Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

معصوم آرزو

رئیس صدیقی

معصوم آرزو

رئیس صدیقی

MORE BYرئیس صدیقی

    صبح کا وقت تھا، بڑی خوشگوار ہوا چل رہی تھی۔ اس کا مزا لیتے ہوئے میں چادر اوڑھے چارپائی پر لیٹا ہوا تھا کہ اچانک میرے دائیں کان میں کسی کی پتلی پتلی انگلیاں محسوس ہوئیں۔

    میں ہڑبڑاتے ہوئے اٹھ کر بیٹھ گیا۔ سامنے کیا دیکھا ہوں کہ میرے چھوٹے بھائی میاں سعید کھڑے ہوئے ہیں۔

    ’’کیا بات ہے؟‘‘ میں نے آنکھیں لال پیلی کرتے ہوئے سوال کیا۔

    ’’بھیا، آپ ایک لوری سنایا کرتے تھے۔ ’چندا ماما دور کے‘ اور آپ یہ بھی کہا کرتے تھے کہ چاند میں رات کو بڑے بڑے بلب جلتے ہیں۔ اسی لیے چاند بہت خوبصورت دکھائی پڑتا ہے۔ وہاں شیشے کی پریاں رہتی ہیں جو ناچتی ہیں، گاتی ہیں اور رات کو پریاں ستارے بن جاتی ہیں۔ کہا تھا نہ آپ نے۔‘‘

    اس نے اس کہانی کو سنا ڈالا جو کہ اکثر میں اس کو بہلانے کے لیے چاند کے متعلق سنایا کرتا تھا۔

    ’’اور آپ نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ خدا کی عبادت بھی کرنا جانتی ہیں۔ اگر وہ اللہ میاں کا حکم نہیں مانتی ہیں تو اللہ میاں ان پریوں کو زمین پر پھینک دیتے ہیں جو یہاں تک آتے آتے سفید پتھر بن جاتی ہیں۔ انہیں پتھروں کا تاج محل بنا ہے۔۔۔ مگر بھیا، ابو جان تو باہر کسانوں کو بتا رہے ہیں کہ وہ لوگ۔۔۔ وہ جو چاند پر گئے تھے، ان لوگوں نے واپس آکر بتایا ہے کہ چاند پر صرف پتھر ہی پتھر ہیں۔ وہاں نہ ہوا ہے اور نہ پانی۔ وہاں کوئی زندہ چیم نہیں ہے اور وہاں اندھیرا ہی بہت ہے، چاند کی کوئی اپنی روشنی نہیں ہے؟‘‘

    بڑی حیرت سے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے اس نے سوال کیا۔

    ’’بھیا آپ جھوٹ بولتے ہیں، وہ بھی اتنا جھوٹ! میرے ماسٹر صاحب کہتے ہیں کہ جھوٹ بولنا گناہ ہے۔ آپ اتنے دنوں تک تک گناہ کرتے رہے۔۔۔ایں ایس ۔۔۔‘‘ اور وہ آنکھیں ملتے ہوئے رونے کا بہانا کرکے بولا۔

    ’’بھیا، مجھے ایک روپیہ دیجئے، نہیں تو میں امی سے شکایت کر دوں گا کہ آپ جھوٹ بولتے ہیں۔ پھر آپ خوب مار کھائیں گے۔‘‘

    اور میں نے بات ٹالنے کے لیے کچھ پیسے دے دیئے تاکہ میاں سعید کا بناوٹی رونا بند ہو جائے اور یہ تاثر بھی قائم ہو جائے کہ میں اپنے بلاوجہ کے جھوٹ پر شرمندہ ہوں۔

    خیر میاں سعید اچھلتے کودتے امی کے پاس گئے اور فرمائش کی کہ امی آج پوری سبزی پکائیے۔ آج میرا بہت دل چاہ رہا ہے۔

    ادھر امی نے پوری سبزی پکانے کی تیاری شروع کی کہ ادھر میاں سعید بغیر بتائے کہیں غائب ہو گئے۔

    قریب ایک گھنٹہ کے بعد ایک بسکٹ کا بنڈل اور کچھ چاکلیٹ کے ساتھ آئے۔ سب لوگوں نے ناشتہ کیا۔ ناشتے کے بعد میاں سعید بولے۔

    ’’امی، آپ ناشتہ دان میں پوری رکھ دیجئے۔‘‘

    امی نے سوچا کہ شاید میاں پوری سبزی اپنے دوستوں کے لیے لے جائیں گے۔ اس لیے انہوں نے پوری سبزی ناشتے دان میں رکھ دی۔

    میاں سعید نے ناشتہ دان، بسکٹ کا بنڈل اور چاکلیٹ ایک پلاسٹک کی باسکٹ میں رکھی۔ کپڑے بدلے، جوتے پہنے، کنگھی کی، ایک ہاتھ میں باسکٹ سنبھالی اور دوسرے ہاتھ سے سلام کر کے یہ کہتے ہوئے چل پڑے۔

    ’’امی ٹاٹا، بھائی جان ٹاٹا، گڑیا ٹاٹا، میں چاند پر جا رہا ہوں۔‘‘

    اس پر امی نے حیرت سے پوچھا۔

    ’’خیریت تو ہے بیٹے! چاند پر کیا کرنے جا رہے ہو؟‘‘

    اس کے جواب میں سعید نے بڑے پر اعتماد لہجہ میں کہا۔

    ’’یہ دیکھنے کہ کہیں بھائی جان کی طرح ابو جان بھی تو چاند کے بارے میں جھوٹ نہیں بول رہے ہیں۔‘‘

    مأخذ:

    باتونی لڑکی (Pg. 58)

    • مصنف: رئیس صدیقی
      • ناشر: رئیس صدیقی
      • سن اشاعت: 2015

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے