کہا۔ بیٹا ان پودوں کو بہت کم پانی دیا جاتا ہے۔ دھوپ سے بچایا جاتا ہے۔ ان کی جڑوں، ڈالیوں اور پتوں کی وقتاً فوقتاً تراش خراش کی جاتی ہے۔ اس طرح یہ پودے بہت ہی کم غذا حاصل کرپاتے ہیں اور چھوٹے سے رہ جاتے ہیں۔

    فوزیہ کو اچانک کچھ خیال آیا۔ اس نے سوچا۔

    ’’کھانا تو میں بھی بہت کم کھاتی ہوں۔ کیا میں بھی بونے درختوں کی طرح چھوٹی سی رہ جاؤں گی!!۔ اس خیال کے آتے ہی فوزیہ کچھ پریشان سی ہوگئی۔

    اسے محسوس ہوا کہ اس کے دوسرے بہن بھائی اس کے مقابلے میں صحت مند بھی ہیں اور قد آور بھی۔ پھر ایک روز اس نے خواب دیکھا کہ وہ بالکل بونی سی لڑکی بن گئی ہے اور پھولوں کی نمائش میں بون سائی پودوں کے ساتھ کھڑی ہوئی ہے۔ نمائش میں آنے والے لوگ اس بچی کو غور سے دیکھ رہے ہیں اور چھوٹے چھوٹے بچے فوزیہ کو دیکھ کر خوش ہو رہے ہیں اور مزے مزے سے گا رہے ہیں۔

    جو نہ کچھ بھی کھائے گا
    بون سائی بن جائے گا

    فوزیہ یہ منظر دیکھ کر پریشان ہوگئی مگر اس کی آنکھ کھلی تو اس نے شکر کیا کہ یہ تو صرف خواب تھا۔

    اب فوزیہ کھانا کھاتے ہوئے نخرے نہیں کرتی اور جو کچھ بھی پکا ہو اسے شوق سے کھا لیتی ہے۔ اب فوزیہ پہلے سے اچھی بھی ہوگئی ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے