Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ممی نا بولی

بانو سرتاج

ممی نا بولی

بانو سرتاج

MORE BYبانو سرتاج

    فاروق میاں گھر کی آنکھوں کا تارا تھے ددھیال، ننھیال دونوں کی پہلی اولاد۔ جتنا چاؤ ہوتا کم تھا۔ خیر سے تین سال کے تھے مگر خوب باتیں کرنے لگے تھے۔ لاڈ میں آتے تو تتلانے لگتے۔ ان کی ہر ہر ادا پر سب قربان جاتے۔ ان کی اکلوتی پھوپھی جان کہا کرتیں۔

    ’’ہمارے بھتیجے صاحب تھوڑے تھوڑے دنوں میں ایک نیا آئٹم تار کرتے ہیں۔‘‘ اور ان دنوں جس آئٹم سے وہ سب کو محفوظ کر رہے تھے وہ تھا۔ ’’ممی نا بولی‘‘

    نانی آئی ہوئی تھیں۔ سویرے دادی کے ساتھ بیٹھ کر چائے پی رہی تھیں کہ آپ جناب پہنچ گئے اور بولے۔ ’’ہم بھی چائے پئیں گے۔‘‘

    نانی بولیں ’’بچے چائے نہیں پیا کرتے، دودھ پیتے ہیں۔‘‘

    فاروق میاں انگوٹھے اور شہادت کی انگلی ملا کر لاڈ سے بولے ’’تھولی چھی پئیں گے۔‘‘

    نانی دادی دونوں نہال ہو گئیں۔ نانی نے پوچھا ’’آپ نے برش کر لیا؟‘‘

    فاروق میاں چپ! چند لمحوں بعد بولے’’ہم بھی چائے پئیں گے۔‘‘

    ’’آپ نے برش کر لیا ہے۔؟‘‘

    وہ معصومیت سے بولے۔ ’’نہیں، ممی نا بولی!‘‘

    ’’کیا نا بولی؟‘‘ دادی نے حیرت سے پوچھا۔

    ادھر بھر خاموشی۔!

    بولئئے میاں، ممی کیا نا بولی؟ نانی نے اکسایا۔

    ’’ممی برش کرنے کو نا بولی۔‘‘

    نانی کو ان کی ادا ایسی بھائی کہ گود میں لے کر چٹ چٹ بلائیں تو لیں ہی، چائے بھی پلائی۔ دادی نے ممی سے وضاحت مانگی تو وہ بولیں ’’سارا ٹوتھ پیسٹ کھا جاتے ہیں جناب! اس لئے میں کہا، برش نہ کرو۔ دانت صاف کرنے سے تو میں نے منع نہیں کیا۔‘‘

    ایک مرتبہ ان کی پھوپھی جان مع بچوں کی تشریف لائی ہوئی تھیں۔ فاروق میاں جاگے تو بچوں کا غل غپاڑہ سنائی دیا۔ بستر سے اٹھ کر ان میں شامل ہو گئے۔ پھوپھی کی نظر گئی تو بولیں ’’فاروق میاں! نیکر کہاں ہے؟‘‘

    سب کی نظریں ان کی طرف اٹھ گئیں۔ وہ سٹپٹا گئے۔

    ’’جائیے۔ نیکر پہن کر آئیے۔‘‘ پھوپھی نے کہا۔

    کھیل چھوڑ کر جانا آسان بات نہ تھی۔ سر ہلاکر بولے۔ ’’ممی نا بولی۔ ’’کیا؟‘‘ پھوپھی نے مصنوعی غصہ سے کہا’’پھر سے تو بولیے۔‘‘

    ’’ممی نیکر پہننے کو نابولی۔‘‘ انہوں نے اطمینان سے دہرا دیا۔

    ممی سے پھر وضاحت طلب کی گئی۔ پتہ چلا، گیلی نیکر پہن کر ہی آپ کھیلنے چلے تھے کہ انہوں نے کہا’’فاروق، نیکر نہ پہنو‘‘ آگے کا جملہ ’’پاجامہ پہن لو‘’ آپ نے سنا نہیں اور نیکر اتار کر دالان میں پہنچ گئے۔

    ہر بچے کی طرح گھومنے کے بعد شوقین تھے فاروق میاں۔ صبح ہو کر دوپہر، شام ہو کہ رات، دادا ہوں یا نانا، پاپا ہوں یا چاچو، ملازمہ ہو کہ ڈرائیور، ہر وقت ہر کسی کے ساتھ باہر جانے کو تیار رہتے۔ کسی نے باہر جانے کے لئے لباس تبدیل کیا، تھیلا اٹھایا یا پرس سنبھالا کہ آپ جس حالت میں ہوتے اسی حالت میں ان کے دم چھلے بن جاتے۔

    ایک روز چاچو کے باہر نکلنے کے آثار نظر آتے ہی آپ گرتے پڑتے بھاگے اور اسکوٹر پر چڑھ کر کھڑے ہو گئے۔ چاچو نے آکر اسکوٹر اسٹارٹ کیا پھر رک کر بولے ’’فاروق میاں آپ کے جوتے کہاں ہیں؟‘‘

    ’’کمرے میں، نہایت مستعدی سے جواب ملا۔

    ’’چائیے جوتے پہن کر آئیے۔‘‘

    وہ شدومد سے سر ہلاکر بولے ’’ممی نابولی۔‘‘

    چاچو کو ہنسی آ گئی۔ ’’کیا نا بولی؟‘‘

    ’’ممی جوتے پہننے کو نا بولی۔‘‘

    بےچاری ممی نے سر پیٹ لیا۔ انہوں نے کہا تھا، جوتے صرف اسکول جاتے وقت پہننا۔ ہر جگہ جوتے نہ پہننا، کیونکہ جناب جوتے پہن تو بڑے شوق سے لیتے مگر تھوڑی ہی دیر میں اتار کر پھینک دیتے۔ واپسی میں جوتے اٹھانا کبھی یاد نہ رہتا۔ نہ جانے کتنی جوڑی جوتے گم کر چکے تھے۔

    اور پھر ایسا ہوا کہ ’’ممی نا بولی‘‘ کہ ہتھیار نے جب سب کو پسپا کرنا شروع کر دیا تو سب سے پہلے بڑا ددّا ( دادای جان) کے کان کھڑے ہوئے۔ انہوں نے ایک دن ایسے وقت یہ سوال اٹھایا جب فاروق میاں خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے۔ ’’فاروق میاں کی یہ ادا ہے تو پیاری! مگر کیا آپ لوگوں کو محسوس نہیں ہوتا کہ وہ ’ممی نا بولی‘ کا استعمال کچھ زیادہ ہی کرنے لگے ہیں۔‘‘

    ’’مجھے بدنام کر رہے ہیں اور کیا؟ جب بھی وہ ایسا بولتے ہیں، سب میری طرف دیکھتے ہیں‘‘ ممی بےچاری سیدھی سادی۔۔۔ آنکھوں میں نمی آ گئی ان کی۔

    ’’دلہن! پریشان نہ ہو۔ پیشتر اس کے یہ ان کی عادت بن جائے۔ ان کا وار ان ہی پر کیوں نہ الٹا دیا جائے۔‘‘ بڑی ددّا نے کہا۔ پھر وہ آہستہ آہستہ ان سے کچھ کہنے لگیں جسے سن کر خوب محظوظ ہوئے۔

    ’’دوسرے روز ناشتہ کے بعد فاروق میاں کے پاپا ہر جانے کے لئے تیار ہونے لگے۔ وہ ناک میں تھے بولے، پاپا، ہم بھی چلیں گے۔‘‘

    پاپا بولے ’’نا، ممی نا بولیں۔‘‘

    فاروق میاں پر حیرت کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ ’’کون چھی ممی نا بولی؟‘‘

    ’’ہماری ممی نا بولیں‘‘۔ پاپا ایک ایک لفظ پر زور دے کر بولے۔

    ’’آپ کی ممی؟‘‘ فاروق میاں حیرت سے بولے۔

    ’’ہاں، وہ جو آپ کی دادی ہیں نا، وہ ہماری ممی ہیں۔ وہ نہ بولیں۔ وہ بولیں کہ فاروق میاں کو باہر نہ جانا۔ لو لگ جائےگی۔‘‘

    انتہائے حیرت سے فاروق میاں گم سم کھڑے رہ گئے۔ پاپا بازار چلے گئے۔ تھوڑی ہی دیر بعد ان کے چاچو اسکوٹر کی طرف جاتے نظر آئے تو حسب عادت وہ سر پٹ دوڑے ’’چاچو، کہاں جا لئیے آپ! ہم بھی چلیں گے۔‘‘ تتلا کر انہوں نے ڈھیر سا مکھن چاچو کو لگا دیا۔

    ’’ہم نہیں لے چلتے آپ کو۔ ممی نا بولیں۔‘‘ چاچو نے اطمینان سے کہا۔

    ’’ہیں!‘‘ فاروق میں ٹھٹک گئے۔ ’’آپ کی بھی ممی ہیں! کون چھی ممی۔‘‘

    ’’ہماری ممی، جو آپ کی دادی ہیں۔ و نابولیں۔‘‘

    ’’کیا نا بولیں؟‘‘ فاروق میاں نے سہم کر پوچھا۔

    ’’فاروق کو دھوپ میں باہر نہ لے جانا بولیں۔‘‘

    دو ہی روز میں فاروق میاں اپنے تکیہ کلام ’ممی نا بولی ‘‘سے دست بردار ہو گئے۔ پاپا’’ ممی چاچو چاچی نے جب ہر بات میں’’ممی نا بولیں‘‘ کہہ کر ان کا پتہ کاٹنا شروع کیا تو ننھے سے فاروق میاں آخر کب تک میدان میں ڈٹے رہتے؟۔

    مأخذ:

    شاعر (Pg. 26)

      • ناشر: ناظر نعمان صدیقی
      • سن اشاعت: 2014

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے