Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کام چور لڑکا

مختار احمد

کام چور لڑکا

مختار احمد

MORE BYمختار احمد

    نونی یوں تو بڑا اچھا بچہ تھا مگر اس میں ایک بات بہت بری تھی اور وہ بات یہ تھی کہ وہ ایک کام چور لڑکا تھا۔ اس سے اگر کسی کام کو کرنے کا کہا جاتا تو وہ صاف منع کر دیتا تھا۔

    اس کی امی باہر برآمدے میں بیٹھی سبزی کاٹ رہی ہوتیں اور اس سے کہتیں۔ ’’نونی بیٹے۔ ذرا باورچی خانے سے مجھے تھوڑے سے لہسن لا دو‘‘۔ تو وہ صاف منع کر دیتا۔ ’’میں نہیں لاؤں گا۔ آپ خود ہی لے لیں‘‘ اور اپنے کھیل میں ہی لگا رہتا۔

    جب اسے پیاس لگتی تو وہ بیٹھے بیٹھے آواز لگاتا۔ ’’امی۔ پیاس لگی ہے۔ پانی لا دیجیے‘‘۔

    اسکول کا کام وہ بہت مشکلوں سے کرتا تھا۔ امی کے بار بار کہنے پر کام ختم کر بھی لیتا تو کتابوں کو بستے میں نہیں رکھتا تھا۔ انھیں قالین پر ہی بکھرا چھوڑ دیتا۔ اس کی امی کی نظر جب ان پر پڑتی تو وہ انھیں اٹھا کر اس کے بستے میں رکھتیں۔

    چھٹی کے روز اس کے ابو ڈرائنگ روم میں بیٹھے ٹی وی دیکھ رہے ہوتے اور اخبار والا اخبار پھینک کر چلا جاتا تو وہ کہتے ’’نونی۔ شاباش۔ ذرا دوڑ کر اخبار تو اٹھا لے آؤ‘‘۔

    نونی جھٹ بہانہ بنا دیتا۔ ’’ابو۔ باہر موٹا بلا بیٹھا ہے۔ مجھے ڈر لگ رہا ہے‘‘۔ ابو بےچارے خود جا کر اخبار اٹھا کر لے آتے۔

    وہ اپنے اسکول کا کام بھی بہت نخروں سے کرتا تھا۔ اسے اسکول جانا اچھا نہیں لگتا تھا۔ اس کا دل چاہتا تھا کہ صبح دیر تک مزے سے سوتا رہے۔ لیکن ابو کی ڈانٹ کے ڈر سے اسے اٹھنا پڑتا تھا۔ اسکول پہنچ کر وہ اپنی ڈیسک بھی صاف نہیں کرتا تھا۔ پھونکیں مار کر اس پر لگی گرد صاف کرنے کی کوشش کرتا۔ اس کے سارے دوست اپنی ڈیسک میں رکھے ڈسٹر نکال کر اپنی اپنی ڈیسکیں صاف کر رہے ہوتے تھے۔ وہ سوچتا کہ اگر امی اسکول میں بھی ہوتیں تو مزہ آ جاتا۔ وہ ڈیسک بھی صاف کر دیا کرتیں۔

    اگر کہیں کام چوری کا مقابلہ ہو رہا ہوتا تو کوئی کام نہ کرنے کی وجہ سے نونی کو پہلا انعام مل سکتا تھا۔

    اب وہ چوتھی جماعت میں آ گیا تھا اور تقریباً آٹھ برس کا ہو گیا تھا۔ اتنا بڑا ہونے کے باوجود اس میں کوئی کام کرنے کی عادت پیدا نہیں ہوئی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نہ تو اسے جوتوں کے تسمے باندھنے آئے اور نہ پینٹ شرٹ کے بٹن لگانے۔ صبح اسکول جاتے ہوۓ وہ یونیفارم اور جوتے پہن کے بیٹھ تو جاتا تھا مگر بٹن لگانے اور تسمے باندھنے کے لیے اسے امی کا انتظار کرنا پڑتا تھا کیوں کہ وہ ناشتہ تیار کرنے میں مصروف ہوتی تھیں۔ اس کے ابّو آفس جانے کی تیاری کر رہے ہوتے تھے اس لیے وہ اس کی کوئی مدد نہیں کرتے تھے۔

    ایک روز صبح کے وقت اس کی امی نے کہا۔ ’’نونی بیٹے۔ دلیے کا پیالہ میز پر رکھ دو۔ میں توس سینک رہی ہوں‘‘۔

    نونی نے کہا۔ ’’امی میری پینٹ کا بٹن نہیں لگا ہے۔ اگر میں کرسی سے کھڑا ہوا تو وہ اتر جائےگی‘‘۔

    یہ سن کر اس کی امی بے چاری خاموش ہو گئیں۔ انھیں خود ہی دلیے کا پیالہ میز پر رکھنا پڑا۔

    اس کے کوئی کام نہ کرنے کی عادت پختہ سے پختہ ہوتی جا رہی تھی۔ اس کی امی بہت پریشان رہنے لگی تھیں۔ وہ سوچتی تھیں کہ اس بری عادت سے چھٹکارا نہ پایا تو نونی بڑا ہو کر کیا کرےگا۔ اس کے کام نہ کرنے کی عادت کی وجہ سے اسے بہت ساری دشواریوں کا سامنا کرنا پڑےگا۔ انہوں نے اس سلسلے میں ایک روز اس کے ابّو سے بھی بات کی۔ وہ تھوڑی دیر تو خاموشی سے کچھ سوچتے رہے پھر بولے۔ ’’بات تو فکر کی ہے۔ ہم کوشش کریں گے کہ اس کی اس عادت کو ختم کروائیں‘‘۔

    دفعہ اتوار کے روز نونی کی امی دوپہر کا کھانا پکانے میں مصروف تھیں۔ نونی اپنے ابو کے ساتھ بیٹھا ٹی وی پر کارٹون دیکھ رہا تھا۔ کارٹون کے دوران جب اشتہارات کا وقفہ آیا تو نونی نے اپنے ابو سے کہا۔ ’’ابو۔ مجھے کارٹون دیکھنا بہت اچھا لگتا ہے۔ میرا دل چاہتا ہے کہ میں ہر وقت کارٹون ہی دیکھتا رہوں‘‘۔

    اس کے ابو نے مسکراکر کہا۔ ’’کارٹون تو ہوتے ہی مزے دار ہیں۔ بچوں کے ساتھ ساتھ بڑوں کا بھی دل چاہتا ہے کہ ہر وقت انہیں دیکھتے رہیں۔ مگر یہ بات ممکن نہیں ہے۔ سب لوگ اگر ہر وقت ٹی وی کے آگے ہی بیٹھے رہیں گے تو پھر دوسرے کام کون کرےگا‘‘۔

    ’’ابو۔ یہ بات تو آپ نے ٹھیک کہی۔ اگر ہمارا دودھ والا، اخبار والا، خاکروب اور ہمارے گھر میں کام کرنے والی ماما یہ سب لوگ مزے سے بیٹھ کر کارٹون ہی دیکھتے رہیں تو پھر دودھ اور اخبار کون لائےگا۔ ہمارے گھر کا کچرا کون اٹھائےگا، ہمارے گھر کی صفائی اور کپڑوں کی دھلائی کون کرےگا‘‘۔ نونی نے کہا۔

    اس کی بات سن کر اس کے ابو بڑے پیار سے بولے۔ ’’ہمارے نونی نے تو بہت اچھی بات کی ہے۔ نونی تو بہت سمجھدار بچہ ہو گیا ہے‘‘۔

    ابو کے منہ سے اپنی تعریف سن کر نونی خوش ہو گیا۔ اس نے مزید کہا۔ ’’اور ابو اگر آپ بھی ہر وقت کارٹون ہی دیکھتے رہیں تو پھر آفس کیسے جائیں گے۔ آفس نہیں جائیں گے تو آفس والے پیسے بھی نہیں دیں گے۔ اگر پیسے نہیں ملے تو ہمارے گھر کا خرچہ کیسے چلےگا‘‘۔

    ’’بالکل‘‘ اس کے ابّو نے سر ہلا کر کہا۔ ’’اگر تم غور کرو تو دنیا کے بہت سارے انسان ہمارے لیے کسی نہ کسی کام میں مصروف رہتے ہیں۔ کوئی ہمارے لئے کپڑے بنا رہا ہے تو کوئی جوتے، کوئی ہمارے اسکول کی کاپیاں کتابیں پرنٹ کر رہا، کوئی ان کاپیوں کتابوں کو رکھنے کے لیے بستے تیار کر رہا ہے اور کوئی بچوں کے کھیلنے کے لیے طرح طرح کے کھلونے بنا رہا ہے۔ کسان ہمارے لیے اناج اور سبزیاں اگاتے ہیں۔ مزدور ہمارے رہنے کے لیے گھر بناتے ہیں۔ غرض کہ اس طرح کے کاموں کی اتنی مثالیں ہیں کہ ہم انھیں گنتے گنتے تھک جائیں اور وہ ختم نہ ہوں۔ جو لوگ ہمارے لیے اتنے بہت سے کام کر رہے ہیں ہمیں ان کا احسان مند ہونا چاہیے‘‘۔

    ابو کی بات سن کر نونی سوچ میں پڑ گیا تھا۔ اس نے کہا ’’اور ابو۔ امی بھی صبح سے رات تک گھر کے کاموں میں لگی رہتی ہیں۔ ان کی وجہ سے ہمیں تمام چیزیں ریڈی ملتی ہیں۔ ان کی تو اگر طبیعت بھی خراب ہو تب بھی وہ کاموں میں مصروف رہتی ہیں تاکہ ہمیں کوئی تکلیف نہ ہو‘‘۔

    ’’یہ تو ہے۔ ماشااللہ تمہاری امی بہت ہمت والی ہیں۔ ایسی ہی ہمت والی تمام بچوں کی مائیں ہوتی ہیں۔ انھیں گھر کے بہت سے کام کرنا پڑتے ہیں۔ اچھا اب تم مجھے یہ بتاؤ کہ ہم نے جو یہ تمام باتیں کی ہیں ان سے ہمیں کیا سبق ملا ہے؟‘‘

    نونی نے تھوڑا شرماتے ہوۓ کہا۔ ’’جب اتنے سارے لوگ ہمارے کاموں میں مصروف ہیں تو ہمیں بھی چاہیے کہ ہم بھی کام کیا کریں تاکہ جیسے ان کے کاموں سے ہمیں فائدہ پہنچتا ہے ہمارے کاموں سے انھیں بھی پہنچے‘‘۔

    ’’شاباش‘‘۔ اس کے ابّو نے خوش ہو کر کہا۔ ’’بچے تو چھوٹے ہوتے ہیں۔ وہ بڑے بڑے کام تو کر نہیں سکتے۔ لیکن یہ ضرور کر سکتے ہیں کہ گھر کے کاموں میں اپنی امی اور بھائی بہنوں کی تھوڑی بہت مدد کریں۔ خود یونیفارم اور جوتے وغیرہ پہن لیں۔ اپنے بستوں میں خود ہی کاپیاں کتابیں اور دوسری چیزیں سنبھال کر رکھ لیں۔ اپنے جوتوں پر پالش کرلیں۔ پیاس لگے تو خود ہی اٹھ کر پانی پی لیں۔ اسکول سے آکر یونیفارم کو ہینگروں میں ٹانگ کر احتیاط سے الماری میں رکھ دیں۔ کھانا کھانے کے بعد برتنوں کو کچن میں لے جاکر رکھ دیں۔ اس کے علاوہ ایسے ہی دوسرے چھوٹے موٹے کام جو وہ بڑی آسانی سے کر سکتے ہیں، انھیں کریں۔ انھیں اگر بچپن سے ہی چھوٹے چھوٹے کام کرنے کی عادت ہوگی تو وہ بڑے ہو کر بڑے بڑے کام بھی کر سکیں گے۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ایک اچھا اور ذمہ دار انسان ہر وقت کسی نہ کسی کام میں مصروف رہتا ہے‘‘۔

    ابو کی باتوں کا نونی کے دل پر بہت اثر ہوا تھا۔ اتنے میں اس کی امی کی آواز آئ۔ ’’کھانا تیار ہو گیا ہے۔ آپ لوگ ہاتھ دھو کر ٹیبل پر پہنچ جائیں‘‘۔

    ان کی بات سن کر نونی جھٹ کچن میں پہنچا۔ اپنے ہاتھ دھوئے۔ اس کی امی خالی پلیٹیں اور چمچے ٹیبل پر رکھنے جارہی تھیں۔ نونی نے کہا۔ ’’امی۔ آپ کھانا نکالئے۔ یہ چیزیں میں ٹیبل پر رکھوں گا‘‘۔

    اس کی بات سن کر اس کی امی حیرت زدہ رہ گئیں۔ نونی نے ان کے ہاتھوں سے پلیٹیں اور چمچے لیے اور انھیں ٹیبل پر رکھ آیا۔ اس کی امی جب سالن کا ڈونگہ لے کر وہاں پہنچیں تو وہ دوڑ کر گلاسوں کا اسٹینڈ اور فرج میں سے پانی کی ٹھنڈی بوتل لے آیا اور انھیں میز پر رکھ دیا۔

    یہ سب دیکھ کر نونی کے ابو بیٹھے مسکرا رہے تھے۔ نونی کی امی نے اس کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوۓ کہا۔ ’’نونی۔ مجھے تو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا۔ یہ میں کیا دیکھ رہی ہوں‘‘۔

    ’’امی۔ ابو نے مجھے بتایا ہے کہ دنیا کے بہت سارے لوگ ہمارے لیے ہر وقت کسی نہ کسی کام میں مصروف رہتے ہیں اور ہماری سہولت کے لیے مختلف چیزیں بناتے رہتے ہیں۔ ان ہی کی وجہ سے ہمارے گھر میں طرح طرح کی چیزیں ہیں جن سے ہم آرام اٹھاتے ہیں۔ کام کرنا بہت اچھی بات ہے۔ ہمارے کاموں کی وجہ سے دوسروں کو آرام ملتا ہے۔ آج کی بعد میں بھی کام کیا کروں گا۔ یہ میری غلطی تھی کہ پہلے میں کچھ بھی نہیں کرتا تھا اور اپنے سارے کام آپ سے کرواتا تھا‘‘۔

    ’’نونی بیٹا۔ میں خوش ہوں کہ تمہیں اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے اور تم کام کی اہمیت سے واقف ہو گئے ہو۔ ابھی تو تم چھوٹے ہو، بڑے ہوکر تمہیں کام کی اہمیت کا مزیداندازہ ہوگا۔ ہمیں یہ بات ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارے کام کرنے سے نہ صرف ہمیں بلکہ دوسرے لوگوں کو بھی فائدہ پہنچتا ہے۔ اپنے کسی عمل سے دوسروں کو فائدہ پہنچانا نیکی کا کام ہے‘‘۔

    ’’اب آپ کو مجھ سے کسی کام کا کہنا نہیں پڑا کرےگا۔ میں خود سے ہی سارے کام کیا کروں گا‘‘۔ نونی نے کہا۔ اس کی بات سن کر اس کی امی کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے