Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مارک ٹوین کے لطیفے

سلام بن رزاق

مارک ٹوین کے لطیفے

سلام بن رزاق

MORE BYسلام بن رزاق

    مارک ٹوین امریکہ کا زبردست مزاح نگار ہو گزرا ہے غالب کی طرح بات میں بات پیدا کرنے میں اسے کمال حاصل تھا۔ اس کی ہر بات میں عموماً مزاح کا پہلو ہوتا۔ اس کے چند لطیفے سنو:

    مارک ٹوین اور اس کے کچھ دوست بیٹھے شیکسپیئر کے ڈراموں پر بحث کر رہے تھے۔ مارک ٹوین کے ایک دوست نے کہا ’’بھئی ہم نے تو سنا ہے کہ شیکسپیئر کے ڈرامے دراصل کسی اور کے تھے، شیکسپئر کے نام سے یوں ہی مشہور ہو گئے ہیں۔ کچھ دوستوں نے اس سے اختلاف کیا۔ بحث طویل پکڑتی گئی۔ مارک ٹوین نے بحث ختم کرنے کے ارادے سے کہا دوستو بحث چھوڑو میں جب جنت میں جاؤں گا تب خود سیکسپیئر سے پوچھ لوں گا کہ اس کے ڈراموں کا اصل مصنف کون تھا؟‘‘

    ایک دوست نے ہنستے ہوئے کہا ’’مارک! کیا یہ ضروری ہے کہ شیکسپیئر جنت ہی میں ہو، یہ بھی تو ممکن ہے کہ وہ دوزخ میں پڑا ہو‘‘

    مارک نے اطمینان سے مسکراتے ہوئے جواب دیا ’’اس صورت میں تم وہاں جاکر پوچھ لینا‘‘۔

    مارک ٹوین نے اپنے لڑکپن کا ایک واقعہ سناتے ہوئے کہا ’’میں لڑکپن سے ہی بے حد ایمان دار تھا۔ ایک دن میں اپنے گھر کے سامنے کھیل رہا تھا کہ میرے کان میں آواز آئی ’’میٹھے سیب دو آنے میں، دو آنے میں۔‘‘ ایک شخص ٹھیلہ گاڑی دھکیلتا ہوا سڑک سے گزر رہا تھا۔ گاڑی میں گول گول، سرخ و سپید سیب بڑے پیارے لگ رہے تھے۔ میری جیب میں پیسے نہیں تھے مگر میراجی سیبوں پر للچا رہا تھا۔ میں نے گاڑی والے کی آنکھ بچا کر ایک سیب اڑا لیا اور بغل کی گلی میں گھس گیا۔ جیسے ہی میں نے سیب پر مونہہ مارا میرا دل مجھے ملامت کرنے لگا۔ میں بےچین ہو گیا اور دوڑتا ہوا گلی سے باہر نکلا، سیب والے کے پاس پہنچ کر میں نے وہ سیب گاڑی میں رکھ دیا۔۔۔ اور اس کی جگہ ایک پکا اور میٹھا سیب اٹھا لیا۔‘‘

    مارک ٹوین کو شام کے وقت ایک لکچر دینا تھا۔ دوپہر کو وہ بال کٹوانے گیا۔ نائی نے قینچی سنبھالی اور حسب عادت زبان بھی قینچی کی طرح چلانے لگا ’’جناب عالی! آج شام کو مارک ٹوین کا لکچرہونے والا ہے۔ کیا آپ نے ٹکٹ خرید لیا ہے؟ نہ خریدا ہو تو خرید لیجئے ورنہ لکچر کھڑے رہ کر ہی سننا پڑےگا۔‘‘

    مارک ٹوین نے بڑی سادگی اور سنجیدگی سے کہا ’’بھائی تمہاری رائے کا شکریہ۔ لیکن میں بڑا بدنصیب ہوں کیوں کہ جب بھی مارک ٹوین کا لکچر ہوتا ہے مجھے تو کھڑا ہی رہنا پڑتا ہے۔‘‘

    کسی نے مارک ٹوین سے پوچھا، بڑی بھول اور چھوٹی بھول میں کیا فرق ہے؟‘‘

    مارک نے ٹھنڈے دل سے جواب دیا۔ ’’دیکھو اگر تم کسی ہوٹل میں چائے پینے کے بعد واپسی میں بھول سے اپنی پرانی چھتری کے بجائے کسی کی نئی چھتری اٹھا لاؤ تو یہ چھوٹی بھول ہے۔ مگر اس کے برعکس اپنی نئی چھتری کے بجائے کسی کی پرانی چھتری اٹھا لاؤ تو یہ بڑی بھول ہوگی۔‘‘

    مارک ٹوین اور سیونٹن نے ایک اخبار جاری کیا مگر ان کا اخبار ابھی ابتدائی دور سے گزر رہا تھا، اس لئے انہیں ہمیشہ روپوں کی ضرورت رہتی تھی۔ ایک دفعہ تین ڈالر کی سخت ضرورت پیش آئی۔ دونوں اخبار کے دفتر میں فکر مند بیٹھے خیالی گھوڑے دوڑا رہے تھے، مگر کوئی تدبیر سمجھ میں نہیں آ رہی تھی۔ اتنے میں خدا جانے کہاں سے ایک خوبصورت کتا ہانپتا ہوا آیا اور مارک کے پیروں کے پاس بیٹھ کر سستانے لگا۔ مارک نے حیرت سے اسے دیکھا، پھر ادھر ادھر نظر دوڑائی کہ کہیں اس کا مالک نظر آ جائے، مگر وہاں کوئی نہیں تھا۔ چند لمحوں بعد جنرل مائلس کا وہاں سے گزر ہوا۔ ان کی نظر مارک کے پیروں کے پاس بیٹھے ہوئے خوب صورت کتے پر پڑی۔ انہوں نے مارک سے پوچھا ’’مجھے کتے کی ضرورت ہے کیا تم اسے مناسب داموں میں فروخت کرنا پسند کروگے؟‘‘

    مارک نے ایک لمحہ تک کچھ سوچا اور پھر جھٹ کہا۔ ’’تین ڈالر دے دیجئے اور کتا لے جائیے۔‘‘

    ’’جنرل مائلس نے کتے کی قیمت زیادہ دینی چاہی مگر مارک نے تین ڈالر سے زیادہ لینے سے انکار کر دیا۔ آخر مائلس نے تین ڈالر اس کی ہتھیلی پر رکھے اور کتے کو لے کر چلا گیا۔ ابھی دو منٹ بھی نہ گزرے ہوں گے کہ ایک شخص ہانپتا کاپتا آیا۔ مارک پر نظر پڑتے ہی اس نے تیز چلتی ہوئی سانسوں پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ بھائی! تم نے یہاں میرا کتا دیکھا ہے؟ اس کے گلے میں سنہرے رنگ کا پٹہ تھا۔‘‘

    مارک نے کہا ہاں دیکھا تو ہے اور اسے ڈھونڈنے میں آپ کی مدد کر سکتا ہوں مگر اس کے بدلے میں مجھے تین ڈالر دینے ہوں گے۔‘‘

    اس شخص نے جھٹ سے تین ڈالر نکالے اور مارک کو دیتے ہوئے لجاحت آمیز لہجے میں کہا۔ ’’صاحب! بڑی مہربانی ہوگی چلئے میری مدد کیجئے۔‘‘

    مارک اس شخص کو سیدھا جنرل مائلس کے گھر لے گیا اور جنرل مائلس کے تین ڈالر واپس کرتے ہوئے ان سے کتا لے کر اصل مالک کے سپرد کر دیا اور کتے کے مالک کے تین ڈالر، جو اس کا جائز حق تھا، اپنی جیب میں ڈال کر دفتر کی طرف چل دیا۔

    مأخذ:

    کھلونا نئی دہلی (Pg. 37)

      • ناشر: محمد یونس دہلوی
      • سن اشاعت: 1965

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے