Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ہدہد کا بچہ

کمال الدین

ہدہد کا بچہ

کمال الدین

MORE BYکمال الدین

    آخر پروگرام بن ہی گیا۔ جون کا پہلا ہفتہ تھا۔ ہم لوگ دلی جانے کی تیاریاں کرنے لگے۔ ہم سات آدمیوں کی ٹولی میں مسخرہ رمیش بھی تھا، جس کو ہم نے بڑی مشکل سے اس سفر کے لیے تیار کیا تھا، کیوں کہ ہم جانتے تھےکہ اس کے بغیر سفر کا لطف آدھار جائےگا۔ بنارس کینٹ سے اپر انڈیا ایکسپریس میں ہم سب سوار ہو گئے اتفاق ہی کہئے کہ اس دن کوئی خاص بھیڑ نہ تھی اور ہم لوگوں کو اوپر کی برتھیں سونے کے لئے مل گئیں۔ رات کو گیارہ بجے تک تو ہم لوگ رمیش کی باتوں سے لطف اندوز ہوتے رہے، مگر جب اسے نیند آنے لگی تو ہم لوگوں نے بھی سونے کا ارادہ کر لیا۔

    میری آنکھ اس وقت کھلی جب جب مرغ کی بانگ کی کئی آوازیں میرے کانوں کے پردے سے ٹکرائیں۔ میں ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھا۔ مرغ کی بانگ میں نے ٹرین کے اندر پہلی بار سنی تھی۔ اگر ٹرین کے باہر کسی مرغ نے بانگ دی بھی ہو تو وہ اپر انڈیا ایکسپریس کی گھڑ گھڑاہٹ کو چیر کر اندر کیسے آسکتی تھی؟ بڑی عجیب بات تھی۔ میں نے اتنا ہی سوچا تھا کہ میری نظر اپنے سامنے والی برتھ پر پڑی جس پر رمیش اپنی ہنسی روکے بیٹھا تھا۔ جیسے ہی ہم دونوں کی نظریں ملیں اس کی ہنسی کا آبشار ابل پڑا۔ نیچے بیٹھے ہوئے میرے دوسرے ساتھ بھی قہقہہ لگانے لگے۔

    یہ مرغ کی بانگ ہمارے دوست رمیش کے گلے ہی کا کرشمہ تھی۔ وہ مختلف پرندوں اور جانوروں کی بولیوں کی نقل اتارنے میں ماہر تھا۔

    ٹونڈلہ اسٹیشن آیا۔ ہم نے ناشتہ کیا اور پھر کمپارٹمنٹ میں آ بیٹھے۔ نیچے کی سیٹ پر ایک گول مٹول سے صاحب لمبی تانے سو رہے تھے۔ ہم لوگوں کے قہقہے کے باوجود ان کی آنکھ نہیں کھلی تھی۔ رمیش نے شرارت بھری نظروں سے ہمیں دیکھا اور ان کے سرہانے جا بیٹھا ہم لوگ سمجھ گئے کہ اب اگلا شو کیا ہوگا۔ رمیش نے مرغ کی تین چار بانگیں ان صاحب کے کان کے پاس دیں اور باہر کھڑکی میں جھانکنے لگا۔ ہم لوگ بھی اپنی ہنسی بری طرح روکے ہوئے تھے۔

    ان صاحب نے سب سے پہلے اپنی سیٹ کے نیچے جھانک کر دیکھا اور پھر ادھر ادھر۔ اس کے بعد انہوں نے جما ہی لی اور چادر سے اپنے آپ کو ڈھک کر بھی دراز ہو گئے۔ پندرہ منٹ تک بالکل خاموشی چھائی رہی۔ ہم لوگ اپنی ہنسی پی گئے تھے۔ پندرہ منٹ کے بعد رمیش نے پھر بانگ دی۔ اس بار وہ صاحب اٹھ کھڑے ہوئے۔ انہوں نے باقاعدہ چاروں طرف نظریں دوڑانی شروع کیں اور کئی سیٹوں کے نیچے جھانکا بھی، پھر اپنی سیٹ پر آکر بیٹھ گئے ہم لوگوں کو شک بھری نگاہوں سے گھورا اور سیٹ کی پشت سے لگ کر اونگھنے لگے۔ دس منٹ بعد رمیش نے بانگ کا ایک اور نعرہ لگایا۔

    ان صاحب کا غصہ اپنی حد پارکر چکا تھا۔ انہوں نے سخت لہجے مےں ہم لوگوں کو مخاطب کیا، ’’دیکھنے میں تو آپ شریف اور پڑھے لکھے معلوم ہوتے ہیں، مگر ساتھ میں مرغے مرغیاں لے کر چلتے ہیں اور اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی پریشان کرتے ہیں۔‘‘ انہوں نے ہماری بیدگی بنی ہوئی بڑی اٹیچی کو گھورا اور یوں سر ہلایا جیسے سمجھ گئے ہوں کہ ہم لوگوں نے مرغے مرغیاں اسی اٹیچی میں بند کر رکھی ہیں!

    گیارہ بجے رہے تھے۔ ٹرین اپنی آخری دوڑ ختم کر رہی تھی کہ ایک ٹکٹ چیکر ہمارے کمپارٹمنٹ میں گھس آیا۔ ٹکٹ چیکر ہم لوگوں کا ٹکٹ دیکھ کر لوٹنے ہی والا تھا کہ گول مٹول صاحب نے لوکا ’’اور مرغے مرغیاں!‘‘

    چیکر پھر ہم لوگوں کی طرف مخاطب ہو گیا، ’’کہاں ہیں مرغ مرغیاں۔‘‘

    گول مٹول صاحب نے ہم لوگوں کی اٹیچی کی طرف اشارہ کر دیا۔

    ’’کیوں جناب؟‘‘ ٹکٹ چیکر نے رمیش کو اس طرح مخاطب کیا جیسے وہ کوئی بڑا مجرم ہو۔

    جی۔۔۔ جی۔۔۔ و۔۔۔ وہ۔۔۔ مرغ۔۔۔ مرغیاں۔۔۔ رمیش نے بناوٹی گھبراہٹ کا اظہار کیا۔

    ’’جی دی کچھ نہیں۔ آپ کو ان کا محصول مع جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔ جلدی کیجئے۔‘‘ چیکر نے سختی سے کہا۔

    ’’جی لیکن وہ، مرغ مرغیاں ہیں کہاں؟‘‘ رمیش نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔

    چیکر کے کہنے پر جب رمیش نے اپنی اٹیچی کھولی تو چیکر کے ساتھ ساتھ گول مٹول صاحب کی آنکھیں بھی کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ اٹیچی کپڑوں سے اوپر تک بھری ہوئی تھی۔

    چیکر نے ہم لوگوں سے نظر بھی نہ ملائی۔ صرف گول مٹول صاحب کی طرف ایک بار گالی دینے والی نظر سے دیکھا اور آگے بڑھ گیا۔

    ٹکٹ چیکر کمپارٹمنٹ کے دروازے سے باہر جھانک رہا تھا کہ رمیش نے عجیب قسم کی چڑیوں کی بولی سے کمپارٹمنٹ کو گونجا دیا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے