Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کمسن شہید ۔ نانی گوپال

بانو سرتاج

کمسن شہید ۔ نانی گوپال

بانو سرتاج

MORE BYبانو سرتاج

    کالا پانی انڈمان میں ایک جزیرہ تھا جو خوفناک ماحول، زہریلی ہواؤں اور ان سے ہونے والے امراض کی وجہ سے کالا پانی کہلاتا تھا۔ وہاں جنگ آزادی کے وہ مجاہدین بھیجے جاتے تھے جو آزادی حاصل کرنے کی کوششوں کے دوران زندہ گرفتار کر لیے جاتے تھے۔ بعد میں خطرناک مجرموں کو بھی وہاں بھیجا جانے لگا۔ وہاں جو قیدی رکھے جاتے ان میں سے بہت کم زندہ واپس آتے تھے۔

    نانی گوپال بنگال کا تھا۔ اس سولہ سالہ مجاہد آزادی نے ایک ظالم انگریز افسرپر بم پھینکا تھا اور اس جرم کی پاداش میں اسے کالا پانی بھیج دیا گیا تھا۔

    ظلم کے خلاف آواز اٹھانا، غلط باتوں کو تسلیم نہ کرنا اس کی سرشت میں داخل تھا، اسے جتنی سزا دی جاتی، جتنی زیادہ سختی کی جاتی وہ اتنا زیادہ سرکش ہو جاتا۔

    نانی گوپال نے افسروں کا ناطقہ بند کر رکھا تھا۔ کالا پانی میں مجرموں کو عموماً کولہو چلانے کی سزا نہیں دی جاتی تھی، مگر نانی گوپال کو یہ سزا دی گئی تو اس نے جیل کے قانون کا حوالہ دے کر اس سزا کو ماننے سے انکار کر دیا۔

    قیدیوں نے ایک مرتبہ ہڑتال کی۔ نانی گوپال عمر میں سب سے چھوٹا تھا، مگر وہ ہڑتالیوں کی قیادت کر رہا تھا تو اس پر یہ الزام لگایا گیا کہ بڑی عمر کے قیدیوں میں رہ کر وہ بگڑ رہا ہے، زیادہ سرکش ہو رہا ہے اور اسے دوسروں سے الگ کر دیا گیا۔ نانی گوپال کے غصہ کی انتہا نہ رہی، اس نے اعلان کر دیا، ’’جب تک یہ فیصلہ تبدیل نہیں کیا جائےگا میں بیٹھوں گا نہیں، کھڑا ہی رہوں گا۔‘‘

    وہ اپنے فیصلہ پر قائم رہا تواسے زبردستی بٹھایا گیا اور کڑی سزا دی گئی۔ کڑی سزا پر احتجاجاًنانی گوپال نے کپڑے بدلنا بند کر دیئے۔ جب بہت زیادہ گندے ہو جانے پر بھی اس نے کپڑے نہ بدلے تو اسے زمین پر پٹخ کر سپاہیوں نے اس کے کپڑے اتارے اور ٹاٹ کا کپڑا اس کے جسم پر لپیٹ کر سلائی کر دی گئی۔ موقع ملتے ہی نانی گوپال نے ٹاٹ کا لباس نوچ کر پھینک دیا۔ اس کے بعد وہ برہنہ ہی رہنے لگا۔

    برہنہ رہنے کی نازیبا حرکت پر اس کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں اور پاؤں میں بیٹریاں ڈال دی گئی۔ آزادی کے اس دیوانے نے تمام رات گھس گھس کر بیڑیاں ہتھکڑیاں کاٹ ڈالیں اور پھینک دیں۔

    یہ تو حد ہو گئی تھی۔ نانی گوپال کی اس جسارت پر پٹھان پہرہ داروں نے اسے گالیاں دیں تو نانی گوپال نے بات کرنا بند کر دیا، معائنہ کے لئے آئے افسران کو تعظیم دینا بند کر دیا۔ افسران نے حکم دیا، ’’اسے زیادہ وقت کوٹھری میں بند رکھا جائے۔‘‘

    کوٹھری میں بند رکھے جانے پر جب نانی گوپال کو کوٹھری سے باہر آنے کو کہا جاتا تب بھی وہ باہر نہ آتا۔ جب کئی روز ہو گئے، اس کے جسم پر میل کی تہیں جم گئیں تو جیل کے صفائی ملازمین نے پکڑ کر اسے پانی کے حوض میں ڈال دیا۔ ناریل کے ریشوں سے گھس کر اس کا جسم صاف کیا۔ نانی گوپال کے تمام جسم پر زخم ہو گئے۔ اسی حالت میں اسے کوٹھری کے فرش پر ڈال دیا گیا۔

    کالا پانی جیل میں ہر قیدی کو دو کمبل دیے جاتے تھے۔ سزا کے طور پر نانی گوپال کا ایک کمبل پہلے ہی لے لیا گیا تھا۔ اس واقعہ کے بعد اس کا دوسرا کمبل بھی لے لیا گیا۔ انڈمان کی بھیانک سردی میں وہ سکڑتا رہا، سردی کھاتا رہا۔ اتنا سب ہونے کے بعد بھی ہندوستان کے اس سپوت نے انگریز سرکار سے معافی نہیں مانگی۔

    نانی گوپال نے مانگ کی کہ کالا پانی میں مجاہدین آزادی کو چوروں، ڈاکوؤں سے الگ رکھا جائے، انہیں الگ کیٹگری کا مانا جائے اور ان سے بہتر سلوک کیا جائے۔ اعلیٰ افسران گفتگو کرنے آئے۔ نانی گوپال نے پر زور الفاظ میں اپنی مانگ دہرائی۔ انگریز افسر کمسن لڑکے کی اس مانگ پر حیرت زدہ ہوئے، مگر اسے ماننے سے انکار کر دیا۔ کمشنر نے صاف کہہ دیا:

    ’’تم سب مجاہدین آزادی مر بھی گئے تو برٹش حکومت کو کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔‘‘

    انہوں نے حتمی فیصلہ دے دیا کہ مجاہدین آزادی کے لئے الگ قوانین نہیں بنیں گے۔ نانی گوپال نے مانگ پوری نہ ہونے پر احتجاجی رخ اپنایا۔ اس نے قصداً جیل کے افسران کی بےعزتی کرنی شروع کر دی۔ جیلر باری اپنی بےعزتی سے اتنا غضبناک ہوا کہ اس نے نانی گوپال کو بید مارنے کی سزا سنا دی۔

    اس وقت ویر ساورکرجی بھی کالا پانی کی سزا بھگت رہے تھے، انہوں نے جیلر باری سے کہا۔’’وہ بچہ ہے، اگر آپ نے اسے بیدمارنے کی سزادی تو تمام مجاہدین قیدی مل کر ایسا آندولن کریں گے جس پر آپ قابو نہیں پا سکیں گے۔ اس خیال سے باز آئیے۔‘‘

    جیلر نے حکم واپس لے لیا۔

    فیصلہ واپس لیے جانے پر ساورکر جی اور دوسرے مجاہدین کو خوشی ہوئی، مگر نانی گوپال کو خوشی نہیں ہوئی بلکہ وہ مایوس ہوا کیونکہ وہ مادر وطن کے دامن پر اپنے خون سے بار بار آزادی لکھنا چاہتا تھا۔

    نانی گوپال کو پھر دوسری بیرک میں منتقل کیا گیا تو اس نے بھوک ہڑتال شروع کر دی۔ اس کی بھوک ہڑتال ختم کرانے کی کئی کوششیں کی گئیں، مگر نانی گوپال نے کسی کی بات نہیں مانی۔ ساورکرجی نے سمجھایا تب بھی نہیں مانا۔ آخر انہوں نے کہا:

    ’’تم نہیں مانتے میری بات! چلو میں بھی تمہارے ساتھ بھوک ہڑتال کرتا ہوں۔‘‘

    ’’نہیں نہیں!‘‘ نانی گوپال طفلانہ معصومیت سے بولا: ’’آپ کیوں کریں گے بھوک ہڑتال؟‘‘

    ’’تم کیوں کر رہے ہو؟‘‘ ساورکر جی نے پوچھا۔

    ’’میں اپنے ہم وطنوں کو انگریزوں کے ظلم سے آزاد کرانا چاہتا ہوں، میں اپنے ساتھیوں کو ان کا بے خوف بچپن لوٹانا چاہتا ہوں۔‘‘ نانی گوپال نے سینہ تان کر کہا۔

    ’’بیٹے تمہارا جو مقصد ہے وہی میرا بھی مقصد ہے، مگر میں بار بار مرنے سے ایک دفعہ مرنا پسند کرتا ہوں۔ تم بھی جھوٹے چھوٹے احتجاج کرنے کے بجائے ایک ہی مرتبہ شیر جیسا کوئی قدم اٹھاؤ۔‘‘

    نانی گوپال نے بھوک ہڑتال ختم کر دی۔

    ایک روز کھانے کے دوران نانی گوپال کا صبر جواب دے گیا۔

    کھانا سب قیدی ساتھ کھاتے تھے۔ جیلر اور سپاہی گشت کرتے رہتے۔ اچانک اس دن نانی گوپال نے انگریزی میں زور زور سے انگریزی حکومت کو گالیاں دینی شروع کر دیں۔ جیلر آپا کھو بیٹھا۔ اس نے نانی گوپال پر گولی چلا دی۔

    16برس کا نانی گوپال انگریزوں کی حکومت، ان کے مظالم کے خلاف آواز اٹھاتے اٹھاتے یکایک خاموش ہو گیا۔

    حقیقت دراصل یہ تھی کہ نوعمر نانی گوپال ملک کے لئے جو کچھ کرنا چاہتا تھا وہ اسے کرنے نہیں دیا گیا، اسے کالا پانی بھیج کر اس کے خوابوں کو چکنا چور کر دیا گیا۔ وہ گھٹ گھٹ کر جی رہا تھا، آخر موت سے ہمکنار ہو گیا۔

    مہاراشٹر کے مقبول لیڈر ساورکرجی کو ان کی سرگرمیوں کی سزا کے طور پر 1911 میں کالا پانی بھیجا گیا تھا۔ انہوں نے مجبوری میں اس جہنم کو قبول کیا۔ مراٹھی میں اعلیٰ درجہ کا ادب تخلیق کیا۔ کالا پانی جیل میں اپنی خود نوشت ’ماجھی جنم ٹھیپ‘ (میری عمر قید) لکھی جس میں معصوم شہید نانی گوپال کا تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے