Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

گل مہر کا درخت

پرویز اشرفی

گل مہر کا درخت

پرویز اشرفی

MORE BYپرویز اشرفی

    خالد کو آتا دیکھ کر رحیم چاچا اپنی نرسری کے دروازے پر اگے گل مہر کے سایہ دار درخت کے پاس رکھی کرسی پر بیٹھ گئے۔ خالد جب نزدیک آیا تو اس کے ہاتھ میں انار کا ایک پودا تھا۔ گزشتہ شام ہی وہ پودا انہوں نے خالد کو دیا تھا۔

    ’’کس چیز کا پودا ہے چاچا؟‘‘، ’’خالد نے معصومیت سے پوچھا تھا۔‘‘

    ’’انار کا۔‘‘ رحیم چاچا نے اس کے گال پر تھپکی دیتے ہوئے بتایا تھا۔

    ’’تمہارے گھر کے دروازے کے سامنے کافی جگہ خالی ہے، کسی ایک جگہ اس پودے کو لگا دینا۔ پودا بڑا ہو کر انا کے میٹھے پھل دےگا اور دروازے پر ہریالی بھی رہےگی۔‘‘

    ’’خالد پودا لے کر بہت خوش تھا۔ لیکن اگلے ہی دن پودا واپس لے کر کیوں آ گیا؟‘‘

    رحیم چاچا سوچ میں پڑ گئے تھے۔

    ’’کیا ہوا خالد! پودا پسند نہیں آیا؟‘‘

    ’’پودا تو پسند ہے چاچا، پر ابو نے کہا کہ بڑے بزرگ کا کہنا ہے کہ انار کا درخت گھر میں یا آس پاس نہیں لگانا چاہیے۔ اس پر جنوں کا سایہ ہوتا ہے۔‘‘ خالد نے تفصیل بتائی۔ خالد کی باتیں سن کر رحیم چاچا نے اپنا سر پکڑ لیا اور بولے۔

    ’’بیٹا خالد! میری نگاہ میں تمہارے ابو پڑھے لکھے نادان ہیں۔‘‘ ایک لمحہ کے لیے رک کر وہ پھر بولے: اگر کوئی شخص لوگوں کی کہی سنی باتوں کو بغیر سمجھے بوجھے مان لیتا ہے میں اسے پڑھا لکھا بیوقوف سمجھتا ہوں۔‘‘ خالد خاموشی سے رحیم چاچا کی بات سنتا رہا۔

    ’’تم ہی بتاؤ اگر انار کے درخت پر جنوں کا سایہ ہوتا تو لوگ آنگن، باع باغیچہ میں بھی نہیں لگاتے۔ پھر یہ پھل بازاروں میں کس طرح آتا اور لوگ جوس والے کی دکان پر اس کا رس کیسے پیتے جو صحت کے لیے مفید اور مقوی بھی ہے۔‘‘ رحیم چاچا نے فائدہ بتانے کی کوشش کی۔ خالد نے ان کی تائید کی۔

    ’’سچ یہ ہے کہ انار کا پودا جب درخت بنے گا تو اس میں پھل آئیں گے۔ جب پھل سے لدا درخت آنے جانے والوں کو متاثر کرے گا تو لالچ میں اسے توڑنے کی کوشش کریں گے۔ میری بات صحیح ہے؟‘‘

    ’’جی چاچا‘‘ خالد نے ہامی بھری۔

    ’’اب اس کی رکھوالی اور حفاظت کے لیے وقت دینا ہوگا، یعنی تمہارے ابو کی نظر میں یہ بے مطلب کا کام ہو گیا۔‘‘

    ’’جی‘‘ خالد نے تائید کی۔

    ’’ایک اور اہم بات کچھ درختوں کی ڈالیاں کمزور ہوتی ہیں، ان میں انار کا درخت بھی شامل ہے۔ خدانخواستہ کوئی شریر بچہ پھل توڑنے کی غرض سے درخت پر چڑھنے کی کوشش کرےگا تو ممکن ہے ڈالی ٹوٹ جائےگی اور بچہ زمین پر گر کر زخمی ہوسکتا ہے۔ اسی وجہ سے بزرگوں نے اس درخت کے متعلق ڈر پیدا کرنے کے واسطے یہ بات پھیلا دی کہ درخت پر جنوں کا سایہ ہوتا ہے۔ بھلا جن بھی تو اللہ کی بنائی مخلوق ہے، وہ درخت پر کیوں رہےگی۔؟‘‘

    ’’شاید آپ درست فرما رہے ہیں۔‘‘ خالد نے سنجیدہ لہجے میں کہا۔

    ’’اب یہ انار کا پودا تم مجھے لوٹا دو اور اس کے بدلے گل مہر کا یہ پودا لے جاؤ اور اپنے ابو کی اجازت سے اپنے دروازے کے باہر ضرور لگا دینا۔ جب یہ پودا درخت بنےگا تو گھنا سایہ دےگا اور خوبصورت رنگوں کے پھول بھی۔‘‘ رحیم چاچا نے گل مہر کا پودا خالد کو دیتے ہوئے کہا۔

    خالد نے پودا لے لیا اور جانے لگا۔ تبھی رحیم چاچا نے اسے مخاطب کیا۔

    ’’اپنے ابو کو یہ ضرور بتا دینا کہ پیارے نبیؐ نے شجرکاری (پودے لگانے) کی تعلیم دی ہے۔ انہوں نے فرمایا:

    ’’اگر قیامت آنے والی ہے اور کسی نے اس وقت کھجور کا ایک پودا بھی لگا دیا تو اللہ تعالیٰ اس کا اجر دےگا۔‘‘ (مسند احمد)

    ’’خالد میرے بچے! پودے درخت بن کر پھل اور سایہ دونوں دیتے ہیں۔ یہ ہمارے ماحولیاتی نظام کو بھی صاف ستھرا رکھتے ہیں۔ فضا میں آلودگی انہیں کی وجہ سے نہیں پھیلتی۔ تم نے تو سائنس میں ضرور پڑھا ہوگا؟‘‘

    ’’جی چاچا‘‘ کہتے ہوئے خالد تیز تیز قدم بڑھاتا اپنے گھر کی طرف لوٹ گیا۔!!

    مأخذ:

    گل مہر کا درخت (Pg. 94)

    • مصنف: پرویز اشرفی
      • ناشر: رحمانی پبلیکیشنز، مہاراشٹر
      • سن اشاعت: 2015

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے