Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

میں چگوں سو کیا

سکینہ بیگم

میں چگوں سو کیا

سکینہ بیگم

MORE BYسکینہ بیگم

    ایک تھی چڑیا، وہ نکلی کہیں چگنے، دور سے اس کو ایک چنے کا دانہ نظر آیا، یہ بھوکی تو تی ہی فوراً اتر پڑی اور جھٹ سے دانہ اٹھا چلی وہاں سے اڑتی ہوئی کہ کہیں چین سے بیٹھ کر اسے کھائے۔

    اڑتے اڑتے وہ ایک مکان کے چھت پر پہنچی، وہاں پڑا تھا ایک کاٹھ کا ٹکڑا، یہ چونچ میں چنے کا دانہ لئے ہوئے اس پر جا بیٹھی اور دانہ کاٹھ پر رکھ کر ستانے لگی۔

    کاٹھ میں ایک سوراخ تھا چنے کا دانہ اس میں گر پڑا۔ جب چڑیا دم لے چکی تو اس نے چاہا کہ چنے کا دانہ کھائے لیکن دانہ سوراخ میں پھنسا ہوا تھا۔ اس نے بہت کوشش کی کہ چونچ سے اس کو نکال لے لیکن سوراخ تھا چھوٹا سا اس میں سے دانہ نہ نکل سکا۔

    چڑیا نے جب دیکھا کہ دانہ نکلتا نہیں ہے تو بڑی عاجزی سے کاٹھ سے کہنے لگی۔

    کاٹھ کاٹھ چنا دے، کاٹھ کاٹھ چنا دے

    ’’میں چگوں سو کیا‘‘

    کاٹھ نےچنا دینے سے انکار کر دیا۔ یہ وہاں سے گئی بڑھئی کے پاس اور بڑھئی سے کہا۔

    ’’بڑھئی بڑھئی کاٹھ چیر

    کاٹھ چنا دیتا نہیں

    میں چگوں سو کیا؟

    بڑھئی نے کہا ’’ایک چنے کے دانے کے لئے میں کاٹھ کہاں چیرتا بیٹھوں۔ دور ہو یہاں سے! چڑیا گئی راجہ کے پاس فریاد لے کر اور کہا۔

    ’’راجہ راجہ بڑھئی ڈانٹ

    بڑھئی کاٹھ چیرتا نہیں

    کاٹھ چنا دیتا نہیں

    میں چگوں سو کیا؟‘‘

    راجہ نے ہنس کر کہا ’’خوب! اتنی سی بات کے لئے میں بڑھئی کو ڈانٹوں؟ نکل جا یہاں سے!‘‘ چڑیا گئی رانی کے پاس اور رانی سے کہنے لگی۔

    ’’رانی رانی راجہ روٹھ

    راجہ بڑھئی ڈانٹتا نہیں

    بڑھئی کاٹھ چیرتا نہیں

    کاٹھ چنا دیتا نہیں

    میں چگوں سو کیا؟‘‘

    رانی نے کہا ’’دیوانی ہوئی ہے تیرے چنے کے دانے کے لئے میں اپنے راجہ سے روٹھوں؟ یہ تو مجھ سے نہیں ہو سکتا۔‘‘ چڑیا گئی چوہے کے پاس اور چوہے سے التجا کرنے لگی کہ

    ’’چوہے چوہے رانی کھٹولا کاٹ

    رانی راجہ روٹھتی نہیں

    راجہ بڑھئی ڈانٹتا نہیں

    بڑھئی کاٹھ چیرتا نہیں

    کاٹھ چنا دیتا نہیں

    میں چگوں سو کیا؟‘‘

    چوہے نے کہا ’’بی چڑیا نہ میں کھٹولا کاٹوں نہ تمہارا چنے کا دانہ ملےگا۔ تم کہیں اور جاؤ‘‘ چڑیا گئی بلی کے پاس اور دل میں یہ سوچنے لگی کہ ’’ٹھہرو میاں چوہے کو مزا چکھاؤں گی۔‘‘بلی سے کہنے لگی۔

    ’’بلی بلی چوہے کو کھا

    چوہا رانی کھٹولا کاٹتا نہیں

    رانی راجہ روٹھتی نہیں

    راجہ بڑھئی ڈانٹتا نہیں

    بڑھئی کاٹھ چیرتا نہیں

    کاٹھ چنا دیتا نہیں

    میں چگوں سو کیا؟‘‘

    بلی نے کہا ’’میری بلا سے میں کیا کروں؟ میں تو چوہے کو کھانے سے رہی!‘‘ چڑیا اپنا سا منہ لے لکڑی کے پاس پہنچی کہ بی بلی کو کچھ سزا دلوائے لکڑی سے کہنے لگی۔

    ’’لکڑی لکڑی بلی مار

    بلی چوہا کھاتی نہیں

    چوہا رانی کھٹولا کاٹتا نہیں

    رانی راجہ روٹھتی نہیں

    راجہ بڑھئی ڈانٹتا نہیں

    بڑھئی کاٹھ چیرتا نہیں

    کاٹھ چنا دیتا نہیں

    میں چگوں سو کیا؟‘‘

    لکڑی نے کہا ’’چل چل میں ان باتوں میں نہیں پڑتی۔‘‘ چڑیا چلی آگ کے پاس اور آگ سے یوں بولی۔

    ’’آگ آگ لکڑی جلا

    لکڑی بلی مارتی نہیں

    بلی چوہا کھاتی نہیں

    چوہا کھٹولا کاٹتا نہیں

    راجی راجہ روٹھتی نہیں

    راجہ بڑھئی ڈانٹتا نہیں

    بڑھئی کاٹھ چیرتا نہیں

    کاٹھ چنا دیتا نہیں

    میں چگوں سو کیا؟‘‘

    آگ نے کہا ’’جانے میری بلا سے! میں کیا جانوں کہ تم کیا چگو!‘‘ چڑیا پھر چلی سمندر کے پاس اور سمندر سے کہا۔

    ’’سمندر، سمندر اگیا بجھا

    آگ لکڑی جلاتی نہیں

    لکڑی بلی مارتی نہیں

    چوہا بلی کھاتی نہیں

    چوہا رانی کھٹولا کاٹتا نہیں

    راجہ رانی روٹھتی نہیں

    راجہ بڑھئی ڈانٹتا نہیں

    بڑھئی کاٹھ چیرتا نہیں

    کاٹھ چنا دیتا نہیں

    میں چگوں سو کیا؟

    سمندر نے کہا ’’مجھ سے تو یہ نہیں ہوسکے گا۔ چڑیا چلی ہاتھی کے پاس اور ہاتھی سے کہا کہ۔

    ’’ہاتھی، ہاتھی سمندر سوکھ (پی جا)

    سمندر آگ بجھاتا نہیں

    آگ لکڑی جلاتی نہیں

    لکڑی بلی مارتی نہیں

    بلی چوہا کھاتی نہیں

    چوہا رانی کھٹولا کاٹتا نہیں

    رانی راجہ روٹھتی نہیں

    راجہ بڑھئی ڈانٹتا نہیں

    بڑھئی کاٹھ چیرتا نہیں

    کاٹھ چنا دیتا نہیں

    میں چگوں سو کیا؟‘‘

    ہاتھی نے یہ سب سن کر اپنی گردن ہلائی اور کہا ’’اونہ ہونھ میں تو اس معاملہ میں دخل نہ دوں گا۔ زبردستی سمندر کا پانی کیوں سوکھ لوں؟‘‘

    اب چڑیا لگی سوچنے کہ کیا کروں جھٹ اس کو خیال آیا کہ چلو چیونٹی کے پاس چلیں اس کام میں تو وہی مدد کر سکے گی۔ فوراً چیونٹی پاس پہنچی اور اس سے کہا کہ

    ’’چیونٹی چیونٹی ہاتھی کی سونڈ میں گھس

    ہاتھی سمندر سوکھتا نہیں

    سمندر آگ بجھاتا نہیں

    آگ لکڑی جلاتی نہیں

    لکڑی بلی مارتی نہیں

    بلی چوہا کھاتی نہیں

    چوہا رانی کھٹولا کاٹتا نہیں

    رانی راجہ روٹھتی نہیں

    راجہ بڑھئی ڈانٹتا نہیں

    بڑھئی کاٹھ چیرتا نہیں

    کاٹھ چنا دیتا نہیں

    میں چگوں سو کیا؟‘‘

    چیونٹی نے کہا ’’بہن یہ کتنی بڑی بات ہے۔ چلو میں ابھی چلتی ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر چیونٹی جونہی لگی ہاتھی کی سونڈ میں گھسنے۔ ہاتھی نے کہا ’’میری سونڈ میں نہ کوئی گھسئیو میں سمندر سوکھتا ہوں‘‘

    سمندر نے کہا ’’مجھے کوئی نہ سوکھیو میں آگ بجھاتا ہوں‘‘

    آگ نے کہا ’’مجھے کوئی نہ بجھائیو میں لکڑی جلاتی ہوں‘‘

    لکڑی نے کہا ’’مجھے کوئی نہ جلائیو میں بلی مارتی ہوں‘‘

    بلی نے کہا ’’مجھے کوئی نہ مارے میں چوہا کھاتی ہوں‘‘

    چوہے نے کہا ’’مجھے کوئی نہ کھائیو میں رانی کھٹولا کاٹتا ہوں‘‘

    رانی نے کہا ’’میرا کھٹولا نہ کوئی کاٹیو میں راجہ روٹھتی ہوں‘‘

    رانی نے کہا ’’میرا کھٹولا نہ کوئی ککاٹیو میں راجہ روٹھتی ہوں‘‘

    راجہ نے کہا’’ مجھے نہ کوئی روٹھے میں بڑھئی ڈانتا ہوں‘‘

    کاٹھ نے کہا’’مجھے کوئی نہ چیرے میں چنا دیئے دیتا ہوں‘‘

    یہ کہہ کر کاٹھ نے چنا دیدیا۔ چڑیا جھٹ سے اپنا چنا اٹھا یہ چل وہ چل چلتی بنی۔ چلو ہو گئی کہانی اور اب کہانی پر پتھر اور تمہارے ہمارے پر اللہ میاں کا چتھر۔

    مأخذ:

    سب رس (Pg. 5)

      • ناشر: عہد آفریں برقی پریس، حیدرآباد
      • سن اشاعت: 1939

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے