Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

جی میاں کی کہانی

محمد اسد اللہ

جی میاں کی کہانی

محمد اسد اللہ

MORE BYمحمد اسد اللہ

    جی میاں کا قد بہت ہی چھوٹا تھا ۔ رہتے بھی تھے وہ ایک چھوٹے سے گاؤں میں۔ ان کے مختصر قد کی وجہ سے بہت دنوں تک چھوٹے چھوٹے بچے ان کے ساتھ مزے سے کھیلتے رہے ۔ وقت کے ساتھ وہ بچے بڑے ہو گئے تو بچوں کی دوسری کھیپ ان کی دوست بن گئی ۔ پھر وہ بھی بڑے ہو گئے مگر جی میاں جوں کے توں رہے۔ ان کے لئے جیسے وقت رک سا گیا تھا۔ شریف لوگ انھیں دیکھتے اور مسکرا کر رہ جاتے شریر بچے اپنی شرارتوں سے باز نہ آتے، ان کا مذاق اڑاتے۔ جی میاں کبھی تو اس مذاق کو بھی مذاق میں اڑاتے اور اکثر مزہ لیتے۔ ان کی دلچسپ باتیں اور انوکھی ادا میں دیکھ کر لوگ لوٹ پوٹ ہو جاتے ۔ قد ان کا بھلے ہی چھوٹا سا تھا مگر دماغ بڑا پایا تھا۔ اسی مناسبت سے اس کا گھر یعنی جی میاں کا سر اچھا خاصہ بڑا تھا۔ ذرا سے بدن پر مٹکے جیسا سر دیکھ کر ہی دیکھنے والوں کی ہنسی چھوٹ جاتی تھی۔

    ایک وقت ایسا بھی آیا کہ سب کو ہنسانے والے جی میاں کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اچانک ان کے والد چل بسے۔ ابھی ان کے آنسو تھمے بھی نہ تھے کہ ان کی والدہ اللہ کو پیاری ہو گئیں۔ جی میاں اس بھری پری دنیا میں اکیلے رہ گئے ۔ ماں باپ نے اپنے جیتے جی کبھی انھیں کسی پریشانی کا منہ نہ دیکھنے دیا۔

    والدین کے انتقال کے بعد جی میاں کو دال آٹے کا بھاؤ معلوم ہونے لگا۔ جی میاں کے والد درزی تھے۔ بیٹے کو یہ کام آتا نہ تھا۔ جب پریشانیاں بڑھنے لگیں تو ایک دن جی میاں نے اپنے پڑوسی جمّن میاں سے کہا، ’’چچا ! اب تو گھر میں کچھ بھی نہیں بچا۔ بابا جو روپیہ پیسہ چھوڑ کر گئے تھے سب اٹھ گیا۔ اب ہم سوچ رہے ہیں کچھ محنت مزدوری کر کے اپنا گزارا کریں۔ ہو سکے تو ہمیں کوئی اچھا سا کام دلا دو۔ شیخ جمّن نے کہا تم کام کرو گے؟‘ اور پھر وہ خوب ہنسا۔ لگاتار دو دنوں تک ہنستا ہی رہا۔

    اب تک لوگ جی میاں کے عجیب وغریب ڈیل ڈول کو دیکھ ہنستے مسکراتے تھے مگر جی میاں کا دل ہی کچھ ایسا تھا کہ انھوں نے کسی کی ہنسی کا بھی برا نہیں مانا مگر آج شیخ جمن کی ہنسی سے ان کے دل پر جیسے چھریاں چل گئیں۔ وہ جانتے تھے شیخ ان کے قد پر نہیں ان کی بے بسی پر ہنس رہا ہے۔

    دو دن بعد شیخ جمّن نے اپنی بے لگام ہنسی کو روکا اور کہنے لگا ’’میاں چھٹکے! تم کیا کام کرو گئے؟ اتنے سے آدمی کو کون کام دے گا؟ اور کرو گے کیا آخر؟

    ’’میں اپنے بابا کی طرح کپڑے سیا کروں گا۔‘‘جی میاں نے بڑے اعتماد کے ساتھ کہا۔

    ’’ہا۔ ہا۔ ہا کپڑے! لوگ سلوائیں گے تم سے کپڑے؟ ارے وہ تمہیں پاجامہ سینے کو دیں گے اور تم نیکرسی دو گے، شیروانی سینے بیٹھو گے اور جیکٹ بنا دو گے۔

    ’’اچھا تو میں محنت مزدوری کروں گا۔‘‘

    ’لوگ ٹوکروں میں مٹی اٹھا ئیں گے تم کٹوروں میں اٹھانا۔‘

    جمّن میاں کی کٹیلی با تین سن کر جی میاں مایوس ہو کر وہاں سے چل دئے۔ پھر ایک دکاندار سے پوچھا: ’’کیا تم مجھے اپنی دکان میں نوکر رکھو گے؟‘‘

    دکاندار نے انھیں سر سے پیر تک حیرت سے دیکھا اور کہا ’’کیا تمہیں میری دکان سرکس دکھائی دیتی ہے۔‘‘

    جی میاں کا دل ٹوٹ گیا۔ انھیں محسوس ہوا کہ وہ اس دنیا میں ایک فالتو قسم کی چیز ہیں۔ ایسی بے کار زندگی سے تو بہتر ہے کہ آدمی مرجائے ۔ یہ سوچ کر جی میاں گاؤں سے باہر گئے جہاں سے ریلوے لائین گذرتی تھی۔ وہ ریل کی پٹری پر لیٹ گئے کہ آج خود کو ختم ہی کر لیں گے۔ اس دن ٹرین بھی لیٹ تھی۔ گھنٹہ بھر وہیں پڑے رہے ریل نہیں آئی۔ اسی دوران ایک بوڑھا فقیر ادھر سے گذرا۔ اس نے انھیں اس حال میں دیکھا تو پوچھا، ’’میاں جی یہاں کیوں پڑے ہو؟‘‘

    جی میاں نے اسے اپنے جی کا حال کہہ سنایا۔ بوڑھے فقیر نے انھیں یہ کہہ کر ڈھارس بندھائی، ’دیکھو! یہ دنیا خدا نے بنائی ہے اور اس کا چھوٹے سے چھوٹا ذرہ بھی بے کار

    نہیں تم تو آدمی ہو، جو ساری مخلوقات سے بہتر اور اعلیٰ ہے، تم کیسے بے کار ہو سکتے ہو۔ خدا نے تمہارے اندر بھی کوئی ایسی چیز ضرور رکھی ہے جس سے دنیا والوں کو فائدہ پہنچے گا۔ اس گاؤں والوں نے تمہاری قدر نہیں کی تو کیا ہوا۔ دیکھو ادھر آگے ایک بہت بڑا جنگل ہے، اس کے پار ایک بستی ہے تم وہاں جاؤ، شاید تمہیں وہاں کوئی کام مل جائے۔

    اس بوڑھے کی باتیں سن کر جی میاں کے اندر ہمت پیدا ہوئی اور وہ خدا کا نام لے کر جنگل کے پار بستی کی طرف چل پڑے۔ جنگل بہت ہی گھنا تھا۔ پرندوں اور جانوروں کی آوازیں آرہی تھیں۔ پیڑوں پر پھل جھول رہے تھے۔ جی میاں چلتے چلتے تھک گئے۔ بھوک بھی لگنے لگی تھی۔ کچھ پیڑوں پر چڑھ کر انھوں نے پھل توڑے اور پیٹ کی آگ بجھائی۔ کچھ دیر آرام کیا۔ پھر آگے بڑھے تھوڑی دور جانے پر انھوں نے دیکھا کہ جنگل کے درمیان ایک پنجرہ رکھا ہے۔ آس پاس کچھ رسیاں اور سامان بکھرا ہوا ہے۔

    پنجرہ کے قریب پہنچے تو ایک زوردار دھاڑسن کر اچھل پڑے۔ پنجرہ میں ایک شیر بند تھا۔ جی میاں کو دیکھ کر لگا زور زور سے دھاڑنے ۔ پھر جی میاں نے ایک عجیب وغریب سی آواز سنی۔ جیسے کوئی ان سے کہہ رہا ہو۔ جی میاں نے ادھر ادھر دیکھا۔ کوئی نہ تھا۔ جلد ہی پتہ چل گیا کہ یہ شیر کی آواز تھی اور پنجرہ سے آرہی تھی۔ شیر ان سے کہہ رہا تھا۔

    ’اے بھائی مجھے پنجرہ سے نکالو، اے بھائی مجھے پنجرہ سے نکالو۔‘

    ’ارے تم بولتے بھی ہو؟‘ جی میاں نے شیر سے پوچھا۔

    ’ہاں بھائی کیا کروں، ایسی مصیبت آپڑی ہے کہ بولنا پڑ رہا ہے، خدا کے لئے مجھے اس پنجره سے نکالو، میں زندگی بھر تمہارا احسان نہیں بھولوں گا۔ شیر اپنے دونوں پنجے جوڑ کر ان کے آگے گڑ گڑایا۔

    ’مگر یہ تو بتاؤ تم اس پنجرہ میں بند کیسے ہوئے؟‘ جی میاں نے پوچھا۔

    شیر بولا: ’’ارے کیا بتاؤں، ادھر سرکس والے آئے تھے۔ انھوں نے مجھے پکڑ کر اس پنجرہ میں بند کر دیا اور دوسرے جانور ڈھونڈ نے جنگل میں چلے گئے۔ اب وہ واپس آئیں گے اور مجھے اپنے ساتھ شہر لے جائیں گے اور ہنر دکھا کر سرکس میں نچوائیں گے۔ مجھ پر رحم کرو یہ دروازہ کھول کر مجھے آزاد کر دو۔‘‘

    ’نا میاں شیر‘ میں تمہیں باہر نہیں نکال سکتا۔ مجھے اپنی امی کی سنائی ہوئی دو کہانی اچھی طرح یاد ہے۔ اس کہانی میں بھی ایک شیر ایک گڑھے میں اسی طرح پھنسا تھا اور ایک آدمی سے بڑی منت سماجت کی تھی کہ مجھے اس گڑھے سے باہر نکالو، میں تمہارا احسان زندگی بھر نہیں بھولوں گا اور اس آدمی نے جب اس شیر کو باہر نکالا تو پتہ ہے اس شیر نے کیا کیا؟ اسی آدمی کو کھانے دوڑا۔ میں تمہیں باہر نکال کر مصیبت مول لینا نہیں چاہتا۔‘ جی میاں نے اپنا فیصلہ سنا دیا تو شیر گڑ گڑایا۔ ’بھائی معاف کرنا جس شیر کی تم بات کر رہے ہو، در اصل وہ میرے پردادا کے نگڑ دادا تھے میں ان کی اولاد ضرور ہوں مگر احسان فراموش نہیں ہوں۔ میری بات پر بھروسہ رکھو میں پنجرہ سے باہر نکلتے ہی دم دبا کر چپ چاپ چلا جاؤں گا۔‘‘

    جی میاں سیدھے سادے آدمی تھے، شیر کی میٹھی میٹھی باتوں میں آگئے اور پنجرہ کا دروازہ کھول دیا۔ شیر باہر آیا اور پنجے جھاڑ کر انگڑائی لی اور دھاڑنا شروع کر دیا۔ ’میں تو اب تمہیں کھاؤں گا‘ جی میاں نے حیران ہو کر کہا، ’مگر تم نے تو وعدہ کیا تھا کہ میرا احسان کبھی نہ بھولو گئے۔‘

    شیر نے کہا: ’’مجھے اس قدر بھوک لگی ہے کہ کوئی وعدہ یاد نہیں ۔ ان دونوں میں تکرار ہونے لگی، اسی دوران ایک لومڑی وہاں سے گذر رہی تھی۔ رک کر بولی: ’’تم لوگ اس طرح کیوں لڑ رہے ہو۔‘‘

    جی میاں نے لومڑی کو اپنی پوری کہانی سنادی اور کہا، اب یہ شیر میاں، مجھے کھاناچاہتے ہیں۔‘

    ’’ مگر ایک بات بتاؤ، اتنے سے پنجرے میں اتنا بڑا شیر آخر سمایا کیسے؟‘‘ لومڑی کا یہ جملہ سن کر شیر اچھل پڑا۔ ’اے مکار لومڑی! مجھے الو سمجھتی ہے؟ مجھے اچھی طرح یاد ہے وہ کہانی تمہاری نانی کی پرنانی کی نگڑ نانی نے بھی اسی طرح میرے دادا کے پردادا کے نگڑ دادا کو پنجرہ میں گھسنے کے لئے کہا تھا اور پھر پنجرہ کا دروازہ بند کر دیا تھا، میں اس پنجرہ میں اب بالکل نہیں جاؤں گا۔ اس پر جی میاں نے آگے بڑھ کر کہا ’خیر کوئی بات نہیں، تم نہ سہی، میں ہی اس پنجرہ میں جا کر لومڑی کو دکھا دیتا ہوں، چلے گا؟‘

    ’ہاں، یہ چلے گا۔ آخر تم نے مجھ پر احسان کیا ہے، تمہاری اتنی بات تو ماننی پڑے گی۔ یہ سنتے ہی جی میاں پنجرے میں داخل ہوئے اور فوراً اندر سے زنجیر چڑھادی۔ اب شیر کی سمجھ میں جی میاں کی چالاکی آئی۔ وہ دہاڑنے لگا۔ جی میاں نے کہا، ’’شیر جی اب تم میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ اب میں اس پنجرے میں محفوظ ہوں۔“

    یہ دیکھ کر لومڑی بولی ارے میں تو سمجھتی تھی لومڑی ہی اس دنیا کا سب سے چالاک جانور ہے مگر اب پتہ چلا انسان سے کوئی نہیں جیت سکتا۔“

    شیر آگ بگولہ ہو کر بولا، بدمعاش لومڑی! تم ہی بیچ میں آکر کباب میں ہڈی بنی ہ، میں تیرا خون پی جاؤں گا۔ اور شیر اس پر جھپٹا مگر لومڑی پھرتی سے بچ نکلی اور شیر اس کے پیچھے ہولیا۔

    بہت دیر بعد سرکس والے آئے اور پنجرہ میں شیر کی جگہ ایک بونے کو بیٹھا ہوا دیکھ کر حیران ہوئے۔ ہنسے بھی اور افسوس بھی کرنے لگے کہ شیر ہاتھ سے نکل گیا۔

    ان میں سے ایک بولا شیر نہیں ملا تو کیا ہوا ہماری سرکس میں ایک بونے جوکر کی جگہ تو خالی ہے، چلو اسی کو اٹھا کر لے چلتے ہیں، ’بھاگتے بھوت کی لنگوٹی ہی سہی‘، شیر نہیں جوکر ہی سہی۔

    سب کو یہ خیال پسند آیا۔ پھر یہ ہوا کہ سرکس والے جی میاں کو اپنے ساتھ لے گئے۔ اور اس طرح جی میاں کو اچھی بھلی نوکری مل گئی اور سرکس کو ایک بونا جوکر، تنخواہ ملنے لگی، جی میاں خوش ہوئے، جس نئے شہر میں گئے مشہور ہوئے۔ اب وہ جہاں جاتے ہیں موج اڑاتے ہیں۔ کیا پتہ کسی دن آپ کے شہر میں بھی آدھمکیں اور آپ ان کی مزیدار حرکتیں دیکھ کر لوٹ پوٹ ہو جائیں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے