Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

خزانے کی چوری

مختار احمد

خزانے کی چوری

مختار احمد

MORE BYمختار احمد

    بہت پرانے زمانے کی بات ہے، کسی ملک میں دولت آباد نامی ایک شہر تھا۔ اس شہر میں حامد نام کا ایک لڑکا رہتا تھا۔ اس کے ماں باپ بہت غریب تھے۔ اس کے باپ نے اس کو ایک نانبائی کی دکان پر چھوٹے موٹے کام کرنے کے لیے رکھوا دیا تھا تاکہ گھر کے اخراجات چلانے میں کچھ آسانی ہو جائے۔

    دکان کا مالک بشارت نامی ایک نوجوان لڑکا تھا اور بہت نیک دل تھا۔ وہ حامد کو بالکل اپنے چھوٹے بھائی کی طرح سمجھتا تھا اور ہر طرح سے اس کا خیال رکھتا تھا۔ بشارت نے اپنی محنت اور ایمانداری کی بدولت کافی شہرت حاصل کرلی تھی اور اس کی دکان خوب چلتی تھی۔ رات کو جب دکان بند ہوتی تھی تو وہ حامد کو بچے ہوئے کلچے، تافتان اور شیر مال بھی دے دیا کرتا تھا جنہیں حامد گھر لے جاتا اور سب گھر والے رات کا کھانا پیٹ بھر کر کھاتے تھے۔ اس کی ماں اگر کسی وجہ سے سالن نہیں پکا پاتی تھی تو وہ لوگ تافتان اور شیر مال دودھ میں بھگو بھگو کر کھا لیا کرتے تھے۔ حامد کو بشارت نانبائی کی دکان سے جو پیسے ملتے تھے ان پیسوں کو وہ باپ کو دے دیتا تھا۔ ان کو جمع کر کرکے اس کا باپ ایک بکری بھی خرید لایا تھا جس سے انھیں دودھ کی بھی آسانی ہو گئی تھی۔

    ایک روز کا ذکر ہے کہ نانبائی بشارت کو گھر پر کوئی کام پڑ گیا۔ اس نے حامد کو جلدی چھٹی دے دی اور خود گھر چلا گیا۔ چھٹی ملنے پر حامد بہت خوش تھا۔ اس نے سوچا کہ آج وہ سارا دن گھومے پھرےگا۔ وہ بازار کی طرف نکل گیا۔ نانبائی بشارت نے گھر جاتے ہوئے اسے چند سکے بھی دے دئیے تھے اور کہا تھا کہ بازار سے کوئی چیز لے کر کھا لینا۔ حامد کو جلیبیاں بہت پسند تھیں۔ اس کو اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں سے بہت محبت تھی۔ اس نے سوچا کہ وہ گرم گرم جلیبیاں خرید کر گھر لے جائےگا اور سب گھر والوں کے ساتھ کھائےگا۔

    وہ بازار پہنچا تو وہاں بڑی گہماگہمی تھی۔ دوکانوں پر لوگوں کا رش تھا، ایک طرف بہت سے مزدور ایک قطار میں بیٹھے اس انتظار میں تھے کہ کوئی انھیں مزدوری کروانے کے لیے ساتھ لے جائےگا۔ دودھ والے کی دکان پر بیٹھے لوگ بڑے بڑے پیالوں میں دودھ پی رہے تھے۔ وہ ایک جلیبی کی دکان پر جا کر کھڑا ہو گیا۔ جلیبی والا بڑے سے تیل کے کڑھاؤ میں جلیبیاں بنا رہا تھا اور انھیں شیرے کے ٹب میں ڈالتا جا رہا تھا۔

    حامد نے سکے نکالنے کے لیے ابھی جیب میں ہاتھ ڈالا ہی تھا کہ اس نے ایک عجیب منظر دیکھا، ایک بڑی سی دو گھوڑوں والی بگھی وہاں سے کچھ دور آ کر رکی، اس میں سے ایک بڑی بڑی مونچھوں والا آدمی اترا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس نے وہاں پر کھڑے ہوئے آٹھ دس سال کے ایک بچے کو اٹھاکر بگھی میں ڈالا اور بگھی چل پڑی۔

    یہ سب کچھ اتنی جلدی ہوا کہ نہ تو وہ اس بچے کی شکل دیکھ سکا اور نہ ہی یہ سمجھ سکا کہ ہوا کیا ہے۔ تھوڑی دیر بعد اس کی سمجھ میں یہ آیا کہ بگھی میں بیٹھا ہوا بدمعاش کسی بچے کو اغوا کر کے لے گیا ہے۔ حامد نے فوراً ہی اس بگھی کے پیچھے دوڑ لگا دی، بازار کے لوگ بھی اس واقعہ پر ہکا بکا تھے اور انہوں نے چیخنا چلانا شروع کر دیا تھا۔ بگھی میں دو تازہ دم گھوڑے جتے ہوئے تھے، حامد چودہ پندرہ سال کا ایک دبلا پتلا سا لڑکا تھا، وہ اپنی پوری قوت سے بگھی کے پیچھے دوڑا تھا مگر دیکھتے ہی دیکھتے وہ پراسرار بگھی نظروں سے اوجھل ہو گئی۔

    حامد مایوس نہیں ہوا تھا۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ اس بچے کو بدمعاش لوگ تاوان کے لیے پکڑ کر لے گئے ہونگے۔ اس نے دل میں تہیہ کر لیا کہ ان کے ارادوں کو خاک میں ملا دےگا۔ وہ ایک بہادر اور عقلمند لڑکا تھا۔ زمین کچی اور ریتیلی تھی۔ وہ بگھی کے پہیوں کے نشان دیکھتے ہوئے آگے بڑھنے لگا۔ وہ چلتا گیا چلتا گیا مگر ایک جگہ اس کو رکنا پڑ گیا۔ آگے سمندر تھا اور یہاں آکر بگھی کے پہیوں کے نشان غائب ہو گئے تھے۔ حامد کو بہت مایوسی ہوئی اور وہ ناکام و نامراد واپس لوٹ گیا۔

    اس کا دل اس واقعہ سے بہت افسردہ ہو گیا تھا۔ وہ بدمعاش نہ جانے کس کی ماں کے لخت جگر کو اغوا کرکے لے گئے تھے۔ جلیبیوں کا خیال چھوڑ کر وہ سیدھا گھر پہنچا تاکہ ماں کو اس واقعہ کے بارے میں بتائے۔ جیسے ہی وہ اپنی گلی میں داخل ہوا، اس کو عبدل کے گھر کے سامنے لوگوں کا جھمگٹا نظر آیا۔ وہ ایک ماہر تعمیراتی کاریگر تھا اور بڑے بڑے وزیروں اور امرا کے محل تعمیر کرتا تھا۔ بادشاہ کا نیا محل بھی اس نے ہی بنایا تھا۔ پوچھ گچھ کرنے پر پتہ چلا کہ بازار سے اس کا چھوٹا بیٹا وہ بدمعاش اغوا کرکے لے گیا ہے۔ عبدل اور اس کی بیوی اس واقعہ سے سخت پریشان تھے، اس کی بیوی کو غش پر غش آ رہے تھے اور پاس پڑوس والے ان کو تسلی دے رہے تھے۔

    حامد افسردہ دل کے ساتھ گھر چلا آیا۔ گھر آ کر اس نے ساری کہانی ماں کو سنائی۔ ماں سیدھی سادھی تھی، گھبرا کر بولی ’’حامد تجھے ان بدمعاشوں کے پیچھے نہیں جانا چاہیے تھا۔ اگر وہ کچھ نقصان پہنچا دیتے تو کیا ہوتا؟‘‘

    حامد نے کہا ’’ماں۔ فائدہ اور نقصان تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ آپ ہی نے تو کہا تھا کہ کسی کو مصیبت میں دیکھ کر اس کی مدد کرنی چاہیے۔ میں نے بھی اس بچے کی مدد کرنا چاہی تھی‘‘۔ اس کی ماں خاموش ہو گئی۔ ویسے وہ ابھی تک فکرمند تھی۔ رات کو اس کی ماں نے اسے کسی کام سے بازار بھیجا۔ وہ ابھی راستے میں ہی تھا کہ کیا دیکھتا ہے وہ ہی بگھی جس میں عبدل کے بیٹے کو اغوا کیا گیا تھا ایک کھلے میدان میں آ کر رکی۔ حامد جلدی سے ایک درخت کے پیچھے چھپ گیا۔ اس بگھی سے ایک آدمی اترا اور ادھر ادھر دیکھتا ہوا عبدل کے گھر کی جانب بڑھنے لگا۔

    حامد بھی بڑی احتیاط سے اس کے پیچھے چل پڑا۔ رات زیادہ ہو گئی تھی، سب لوگ اپنے اپنے گھروں میں موجود تھے۔ گلی محلے سنسان پڑے ہوئے تھے۔ عبدل نے اس واقعہ کے فوراً بعد کوتوالی جا کر اپنے بیٹے کے متعلق رپٹ لکھوا دی تھی اور شہر کے کوتوال نے اس کو تسلی دی تھی کہ وہ جلد ہی اس کے بیٹے کو ڈھونڈ نکا لیں گے۔ کوتوال نے اپنے بہت سے سپاہیوں کو اس کام پر لگا دیا تھا۔ اسے خدشہ تھا کہ اگر بچہ نہ ملا تو عبدل بادشاہ سے فریاد کرےگا۔ بادشاہ اس کو بہت اچھی طرح جانتا تھا کیوں کہ اس کا نیا اور خوبصورت محل عبدل کی نگرانی میں ہی بنا تھا، اس وجہ سے کوتوال کو خطرہ تھا کا بادشاہ اس سلسلے میں اس سے باز پرس کرےگا۔

    وہ پراسرار آدمی عبدل کے گھر کے پاس رکا۔ حامد بھی اس کے بہت قریب پہنچ کر ایک دیوار کی اوٹ میں کھڑا ہو گیا اور تھوڑا سا سر نکال کر اس کو دیکھنے لگا۔ اس آدمی نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے دروازے پر ایک ہلکی سی دستک دی۔ دروازہ کھولنے والا عبدل تھا۔ وہ یہ سمجھا تھا کہ شائد اس کا بیٹا مل گیا ہے اور کوتوال اس کو اپنے ساتھ لایا ہے۔ اس نے جب دروازہ کھولا تو اس آدمی خوفناک شکل دیکھ کر خوفزدہ ہو گیا۔

    اس آدمی نے اپنی سخت آواز میں کہا ’’تمہارا بیٹا ہمارے پاس قید ہے۔ تم نے بادشاہ کا محل بنایا تھا۔ تم اگر اپنے بیٹے کی زندگی چاہتے ہو تو بادشاہ کے محل کا نقشہ ہمارے حوالے کر دو۔ یہ بات یاد رکھنا کہ تم اس بات کا تذکرہ کسی سے نہیں کروگے ورنہ ہم تمہارے بیٹے کو زندہ نہیں چھوڑیں گے‘‘۔

    اس آدمی کی بات سن کر عبدل کے چہرے سے خوف کے آثار دور ہو گئے۔ اس نے سخت لہجے میں کہا ’’بادشاہ سلامت کے محل کے نقشے کو لے کر تم ضرور ان کو کوئی نقصان پہنچانا چاہتے ہو۔ پوری رعایا بادشاہ سلامت کی وفادار ہے، میں بھی ان کا وفادار ہوں۔ تم کچھ بھی کر لو۔ میں بادشاہ سلامت سے غداری نہیں کر سکتا‘‘۔

    اس کی بات سن کر وہ آدمی طیش میں آ گیا۔ اس نے لات مار کر دروازے پر رکھا گملا توڑ دیا اور خونخوار لہجے میں بولا ’’میں کل اسی وقت پھر آؤں گا۔ اچھی طرح سوچ لینا، بادشاہ کی وفاداری چاہتے ہو یا اپنے بیٹے کی زندگی۔ تم ہمیں جانتے نہیں ہو ہم بہت خطرناک لوگ ہیں‘‘۔

    حامد نے یہ تمام باتیں سن لی تھیں۔ اس نے جب یہ سنا کہ یہ شخص بادشاہ سلامت کو نقصان پہنچانے کا سوچ رہا ہے تو حامد کو بھی بہت غصہ آیا۔ اس نے تہیہ کر لیا کہ وہ ان لوگوں کے عزائم خاک میں ملانے کی پوری کوشش کرےگا۔ وہ بجلی کی سی تیزی سے اپنی جگہ سے اٹھا اور دبے قدموں دوڑتا ہوا بگھی کے پاس آیا۔ بگھی کے پیچھے والے حصے میں سامان رکھنے کے لیے لکڑی کا ایک چھوٹا سا کیبن بنا ہوا تھا، اس نے جلدی سے اس کا دروازہ کھولا اور اندر جھانکا۔ وہ کافی کشادہ تھا اور خالی تھا۔ حامد جلدی سے اس میں بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ آدمی بھی واپس آ گیا اور بگھی چل پڑی۔

    بگھی کے اس کیبن کی دیوار میں ایک دو جگہ چھوٹے چھوٹے سوراخ تھے۔ حامد ان سوراخوں میں سے باہر جھانکنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد بگھی سمندر کے کنارے پہنچ گئی۔ حامد کو ایک بہت بڑا پانی کا جہاز نظر آیا۔ بگھی نزدیک پہنچی تو جہاز سے ایک تختہ کھول کر کنارے سے لگا دیا گیا۔ بگھی اس پر سے ہوتی ہوئی جہاز کے عرشے پر پہنچ گئی۔ اب حامد کی سمجھ میں یہ بات بھی آ گئی کہ بگھی میں دو گھوڑے کیوں جوتے گئے تھے، ایک اکیلا گھوڑا اس ڈھلوان لکڑی کے تختے سے اوپر نہیں چڑھ سکتا تھا۔ حامد کو کیبن کی دیواروں کے سوراخوں سے جہاز کے عرشے پر تلواروں سے مسلح بہت سارے افراد نظر آئے۔ یہ سوچ کر اس کے رونگٹے خوف سے کھڑے ہوگئے کہ وہ بحری ڈاکوؤں کے جہاز پر پہنچ گیا ہے۔

    بگھی عرشے پر پہنچی تو اس میں بیٹھا ہوا آدمی نیچے اتر گیا۔ دو آدمی گھوڑوں کو کھولنے لگے اور پھر بگھی کو ایک کونے میں کھڑا کر دیا گیا۔ حامد اس انتظار میں تھا کہ ڈاکو کھانے پینے سے فارغ ہوکر سوئیں تو وہ اس کیبن سے نکل کر عبدل کے لڑکے کو تلاش کرے۔

    آدھی رات کے وقت سب لوگ سونے کے لیے چلے گئے۔ بحری جہاز بیچ سمندر میں کھڑا تھا۔ حامد کو بھوک بھی ستانے لگی تھی۔ جب ہر طرف خاموشی چھا گئی تو وہ خاموشی سے کیبن سے نکلا۔ اس کے دائیں طرف باورچی خانہ تھا اور ایک طشت میں خوشبو دار تلی ہوئی مچھلیاں رکھی ہوئی تھیں۔ اس نے کچھ مچھلیاں ایک تھیلے میں ڈالیں اور وہاں سے نکل گیا۔ اب وہ جہاز کے اس حصے میں آ گیا تھا جہاں اس کے دائیں بائیں ڈاکوؤں کے کمرے تھے اور سب کے دروازے بند تھے۔ ان کو اس بات کا ذرا سا بھی خدشہ نہیں تھا کہ وہاں پر کوئی آ سکتا ہے، اس لیے حامد کو کوئی پہریدار بھی نظر نہیں آ رہا تھا۔ سامنے جا کر ایک راستہ نیچے جاتا نظر آیا۔ وہ سیڑھیاں اتر کر نیچے آیا۔

    یہ ڈاکوؤں کا گودام تھا اور یہاں پر اناج کی بوریاں اور لوٹے ہوئے سامان کے ڈھیر نظر آئے۔ ایک طرف ایک چھوٹا سا کمرہ تھا۔ کمرے کی کنڈی باہر سے بند تھی اور اندر سے ہلکی ہلکی سسکیوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔ حامد نے جھپٹ کر دروازہ کھولا، اندر عبدل کا لڑکا طلحہ موجود تھا۔ ایک ہی محلے میں رہنے کی وجہ سے وہ حامد کو پہچانتا تھا۔ طلحہ نے حامد کو دیکھا تو اس کے گلے سے لگ کر رونے لگا ’’حامد بھائی۔ مجھے یہاں سے لے چلو۔ مجھے ان سے بہت ڈر لگتا ہے۔ یہ مجھے کھانے کو بھی کچھ نہیں دیتے۔ ان میں سے ایک آدمی کہہ رہا تھا کہ جب تیرا باپ ہمیں بادشاہ کے محل کا نقشہ دے دیگا تو ہم تجھے کھانے کو بھی دیں گے اور آزاد بھی کر دیں گے۔ انھیں بادشاہ کے محل کا نقشہ کیوں چاہیے۔ کیا یہ لوگ بھی بادشاہ سلامت جیسا محل بنانا چاہتے ہیں؟‘‘

    طلحہ کی بات پر حامد کو ہنسی آ گئی۔ اس نے ہنسی روک کر طلحہ کو تسلی دی اور تھیلے میں سے مچھلیاں نکال کر اسے دیں۔ مچھلی دیکھ کر وہ خوش ہو گیا، بھوکا تو تھا ہی، جلدی جلدی کھانے لگا۔ اسے کھاتا چھوڑ کر حامد دوبارہ دبے قدموں چلتا ہوا باورچی خانے میں آیا اور دوسری کچھ کھانے کی اشیا اور پانی لے کر دوبارہ طلحہ کے پاس آیا۔ اس کا بھی بھوک کے مارے برا حال تھا وہ بھی کھانے میں شریک ہو گیا۔ کھانے کے بعد حامد نے اسے بہت سی باتیں سمجھائیں اور اس سے کہا کہ وہ جیسا کہے اس پر عمل کرے۔ اس کے بعد اس نے طلحہ کو اپنے ساتھ لیا، کمرے کو باہر سے کنڈی لگائی اور دونوں بڑی خاموشی سے چلتے ہوئے بگھی کے پاس آئے اور کیبن کے اندر چھپ کر بیٹھ گئے۔ حامد کو اپنے ماں باپ کی فکر ستانے لگی۔ اس کی گمشدگی سے یقیناً بہت پریشان ہو رہے ہونگے۔ وہ طلحہ کو لے کر جلد سے جلد گھر پہنچ جانا چاہتا تھا مگر وہ لوگ بیچ سمندر میں تھے اور کوئی ایسا ذریعہ بھی نہیں تھا کہ وہ دونوں کنارے تک پہنچ سکتے۔ اب تو صرف ایک ہی ھل تھا کہ وہ ڈاکو رات کو عبدل سے ملنے جائے اور اس طرح وہ لوگ بھی یہاں سے نکل جائیں۔

    ان لوگوں نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا تھا اس لیے اس پریشانی میں بھی انھیں نیند نے آ گھیرا اور وہ صبح دیر تک سوتے رہے۔ باقی دن رات کا انتظار کرتے کرتے گزر گیا۔ جب اچھی خاصی رات ہو گئی تو ڈاکووٴں کے جہاز نے ساحل کا رخ کیا اور بگھی لکڑی کے تختوں پر سے ہوتی ہوئی خشکی پر آئی اور تیزی سے دولت آباد کی طرف روانہ ہو گئی۔

    طلحہ بہت خوش تھا۔ اسے اپنی اماں اور ابا بہت یاد آ رہے تھے۔ادھر عبدل نے صبح ہوتے ہی بادشاہ سے ملاقات کرکے اسے ساری صورت حال سے واقف کر دیا تھا۔

    بادشاہ نے کہا ’’عبدل ہمیں تم پر فخر ہے۔ تم نے ہمارے بھلے کو دیکھتے ہوئے اپنے بیٹے کی بھی پرواہ نہیں کی۔ ہم تم سے بہت خوش ہیں اور پوری کوشش کریں گے کہ تمہارا بیٹا بازیاب ہو جائے۔‘‘

    عبدل نے کہا ’’جہاں پناہ۔ میں نے زندگی میں ایک بات سیکھی ہے کہ کیسے بھی حالت ہوں آدمی کو نہ تو کسی مجرم کی بات ماننی چاہیے اور نہ اسے کسی جرم کا حصہ بننا چاہیے‘‘۔ عبدل نے بادشاہ کو یہ بھی بتا دیا تھا کہ وہ بدمعاش آج رات پھر اس کے پاس آئےگا۔

    بادشاہ نے اسی وقت کوتوال کو طلب کیا اور اس کو ضروری ہدایات دینے لگا۔ بادشاہ کے حکم کے مطابق کوتوال نے عبدل کے گھر کے چاروں طرف تلواروں سے مسلح سپاہی تعینات کر دئیے۔ ڈاکوؤں کو عبدل سے اس بات کا خطرہ نہیں تھا کہ وہ اس بارے میں کسی کو کچھ بتائےگا کیونکہ اس کا بیٹا ان کے قبضے میں تھا۔ اس ڈاکو نے کل رات کی طرح بگھی کو پھر اسی میدان میں کھڑا کیا اور خود اس سے اتر کر تیز تیز قدموں سے عبدل کے گھر کی جانب روانہ ہو گیا۔ جب وہ کچھ دور نکل گیا تو حامد اور طلحہ بھی بگھی سے باہر آئے اور خاموشی سے چھپتے چھپاتے ڈاکو کے پیچھے چل پڑے۔ ڈاکو جیسے ہی عبدل کے گھر کے نزدیک پہنچا، سپاہیوں نے اسے قابو کر لیا۔

    ڈاکو چلا کر بولا ’’عبدل تو نے اچھا نہیں کیا۔ میں اگر تھوڑی دیر تک اپنے ساتھیوں کے پاس نہیں پہنچا تو وہ تیرے بیٹے کو قتل کر دیں گے۔‘‘

    عین اسی وقت حامد طلحہ کے ساتھ سب لوگوں کے سامنے آ گیا۔’’جھوٹ مت بولو۔ عبدل چا چا کا بیٹا تو یہ رہا۔ تمھارے ظالم ساتھی اسے کیسے قتل کریں گے؟‘‘حامد نے کہا۔

    طلحہ کو دیکھ کر ڈاکو کا منہ حیرت سے کھل گیا۔ عبدل نے دوڑ کر طلحہ کو گلے سے لگا لیا اور چلا کر بولا ’’اری دیکھ نیک بخت۔ ہمارا طلحہ گھر لوٹ آیا ہے۔‘‘

    اس کی چیخ و پکار سن کر طلحہ کی ماں فوراً ہی باہر نکل کر آ گئی اور پھر جو وہ طلحہ سے لپٹ کر دھاڑیں مار مار کر روئی ہے تو دیکھنے والوں کی آنکھیں بھی اشکبار ہو گئیں۔ اسی اثنا میں حامد کے ماں باپ بھی وہاں آ گئے تھے۔ اس کی ماں ذرا بھی پریشان نہیں تھی۔ اس نے حامد کو گلے سے لگایا اور بولی ’’میں نے تو سب سے کہہ دیا تھا کہ میرا حامد عبدل بھائی کے بیٹے طلحہ کو لے کر ہی آئےگا۔‘‘

    ماں کی یہ بات سن کر طلحہ کو بہت خوشی ہوئی۔ کوتوال نے ڈاکو کو اسی وقت گرفتار کرکے بادشاہ کے سامنے پیش کیا۔ وہ خوف کے مارے تھر تھر کانپ رہا تھا۔ ب’’ادشاہ سلامت یہ ڈاکو اتنے ظالم ہیں کہ انہوں نے طلحہ کو کچھ کھانے کو بھی نہیں دیا تھا‘‘۔ حامد نے بادشاہ سے کہا۔

    بادشاہ نے شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور بولا ’’تم ایک بہادر لڑکے ہو۔ ہم تمھاری بہادری سے بہت خوش ہوۓ ہیں‘‘۔ پھر وہ کوتوال کی طرف مڑا اور بولا ’’یہ کیا ہو رہا ہے کوتوال صاحب۔ چھوٹے چھوٹے بچے بڑے بڑے ڈاکووٴں کو پکڑوا رہے ہیں اور آپ ہیں کہ مزے سے آنکھیں بند کیے بیٹھے ہوئے ہیں۔ سمندری ڈاکوؤں کی اتنی ہمت ہو گئی ہے کہ وہ ہمارے محل کا نقشہ حاصل کرکے نہ جانے ہمارے خلاف کون سی سازش کرنا چاہ رہے تھے۔ کوتوال تمھاری کارکردگی سے ہم سخت مایوس ہوئے ہیں۔‘‘

    بادشاہ کی بات سن کر کوتوال کا خون خشک ہو گیا تھا اور ہاتھ پاوٴں میں لرزہ طاری ہونے لگا۔ وزیر نے ہاتھ باندھ کر عرض کی ’’میرا تو خیال ہے کہ وہ محل پر شب خون مار کر تخت پر قبضہ کرنا چا رہے تھے۔ محل کا نقشہ اگر انھیں مل جاتا تو اس سے انھیں محل میں رہنے والوں کے کمروں کی نشاندہی بھی ہو جاتی اور اس بات کا بھی علم ہو جاتا کہ محل میں کتنے پہرے دار اس کی حفاظت پر مامور ہیں‘‘۔

    کوتوال نے شرمندگی سے گردن جھکا لی تھی۔ اس کو اس بات پر سخت شرمندگی کا احساس ہو رہا تھا کہ وہ سمندری ڈاکو یوں دندناتے پھر رہے تھے۔ بادشاہ نے اسی وقت جلاد کو طلب کیا اور اس سے کہا ’’اب ہم اس ڈاکو سے کچھ پوچھیں گے۔ اگر یہ جواب نہ دے تو تم اس کی گردن اڑا دینا۔‘‘

    جلاد نے اپنی تلوار نکال کر ہاتھ میں پکڑ لی اور ڈاکو کے سامنے جا کر کھڑا ہو گیا۔ چمکدار تلوار دیکھ کر ڈاکو کا رنگ فق ہو گیا۔ بادشاہ نے اس کو مخاطب کرکے کہا۔ ’’سچ سچ بتاؤ تم لوگ محل کا نقشہ کیوں لینا چاہتے تھے؟‘‘

    ڈاکو نے تھوک نگل کر کہا ’’بادشاہ سلامت ہمارا سردار بہت لالچی آدمی ہے۔ وہ محل کے نقشے سے آپ کے خزانوں تک پہنچنا چاہتا تھا تاکہ ان کو چوری کر سکے۔ خزانے کو چوری کر کے وہ بہت امیر آدمی بننا چاہتا تھا۔‘‘

    بادشاہ نے کہا۔ ’’وہ خزانہ ہمارا نہیں ہے، ہماری رعایا کا ہے۔ وہ اگر چوری ہو جاتا تو پھر ہم اپنے ملک کی ترقی اور خوشحالی بغیر پیسوں کے کیسے کرتے، اپنی فوج، سپاہیوں اور دوسرے سرکاری ملازمین کو تنخواہیں کہاں سے دیتے۔ تمہارا جرم بہت بڑا ہے تمہیں اس کی سخت سزا ملےگی۔‘‘

    اس ڈاکو کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ اس کے بعد کوتوال نے بہت سارے سپاہی ساتھ لیے اور حامد سے کہا ’’اب تم ہمیں اس جگہ لے چلو جہاں سمندر میں وہ جہاز کھڑا ہے‘‘۔

    حامد اور کوتوال ڈاکووٴں کی بگھی میں بیٹھے اور حامد کوتوال کو راستہ بتانے لگا۔ سپاہی چپکے چپکے ان لوگوں کے پیچھے آ رہے تھے۔ سمندر پر جہاز کھڑا تھا اور اس میں موجود ڈاکو اپنے ساتھ کا انتظار کر رہے تھے۔ بگھی دیکھ کر ڈاکو یہ سمجھے کہ ان کا ساتھی آ گیا ہے۔ اندھیرا ہونے کی وجہ سے وہ کوتوال اور حامد کی شکلیں نہیں دیکھ سکے تھے۔ جیسے ہی لکڑی کے بڑے سے تختے نے ساحل کو چھوا، کوتوال کے سارے چھپے ہوئے سپاہی باہر نکل آئے اور اس تختے کی مدد سے جہاز کے اوپر چڑھ کر ڈاکووٴں پر ہلا بول دیا۔ ڈاکو بےخبری میں پکڑے گئے، چند ایک ڈاکووٴں نے گھبرا کر سمندر میں چھلانگ لگا دی۔ کوتوال کے حکم پر اس کے سپاہی بھی سمندر میں کود گئے اور بھاگنے والے ڈاکووٴں کو بھی گرفتار کر لیا۔ ان کا سردار جہاز کے تہہ خانے میں بیٹھا سونے کے سکوں کی بوری کھول کر سکے گن رہا تھا، اس کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔

    ڈاکوؤں کے جہاز سے بہت سارا لوٹا ہوا مال برآمد ہوا تھا۔ بادشاہ نے ان تمام چیزوں کو ان لوگوں کو واپس کر دیا جن کو لوٹ کر ڈاکوؤں نے اسے جمع کیا تھا۔ عبدل کو بادشاہ سے وفاداری کے بدلے اور حامد کو اس کی بہادری کے صلے میں بادشاہ نے دو دو ہزار اشرفیاں انعام میں دیں۔۔۔

    عبدل تو خیر پہلے ہی سے بہت امیر تھا مگر بادشاہ کے انعام کی وجہ سے حامد اور اس کے گھر والوں کے دن پھر گئے تھے۔ اگلے روز جب حامد حسب معمول دکان پر پہنچا تو بشارت نانبائی نے اس کی بڑی آؤبھگت کی۔ اس نے کہا ’’حامد اب تو تم ایک امیر لڑکے ہو گئے ہو۔ بادشاہ سلامت تمھاری بہادری سے بہت خوش ہوۓ ہیں۔ مجھے پتہ ہے کہ اب تم میری دکان پر کام نہیں کروگے‘‘۔

    حامد نے ہنس کر کہا ’’بادشاہ سلامت نے مجھے جتنی بھی اشرفیاں دی تھیں وہ تو میری ماں نے لے لی ہیں۔ میرے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے۔ اگر میں نے کام کرنا چھوڑ دیا تو پھر جلیبیاں کہاں سے خریدوں گا اور جناب میرا تو یہ خیال ہے کہ آدمی کے پاس چاہے جتنی بھی دولت آ جائے، اسے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھنا چاہیے، کچھ نہ کچھ کرتے رہنے میں ہی بھلائی ہے‘‘۔

    اس کی بات سن کر بشارت نانبائی بہت خوش ہوا اور بولا ’’حامد میرا دل کہتا ہے کہ تم اپنی بہادری، خدا ترسی اور اچھے خیالات کی وجہ سے ایک روز بہت بڑے آدمی بنوگے‘‘۔

    حامد نے مسکراتے ہوئے جھک کر اس کا شکریہ ادا کیا اور پھر دکان کے کاموں میں لگ گیا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے