Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ماڈرن کوا

حبیب ریتھ پوری

ماڈرن کوا

حبیب ریتھ پوری

MORE BYحبیب ریتھ پوری

    میری چھوٹی پوتی طلعت زریں خان جو نرسری میں پڑھتی ہے، اپنی تعلیم کی کارگزاری بیان کرتے ہوئے، اسی دن سیکھ کر آئی ہوئی ’’پیاسے کوے‘‘ کی کہانی سنا رہی تھی۔ میں نے اس سے کہا۔ ’’بیٹی! سائنس کے اصول کے مطابق ایسا نہیں ہوتا۔ اس میں تو صرف کوے کی عقلمندی ثابت کی گئی ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو لوگ کنویں میں پتھر ڈال دیتے اور پانی خود بخود اوپر آ جاتا۔ اس طرح لوگوں کو رسی اور ڈول سے پانی نکالنے کا جھنجھٹ نہ رہتا۔ میری یہ بات سن کر وہ ناراض ہو گئی۔ کیونکہ بچوں کے ذہنوں پر استاد کی باتوں کا بہت زیادہ اثر ہوتا ہے اور وہ ’مستند ہے ان کا فرمایا ہوا، کے زیر اثر ہوتے ہیں۔ اس لیے کسی دوسرے کی باتوں پر یقین نہیں کرتے اور نہ ہی قبول کرتے ہیں۔‘‘

    اس کی ناراضگی کم کرنے کے لیے میں نے اس سے کہا۔ تو آؤ۔ ایک تجربہ کرتے ہیں۔ وہ فوراً راضی ہو گئی۔ کانچ کا ایک صاف شفاف گلاس لانے کے لیے کہا۔ وہ دوڑ کر گئی اور گلاس لے آئی۔

    اس وقت بڑا پوتا احتشام اور بڑی پوتی عفت بھی وہاں آ گئے اور دونوں نےایک ساتھ کہا۔ ’’یہ تجربہ تو ہم بھی دیکھیں گے۔‘‘ توٹھیک ہے۔ جاؤ اور آنگن میں جو گٹی (ٹوٹے ہوئے پتھر جو عمارت کی تعمیر میں کام آتے ہیں۔) اٹھا لاؤ۔ دونوں بچے دوڑ کر گئے اور گٹی اٹھا لائے۔

    اب ہمارا تجربہ شروع ہوا۔

    میں نے کانچ کے گلاس میں تھوڑا پانی ڈالا اور بچوں سے پوچھاکہ! کوے کی چونچ کتنی لمبی ہوتی ہے۔ تینوں بچوں نے اپنی اپنی ایک انگلی گلاس میں ڈبوئی۔ آخر احتشام کی انگلی کی لمبائی پر فیصلہ ہو گیا۔ اب پھر سوال یہ تھا کہ! اگر کوے کی چونچ اتنی لمبی ہو سکتی ہے تو گلاس کے اندر کا پانی اور کم کرنا ہوگا اور جب احتشام کی انگلی پانی تک نہیں پہنچ سکی تو پھر تجربے کا اگلا حصہ شروع ہوا۔

    میں نے بچوں سے کہا۔ گلاس میں یہ گٹی کے کنکر ڈالو۔ تینوں نے ایک ایک کر کے کنکر ڈالنا شروع کیا۔ پہلے چند کنکر ڈالنے کے بعد تو پانی کی سطح کچھ بڑھتی دکھائی دی، مگر وہ اب بھی کوے کی چونچ یعنی احتشام کی انگلی سے نیچے ہی تھی اور گلاس کے اندر کے پانی کا رنگ گدلا ہونے لگا تھا۔ کیونکہ پتھر گرد آلود تھے۔

    پھر اور کنکر ڈالے گئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے آدھا گلاس کنکروں سے بھر گیا۔ پانی اور بھی زیادہ گدلا ہو گیا، مگر سب کو یہ دیکھ کر تعجب ہوا کہ پانی اوپر آنے کے بجائے کم ہوتا دکھائی دے رہا تھا۔

    آخر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ گلاس کنکروں سے پر ہو گیا اور پانی کہیں غائب ہو گیا۔ تب میں نے بچوں کو سمجھایا کہ پانی مائع ہے۔ اس لیے وہ پھیل گیا اور کنکر ٹھوس ہے اس لیے وہ ایک دوسرے پر ٹک کر اوپر آنے لگے۔ اس لیے وہ پانی ان کنکروں کے درمیان جو خالی جگہ ہے۔ اس میں پھیل گیا۔ اس لیے پانی میں کنکر ڈالے سے پانی اوپر نہیں آتا۔ بلکہ وہ کنکروں کے درمیان کی خالی جگہ میں پھیل جاتا ہے اور پھر یہ گرد آلود کنکر ڈالنے سے تو پانی بھی گدلا ہو گیا نا؟ ماڈرن کوا تو بڑی ہی نفاست پسند ہے۔ کیونکہ اب وہ شہر کی پوش کالونیوں میں رہنے والے انسانوں کے ساتھ رہتا ہے۔ اسی لیے اب یہ کہانی تو اس طرح ہونی چاہیے۔

    ایک تھا کوا۔ وہی کالا کلوٹا۔ مگر نئے زمانے کا۔ وہ شہر کی پوش کالونیوں میں لگے پیڑوں پر رہتا تھا، وہیں اپنا گھونسلہ بناتا اور وہاں کے مکینوں کی کالونیوں میں پیڑوں پر رہتا تھا اور وہاں کے مکینوں کی طرح نفاست پسند ہو گیا تھا۔ ایک دن کا ذکر ہے، گرمی کا موسم تھا۔ تیز دھوپ چمک رہی تھی۔ کوے کو پیاس لگی۔ وہ اپنے گھونسلے سے نکلا اور پانی تلاش کرنے لگا۔ وہ بہت مارا مارا پھرا، مگر اسے اچھا اور صاف ستھرا پانی نہیں ملا۔

    آخر ایک پارک میں اسے پانی کاگھڑا نظر آیا۔ وہ اتر کر اس گھڑے پر بیٹھا، مگر اتفاق سے اس گھڑے میں بھی پانی تھوڑا ہی تھا۔ اس لیے اس کی چونچ پانی تک نہیں پہنچ پائی۔ اسے اپنے اجداد کی کہانی یاد آ گئی۔ کہانی تو یاد آگئی۔ مگر طریقہ پسند نہیں آیا۔

    اس نے سوچا یہ گرد آلود کنکر پانی میں ڈالنے سے تو پانی گدلا اور گندہ ہو جائےگا۔ اسے یاد آیا کہ کالونی کے کولڈ ڈرنکس ہاؤس میں کالونی کے لوگ کولڈ ڈرنکس پیتے وقت ایک نلی کا استعمال کرتے ہیں۔ وہ وہاں سے اڑا اور کولڈ ڈرنکس کی دکان میں رکھے پائپ کے گلاس میں سے پھرتی سے ایک پائپ لے اڑا۔ وہاں بیٹھے لوگ اسے حیرت سے دیکھتے رہے۔

    پائپ لے کر وہ پھر پارک میں آیا۔ پائپ گھڑے میں ڈالا اور پھر آہستہ آہستہ پانی سپ کرنے لگا۔ اسے پیاس بجھانے کے ساتھ ساتھ پانی کا لطف بھی لینا تھا۔ اس نے آہستہ آہستہ خوب سیر ہو کر پانی پیا اور خوشی سے اڑ گیا۔

    (تینوں بچوں کو سائنس کا اصول اور کہانی کا یہ نیا روپ بےحد پسند آیا اور وہ خوشی سے تالیاں بجانے لگے۔)

    مأخذ:

    بچوں کا ماہنامہ امنگ (Pg. 35)

    • مصنف: ایس ایم علی
      • ناشر: اردو اکادمی دہلی
      • سن اشاعت: اپریل 2018

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے