Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کووں کا اسکول

صاحب علی

کووں کا اسکول

صاحب علی

MORE BYصاحب علی

    ایک تھا لیموں کا پیڑ۔ ایک تھا آم کا درخت۔ لیموں کے پیڑ پر کوے کا گھونسلا تھا۔ آم کے درخت پر کویل کا گھونسلا تھا۔ لیموں کے پیڑ کی شاخ پر بیٹھ کر کوا چلاتا، ’’کائیں کائیں‘‘ آم کی ڈال پر بیٹھ کر کویل گاتی، ’’کوکو۔‘‘رنگ سے دونوں ہی کالے تھے لیکن کہاں کویل اور کہاں کوا!

    بہار کا موسم آیا۔ کویل نے اپنے گھونسلے میں انڈا دیا۔ کوے کی مادہ نے بھی اپنے گھونسلے میں انڈے دیے۔ کوا دن بھر باہر پھرنے کے لئے جاتا۔ اس کی بیوی گوانسلے میں بیٹھی رہتی اور انڈوں کی رکھوالی کرتی۔

    کویل نے دل ہی دل میں کہا، ’’کتنے سہانے دن ہیں۔ باہر چمکدار دھوپ نکلی ہوئی ہے۔ پیڑ میں نئے پتے نکل آئے ہیں۔ آم کے درخت پر خوب سارے بور لگ گئے ہیں۔ ایسے میں گھر میں بیٹھ کر کیا کروں؟ یہاں وہاں گھومنا چاہئے۔ اڑنا چاہئے، ناچنا چاہئے اور گانا چاہئے۔ پر گھونسلے کے اس انڈے کا کیا کروں؟‘‘

    کویل کو ایک ترکیب سوجھی۔ کیوں نہ اپنا انڈا کوے کے گھونسلے میں رکھ دیا جائے۔ کوے کی بیوی تو دن بھر گھونسلے ہی میں بیٹھی رہتی ہے۔ اسے کوئی عیش نہیں کرنا ہے۔ کوے کی بیوی کی نظر بچاکر کویل چپکے سے اپنا انڈا اس کے گھونسلے میں ڈال آئی۔

    کوے کی بیوی بےچاری بھولی بھالی تھی۔ اسے انڈے گننا کہاں آتا تھا۔ ایک انڈا زیادہ ہو گیا تو بھی اسے پتا نہ چلا۔

    کچھ دنوں بعد انڈے سے بچے نکل آئے۔ کوے کی بیوی کو بہت خوشی ہوئی اس نے کہا، ’’کائیں کائیں کائیں‘‘ کتنے پیارے بچے ہیں۔ کالے کالے گہرے کالے۔ کوا اور اس کی بیوی دانے لاتے، اپنی چونچ سے بچوں کو دانے کھلاتے۔ ان کے ساتھ کھیلتے اور ان کا خوب لاڈ کرتے۔

    کوے نے بچوں کو چلنا سکھایا۔ پھر کوے نے کہا، ’’چلو اب ہم بچوں کو بولنا سکھائیں۔‘‘ لیموں کے پیڑ پر کوے نے اپنا اسکول کھولا۔ اسکول کی گھنٹی بجی، ’’کائیں کائیں کائیں۔‘‘

    کوے نے کہا، ’’بولو کائیں، کائیں کائیں۔‘‘

    سب بچوں نے کہا، ’’کائیں کائیں کائیں‘‘ لیکن ایک بچے نے کہا، ’’کو، کو، کو۔‘‘

    کوے نے کہا، ’’پھر سے بولو۔‘‘

    سارے بچوں نے کہا، ’’کائیں کائیں کائیں‘‘ لیکن ایک بچے نے کہا، ’’کو، کو، کو۔‘‘ کوے نے اسے چونچ مار کر کہا، ’’ٹھیک سے بولو، کائیں، کائیں، کائیں‘‘ پر اس بچے کو بولنا آتا ہی نہ تھا۔

    کوے کا سر پھر گیا۔ اس نے کہا، ’’یہ بچہ بالکل بدھو ہے، اسے کچھ نہیں آنے کا۔‘‘ کچھ دنوں کے بعد سارے بچوں کے پنکھ نکل آئے اور انہیں اڑنا آنے لگا۔

    ایک دن آم کی ڈال پر بیٹھ کر کویل گانے لگی، ’’کو، کو، کو، کو۔‘‘

    اس کے ساتھ ہی کوے کے گھونسلے سے ایک بچہ اڑا اور کو کو کو، چلاتے ہوئے کویل کے گھونسلے کی طرف چلا گیا۔

    کوے نے اپنی بیوی سے کہا، ’’ارے ارے ارے، یہ تو کویل کا بچہ ہے۔ مفت ہی ہم نے اپنے گھونسلے میں اس کی پرورش کی۔‘‘

    لیکن اب رونے سے کیا حاصل!

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے