Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

جادو کا ہوائی جہاز

سید محمد یحییٰ

جادو کا ہوائی جہاز

سید محمد یحییٰ

MORE BYسید محمد یحییٰ

    عید کے دن میری آٹھویں سالگرہ تھی۔ صبح سے ابا میاں کے دوست اور میرے دوست مجھے کھلونے دے رہے تھے۔ شام ہوتے ہوتے میرے پاس گھوڑے، ریل گاڑیاں، چلنے پھرنے والے ٹین کے سپاہی، روئی کے بنے ہوئے کتے جو پیٹے دبانے سے ’’چوں چوں‘‘ کرتے ہیں اور کھلونے کے بھالو، جمع ہو چکے تھے مگر ان میں سے مجھے اسلمؔ چچا کا دیا ہوا ہوائی جہاز سب سے زیادہ پسند تھا۔ وہ تھا تو ٹین کا مگر بالکل اسی طرح تھا جس طرح کے ہوائی جہاز کی تصویریں اخباروں میں چھپتی ہیں اس میں دو دو پنکھیاں تھیں۔ چار پر تھے۔ آدمیوں کے بیٹھنے کی جگہیں تھیں۔ اور اس کے نیچے وہ پہیئے بھی تھے جن پر وہ چلتا تھا۔ بس ایسا معلوم ہوتا تھا کہ بڑے ہوائی جہاز کا ایک چھوٹا سا چربہ ہے اسلمؔ چچا نے یہ ہوائی جہاز دے کر پوچھا ’’بیٹا اس ہوائی جہاز کا کیا بناؤگے؟‘‘ میں نے کہا۔ ’’چچا میاں میں۔۔۔ میں اس سے جرمنوں کا سر توڑ دوں گا۔‘‘ اس پر نہ جانے کیوں اسلم چچا اور ابا میاں دونوں ہنس پڑے۔ دن بھر میں اسی سے کھیلتا رہا اور رات کو اپنے بستر پر اسے رکھ کر سویا۔

    ابھی لیٹے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ باہر باجے کی آواز سنائی دی۔ مجھے بڑا تعجب ہوا کہ اتنی رات کو باہر باجہ کہاں بج رہا ہے۔ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔ ہوائی جہاز عائب تھا۔ میں سیدھا اس طرف بھاگا۔ جس طرف سے باجہ بجنے کی آواز آ رہی تھی۔ وہاں دیکھا کہ میرا ہوائی جہاز تو غائب ہے۔ پر اسی طرح کا کافی بڑا ہوائی جہاز کھڑا ہے۔ میرے دل میں یہ خیال آیا کہ اگر اس میں کنجی بھر دی جائے اور اس میں بیٹھ رہیں تو کیسا ہو؟ میں نے اس میں کنجی بھرنی شروع کی اور پھر اچھل کر اس میں سوار ہو گیا۔ میں بیٹھنے کو تو بیٹھ گیا۔ گر یہ خیال مجھے آیا کہ اب واپس کیسے جاؤں گا۔ لیکن میں نے دل میں کہا کہ جب کنجی ختم ہو جائےگی۔ تو جہاز کہیں ٹھہر ہی جائےگا اور پھر دیکھا جائےگا!

    ہوائی جہاز نے اڑنا شروع کیا مگر کمال یہ تھا کہ ساتھ ساتھ نہایتہی مدھم سر میں اسی طرح وائلن بجانے کی آواز آرہی تھی۔ جس طرح عقیلہ باجی اکثر بجاتی ہیں میں نے ادھر ادھر سیکھا کہ یہ آواز کہاں سے آرہی ہے تو پتہ چلا کہ یہ پنکھوں کی آواز ہے میں نے نیچے کی طرف دیکھا۔ اس وقت میرا جہاز میوزیم کی عمارت پر سے گزر رہا تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد دھان کے سبز کھیت دکھائی دیئے۔ بس جہاں تک نظر جا رہی تھی۔ ہرے بھرے دھان کے کھیت ہی کھیت دکھائی دے رہے تھے میں ان کو صرف انداز سے سمجھ رہا تھا۔ کیونکہ اگرچہ چاندنی بہت ہی سفید تھی پر میرا ہوائی جہاز بہت اونچا اڑ رہا تھا۔ جب کھیت ختم ہوئے تو وہ بڈھا برگد کا درخت ملا۔ جس پر بھوت رہا کرتے ہیں میں نے ڈر سے آنکھیں بند کر لیں۔ میرا ہوائی جہاز سمندروں پہاڑوں۔ میدانوں اور دریاؤں سے گزرتا ہوا ایک عالیشان سنہری محل کے پاس پہنچ گیا۔ سارا محل روشنی سے جگ مگ کر رہا تھا۔ باہر ایک لڑکی جو بیگم باجی کی طرح شلوار پہنے ہوئے کھڑی تھی۔ مگر اس کے دوپر بھی تھے جو تتریوں کے پروں کی طرح تھے۔ اس نے مجھے دیکھ کر کہا: ’’آ گئے تم؟ مگر تم نے بڑی دیر لگائی۔‘‘

    ’’مگر! مگر آپ کون؟ کیا آپ میرا انتظار کر رہی تھیں۔‘‘ میں نے سہم کر پوچھا

    ’’اوہو! تم نے مجھے نہیں پہچانا۔ میں پریوں کی ملکہ کی بیٹی ہوں۔ میں تم کو پرستان کی سیر کراؤں گی۔‘‘

    ’’سچ مچ؟‘‘ میں نے پوچھا۔

    اس نے سر ہلایا اور میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اپنے ساتھ محل کے اندر لے گئی،

    محل کے اندر ایک کمرہ میں ایک لمبی میز پر طرح طرح کے کھانے چنے ہوئے تھے اور بہت سی پریاں کرسیوں پر بیٹھی تھیں۔ ملکہ کی بیٹی کو دیکھ کر وہ سب اٹھ کر کھڑی ہو گئیں مجھے اس نے اپنے ساتھ بٹھایا اور سبھوں نے کھانا شروع کیا۔ عجیب و غریب قسم کی مٹھائیاں وہاں موجود تھیں۔ مجھے سخت تعجب ہوا کہ اس دعوت میں صرف میٹھی چیزیں تھیں۔ مگر کیا بتاؤں مٹھائیاں ایسی ایسی نایاب تھیں کہ اب بھی یاد کر کے منہ میں پانی آ جاتا ہے۔

    دعوت کے بعد اس پری نے مجھے اپنے باغ کی سیر کرائی۔ اس نے مجھے ایک ایسا پیالہ دکھایا۔ جس میں دنیا کی ہر چیز نظر آتی تھی۔ دوسری چیز جو میں نے دیکھی وہ ٹیبل کا فوارہ تھا۔ وہاں باغ میں میں نے ہر ٹیبل پر شیشہ کا فوارہ دیکھا۔ جس میں سے چلتے وقت مختلف قسم کی روشنی نکلتی تھی۔ اس نے مجھے وہاں کا گانا بھی سنایا۔ مجھے خاک سمجھ نہ آیا مگر ہاں آواز بہت ہی اچھی تھی! اس پر پری نے پوچھا۔ ’’کیوں یہ جگہ پسند آئی؟‘‘

    ’’جی ہاں بہت! اب تو دل یہی چاہتا ہے کہ ہمیشہ یہیں رہا کرو۔ مگر میں یہاں آیا کیسے۔‘‘

    ’’او تم اب تک نہیں سمجھے۔ ہر سال عید اور دیوالی کے موقع پر میرا نوکر عید کے کھلونوں میں جادو کا ایک ہوائی جہاز رکھ دیا کرتا ہے۔ جس بچے کو وہ ہوائی جہاز ملتا ہے وہ عید یا دیوالی کی رات کو پرستان کی سیر کرتا ہے۔

    اس کے بعد جو آنکھ کھلی تو اپنے آپ کو بسر پر پڑا پایا اور وہیں جہاز بھی ساتھ ہی رکھا تھا! جب دوپہر کو اسلمؔ چچا آئے تو میں کہا ’’اسلم چچا اب کے دیوالی میں بھی مجھے ایک ایسا ہی ہوائی جہاز لا دیجئےگا۔‘‘

    اسلمؔ چچا بولے۔ ’’کیوں؟ عید میں تم کو ہوائی جہاز دیا ہے۔ دیوالی کے موقع پر تمہاری دوست شیلاوتی کو ہوائی جہاز دوں گا۔‘‘

    میں نے کہا۔ ’’نہیں چچا جان میں پھر ایک بار پرستان کی سیر کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ مگر اس درمیان میں ابا میاں اور چچا جان نہ جانے کس بات میں لگ گئے۔ اب میں عید کے موقع پر اس ہوائی جہاز کا انتظار کرتا ہوں۔ خدا کرے وہ جہاز ایک بار پھر مجھے مل جائے!۔

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے