Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ٹنکو

آغا اشرف

ٹنکو

آغا اشرف

MORE BYآغا اشرف

    راج محل ہوٹل شہر کا سب سے بڑا اور عالیشان ہوٹل تھا۔ اس کے ہر فرش پر بڑے قیمتی قالین بچھے تھے اور چھتوں میں خوشنما فانوس لٹکے ہوئے تھے۔ میز کرسیاں اور کھانے پینے کے برتن بھی بڑے صاف ستھرے اور اعلیٰ درجے کے تھے۔ ہر روز چار سے پانچ بجے کے درمیان وہاں شہر کے بڑے امیر لوگ چائے پینے آتے تھے۔ کیونکہ غریب لوگ تو اس ہوٹل میں جاہی نہیں سکتے تھے۔ اس ہوٹل کے بڑے ہال میں جہاں بڑے لوگ بیٹھ کر چائے پیتے تھے غل مچانا منع تھا اور نہ بدتمیزی کی کوئی بات کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ کیونکہ بڑے لوگ نہ تو غل مچانے کو اچھا سمجھتے تھے اور نہ کسی قسم کی بدتمیزی کو-

    اس ہوٹل میں بہت سے بیرے ملازم تھے جو الغو کے نیچے کام کرتے تھے کیونکہ وہ ان سب سے بڑا بیرا تھا۔

    ایک دن جبکہ ہوٹل کے بڑے ہال میں بڑے لوگ چائے پینے کے لئے جمع تھے۔ بیرے بڑی جلدی میں ادھر ادھر آجارہے تھے۔ مہمانوں سے آرڈر لے رہے تھے۔ چائے اور اس کے ساتھ کھانے پینے کی چیزیں میزوں پر لگا رہے تھے اور الغو ایک طرف دیکھ رہا تھا کہ کوئی بیرا اپنا کام سستی سے تو نہیں کررہا۔ مگر وہ سب اپنا اپنا کام ٹھیک ٹھیک کر رہے تھے۔ اچانک ایک طرف سے شور سنائی دیا اور ایک بڑی ہی بھونڈی آواز آئی:

    ’’اے بیرا! کیا میرے لئے چائے نہیں لاؤگے؟‘‘

    سب حیران ہو کر ادھر دیکھنے لگے کہ یہ کون ہے جو محفل کے آداب سے بھی واقف نہیں۔ جو یہ بھی نہیں جانتا، کہ تہذیب والے لوگوں میں بیٹھ کر ایسے نہیں کسی کو بلایا کرتے۔ اور پھر یہ دیکھ کر کہ وہ کون ہے، سب کے پاؤں میں ڈر سے جوتے ڈھیلے پڑ گئے۔ کانپتے ہوئے ہر کوئی اپنی اپنی کرسی میں دبک گیا۔ مرد بھی اور عورتیں بھی۔ الغو آنکھیں جھپکتے ہوئے بڑے غور سے ادھر دیکھ رہا تھا۔ کہ خدا کی زمین پر یہ کیا ہے یہ کون ہے؟ کھڑکی کے قریب میز پر ایک خوفناک کتّا بیٹھا تھا اور سفید رومال اس کی گردن سے بندھا تھا جو کوئی چیز کھاتے وقت استعمال کرتے ہیں۔ الغو غصے میں کھڑکی کی طرف بڑھا اور پوچھا:

    ’’تم کون ہو؟‘‘

    ’’اوہ، آداب عرض۔ مجھے خوشی ہے کہ تم کو میرا بھی کچھ خیال آیا۔ اب میں چائے کا آرڈر دے سکوں گا۔‘‘ کتّے نے کہا۔

    ’’میں پوچھتا ہوں تم کون ہو؟‘‘ الغو نے پھر وہی سوال کیا۔

    ’’اوہ! بھئی عجیب سوال ہے۔ کیا تم نہیں جانتے، میں ٹنکو ہوں۔ کتّوں کی نمائش میں دوبار خوبصورتی کا انعام لے چکا ہوں۔ اس شہر کا ہر شخص مجھ کو جانتا ہے۔ تم نہیں جانتے تو تمہیں خدا سمجھے۔‘‘

    ’’سمجھ گیا۔‘‘ الغو نےمسکرا کر کہا۔ ’’میں یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں ٹنکو صاحب یہاں کیوں تشریف لائے ہیں؟‘‘

    ’’دوپہر کی چائے میں ہمیشہ کسی اچھی جگہ پینا پسند کرتا ہوں۔ آج اتوار ہے، میں نے سوچا چلو آج اس شہر کے سب سے بڑے ہوٹل راج محل میں چل کر چائے پیتے ہیں۔ یہاں چلا آیا۔ اب تم جلدی سے چائے لاؤ۔ ہاں، بڑی تیز سی اور گرم گرم۔‘‘ ٹنکو نے کہا۔

    الغو اس کی باتیں سن کر پھر مسکرایا کہنے لگا۔ ’’ٹنکو صاحب، آپ یہاں سے تشریف لے جائیں۔‘‘

    ’’کیا مطلب؟‘‘ ٹنکو نے بڑے غور سے الغو کو دیکھتے ہوئے کہا۔

    ’’مطلب یہ ہے کہ یہاں بڑے لوگ چائے پینے آتے ہیں۔ ایک دم بڑے لوگ۔ جرنیل، کرنیل، لاکھوں پتی، کروڑ پتی، نواب، راجے، مہاراجے۔ تم ایسے چیڑقناتی کو تو اس ہوٹل میں گھسنے کی اجازت نہیں ہے۔ تم یہاں چائے پینا چاہتے ہو۔ عقل کا علاج کرواؤ‘‘

    ’’دیکھو جی زبان سنبھال کر بات کرو۔‘‘

    ٹنکو نے گرج کر کہا۔

    ’’آج تک کبھی کسی نے میری اس طرح ہتک نہیں کی۔ تم نے مجھے ایرا غیرا نتھو خیرا سمجھا ہے۔ جبکہ سب لوگ مجھے بڑا معزز سمجھتے ہیں۔ جہاں تک ہوں لوگ میرے ساتھ عزت سے پیش آتے ہیں۔ میں تم کو بتائے دیتا ہوں، اگر تم میرے لیے چائے نہ لائے تو اچھا نہ ہوگا۔‘‘

    ’’کیا اچھا نہ ہوگا۔‘‘ الغو نے ذرا تند لہجہ میں کہا:

    ’’کیا کروگے تم؟‘‘

    ’’میں اس قدر زور سے بھونکنا شروع کردوں گا کہ تم دیکھو گے پھر کیا ہوگا۔‘‘ ٹنکو نے کہا۔

    الغو حیران اور پریشان تھا کہ وہ ایسے مہمان کا کیا کرے۔ عجیب مہمان تھا۔ اس سے پہلے تو ایسا کوئی مہمان اس ہوٹل میں نہ آیا تھا۔

    الغو منہ میں بڑبڑاتا ہوا ایک طرف نکل گیا۔ وہ اب ٹنکو سے کوئی بات نہ کرنا چاہتا تھا۔

    یہ کیسے ہوسکتا تھا کہ وہ ایک کتّے کے آرڈر دینے پر اس کو چائے پیش کرے۔

    ٹنکو نے جب دیکھا کہ اس کا مذاق اڑایا گیا ہے اور اس کے آرڈر دینے پر بھی اس کو چائے پیش نہیں کی گئی تو وہ میز پر اگلی پچھلی ٹانگیں جوڑ کر لاؤڈسپیکر کی طرح بیٹھ گیا۔ اور پنا پورا منہ کھول دیا۔

    ’’بو۔۔۔ وو۔۔۔ وف۔۔۔!!

    اچانک ہال میں کانوں کا بہرہ کر دینے والی آواز گونجی۔ جیسے دل گرجتا ہے۔

    ہال کی دیواریں کانپ گئیں۔ چھت سے لٹکتا فانوس جھولنے لگا۔ جیسے بھونچال آگیا ہو۔

    چائے پیتے بڑے لوگ پریشان ہوگئے۔ یہ کیا بدتمیزی ہے۔ ایسی گڑبڑ اس سے پہلے کبھی اس ہوٹل میں نہ ہوئی تھی۔

    ایک میم صاحب اپنا ایک شیشے والا چشمہ آنکھ پر سے اتارتے ہوئے دروازے کی طرف بھاگیں۔

    ایک بہت موٹے صاحب نے دونوں ہاتھ اپنے کانوں پر رکھ لیے کہ گرج سے اس کے کان کے پردے نہ پھٹ جائیں۔

    ’’بو۔۔۔ وو۔۔۔ وف۔۔۔!!

    ٹنکو پھر گرجا۔

    ’’میرے لیے مکھن والے توس لاؤ ۔۔۔ووف۔۔۔وف۔۔۔ کیک پیس بھی لاؤ ۔۔۔ بھوں ۔۔۔۔بھوں۔۔۔عف۔۔۔ عف۔۔۔ چاکلیٹ بسکٹ بھی ۔۔۔ ووف۔۔۔ ووف۔۔۔ فل سیٹ چائے۔۔۔ چار ابلے ہوئے انڈے۔۔۔ ووف۔۔۔بو۔۔۔ وو۔۔۔ ووف۔۔۔ سموسے اگر ہوں تو وہ بھی لے آؤ۔۔۔ ووف۔۔۔ ووف۔۔۔انگور بھی لاؤ بھوں۔۔۔بھوں ۔۔۔سیف بھی، مگر کھٹے نہ ہوں۔اگر میرے دانت کھٹے ہوئے، تو میں کاٹنا شروع کردوں گا۔ پھر نہ کہنا میں نے کاٹ کھایا۔ بھوں۔۔۔ بھوں۔۔ عف۔۔۔ عف۔۔۔ بو۔۔۔ وو۔۔۔ووف۔۔۔ووف۔۔۔!!‘‘

    خدا کی پناہ۔ ٹنکو بری طرح بھونکے جارہا تھا۔ جیسے بادل گرج رہا ہو۔

    ہال میں بھگدر مچ گئی۔ بڑے لوگ پریشان ہوگئے۔ اگر اتنے میں الغو اور دوسرے بیرے نہ آجاتے، تو ہال میں قیامت آجاتی۔ انہوں نے طشتریوں میں وہ ساری چیزیں اٹھائی ہوئی تھیں، جن کا ٹنکو نے آرڈر دیا تھا۔

    ’’بھئی ٹنکو صاحب، خدا کے لئے اب چپ ہوجاؤ یہ لاؤڈسپیکر بند کرو۔ یہ دیکھو تمہاری پسند کی سب چیزیں حاضر ہیں۔‘‘

    ’’ہو۔۔۔ ہو۔۔۔ عف۔۔۔ ہف۔۔۔ ہف۔۔۔!‘‘ ٹنکو کو ہنسی آگئی۔

    سب چیزیں اس کے سامنے میز پر لگا دی گئیں۔

    اور پھر ٹنکو مزے مزے سے کھانے لگا۔

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے