aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مسکرانے والے ڈاکٹر

رؤف پاریکھ

مسکرانے والے ڈاکٹر

رؤف پاریکھ

MORE BYرؤف پاریکھ

    بچپن میں ہم جن چیزوں سے ڈرا کرتے تھے، ان میں کتے اور اندھیرے کے ساتھ چڑیل اور ڈاکٹر صاحب بھی شامل تھے۔ ڈاکٹر صاحب کی کڑوی کسیلی دواؤں اور گولیوں کے ساتھ جو چیز سب سے زیادہ ڈراتی تھی وہ تھی انجکشن۔ اسے ہم اپنے بچپن میں سوئی کہتے تھے۔ اتنا ڈر تو ہمیں بھی ماسٹر صاحب کے مولا بخش یعنی چھڑی سے بھی نہیں لگا جتنی ڈاکٹر صاحب کی سوئی دیکھ کر ہمیں کپکپی چڑھتی تھی۔

    ایک دفعہ بڑا دلچسپ واقع ہوا۔ ہوا یوں کہ ہم بیمار ہو گئے۔ (بیمار تو ہم بچپن میں اکثر ہو جاتے تھے، لیکن اسکول سے چھٹی پھر بھی نہیں کرتے تھے۔) اماں ہمیں لے کر ڈاکٹر صاحب کے پاس گئیں۔ نام تھا ان ڈاکٹر صاحب کا عبدالعزیز۔ بڑے رعب دار ڈاکٹر تھے۔ کبھی کبھا ہنسا کرتے تھے اور جب ہنستے تو زیادہ ڈراؤنے معلوم ہوتے۔ خیر، کافی انتظار کے بعد ہماری باری آئی۔ اماں نے ہماری بیماری کے بارے میں بتایا اور یہ بھی کہا کہ یہ دبلا بہت ہے۔ کوئی ایسی دوا دیجئے کہ یہ موٹا ہو جائے۔ ڈاکٹر صاحب نے یہ سن کر پیٹھ مور لی اور اللہ جانے کیا کرنے لگے البتہ ہمیں کچھ کچھ اندازہ تھا کہ ڈاکٹر صاحب جب منہ موڑ کر بیٹھ جاتے ہیں تو یہ سوئی لگانے کی تیاری ہوتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے منہ موڑے موڑے ہی کہا:

    ’’فوری طور پر موٹا ہونے کا ایک آسان طریقہ تو یہ ہے کہ ایک ساتھ بہت سارے کپڑے پہن لیے جائیں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ زور سے ہنسے اور مڑے اور ہنستے ہنستے ہاتھ ہماری طرف بڑھایا۔ ان کے دوسرے ہاتھ میں سوئی یعنی انجکشن بالکل تیار تھا، لیکن وہ ہمیں اس وقت سوئی نہیں بھالا نظر آ رہا تھا۔ لگتا تھا کہ ڈاکٹر صاحب کے ہاتھ میں تلوار ہے اور وہ ہماری گردن مارنے آ رہے ہیں۔

    لیکن ہم بھلا کہاں ان کے ہاتھ آنے والے تھے۔ ان کے پرانے سارے انجکشن ہمیں اچھی طرح یاد تھے۔ بس پھر کیا تھا۔ ہم تڑپ کر اچھلے۔ اچھل کر تڑپے۔ ڈاکٹر صاحب اور اماں نے ہمیں پکڑنے کی کوشش کی، لیکن ہم ان کے ہاتھ سے چکنی مچھلی کی طرح پھسل گئے اور آؤ دیکھا نہ تاؤ، سر پر پاؤں رکھ کر بھاگے۔ چیلیں بھی وہیں رہ گئیں۔

    جب ہوش آیا تو ہم اپنی نانی اماں کے گھر پہنچ چکے تھے۔ ہماری ننھیال ڈاکٹر صاحب کے کلینک سے قریب تھی۔ ہمارے دوماموں نانی اماں کے ساتھ رہا کرتے تھے۔ صحن میں ہمارے ماموں کے لڑکے اور لڑکیاں کھیل میں مصروف تھے۔ ہم نے انہیں سارا قصہ سنایا پھر نانی اماں کی طرف چلے اور بچے ایک جلوس کی صورت میں ہمارے پیچھے پیچھے۔ ایک بچہ بھاگ کر آگے گیا اور نانی اماں کو بتا دیا کہ رؤف ڈاکٹر کی سوئی سے بھاگ کر یہاں آ گیا ہے۔

    ہماری نانی، اللہ انہیں جنت نصیب کرے، ہم سے بہت پیار کیا کرتی تھیں۔ انہوں نے ہمیں اپنے پاس بٹھایا اور بولیں: ’’یہ امینہ (ہماری اماں کا نام) آجائے تو اسے ڈانٹتی ہوں۔ بچے کو ڈرا ڈرا کر ہلکان کر دیا ہے۔ ہاتھ پاؤں تو دیکھو برف کی طرح ٹھنڈے ہو رہے ہیں۔‘‘

    پھر ہمیں پانی پلوایا اور کہا کہ جاؤ کھیلو۔

    اب ہم نے خوشی کے مارے چھلانگیں مارنی شروع کر دیں اور اپنے ماموں زاد بھائی بہنوں کے لئے کھیلنے لگے۔ کچھ دیر بعد اماں بھی ہماری چپلیں ہاتھ میں اٹھائے ہمیں ڈھونڈتی ہوئی آ گئیں۔ انہیں بھی پتہ تھا کہ یہ اور کہاں جائےگا؟ ملا کی دوڑ مسجد تک۔ لیکن وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ مریض صاحب بچوں کے ساتھ کد کڑے لگا رہے ہیں، مگر اس سے پہلے کہ وہ ہمیں کچھ کہتیں نانی صاحبہ نے اپنا حکم سنا دیا:

    ’’اب یہ بالکل ٹھیک ہو گیا ہے۔ اسے کسی سوئی کی ضرورت نہیں۔‘‘

    اس طرح سوئی سے ہماری جان بچی اور لاکھوں پائے، لیکن ایک اور ڈاکٹر صاحب بھی تھے۔ ان کا حال بھی آپ کو سناتے ہیں۔ وہ بڑے ہوشیار تھے۔ جب کسی بچے کو سوئی لگانی ہوتی تو پہلے اپنے کمپاؤنڈر یعنی دوابنانے والے ملازم کو آواز دیتے اور اسے اشارہ کرتے۔ وہ بچوں کو اس طرح پکڑ لیتا جیسے قصائی بکروں کو ذبح کرنے سے پہلے جکڑتا ہے اور اس کے بعد ڈاکٹر صاحب بڑے اطمینان سے اپنا کام دکھا جاتے۔ یہ ڈاکٹر صاحب اپنے دواخانے کے بالکل سامنے ایک عمارت کی پہلی منزل پر رہتے تھے۔ جب کوئی مریض نہ ہوتا تو یہ خالی بیٹھ کر مکھیاں مارنے کے بجائے اپنے گھر چلے جاتے۔ جیسے ہی کوئی مریض آتا کمپاؤنڈر انہیں فوراً اطلاع دیتا۔ اطلاع دینے کا طریقہ بہت دلچسپ تھا۔ نہ کوئی آواز لگاتا نہ کسی کو کانوں کان خبر ہوتی۔ طریقہ یہ تھا کہ کمپاؤنڈر صاحب ایک چھوٹا سا آئینہ لے کر دھوپ میں کھڑے ہو جاتے اور اس کا عکس ڈاکٹر صاحب کے گھر کی کھڑکی پر ڈالتے۔ وہ فوراً سمجھ جاتے اور اسی حال میں یعنی دھاری دار پاجامہ پہنے ہوئے، چپل گھسیٹتے ہوئے، ہانپتے کانپتے تشریف لے آتے۔ کوئی ستر کے پیٹے میں ہوں گے۔ ہاتھ کانپتے تھے، لیکن انجکشن لگانے کے بہت شوقین تھے۔ مریض کو کوئی سی شکایت کیوں نہ ہو، انجکشن ضرور لگاتے تھے۔ بخار تو بڑی چیز ہے، نزلہ زکام اور کھانسی کا بھی کوئی مریض ان کے دواخانے سے سوئی لگوائے بغیر نہیں نکل سکا۔

    ہماری تو خیر جان ہی ان کا ذکر سن کر نکل جاتی تھی۔ اللہ کا کرنا کیا ہوا کہ کچھ عرصے بعد ان کا دواخانہ بند ہو گیا۔ جانے کہیں اور چلے گئے یا اللہ کو پیارے ہو گئے۔

    جب ہم کچھ برے ہو گئے تو ڈاکٹروں کے پاس اکیلے جانے لگے۔ آپ یہ نہ سمجھ لیجئےگا کہ ہمیں ڈاکٹروں کے پاس جانے کا بہت شوق تھا یا بیمار ہونا ہمارا مشغلہ تھا۔ بس یہ کہ ہمارے جسم کی گاڑی چلتے چلتے اچانک پنکچر ہو جاتی تھی۔ قبلہ حکیم محمد سعید صاحب یہ سطریں پڑھیں گے تو ضرور فرمائیں گے: ’’میاں پیٹ کو اناڑی کی بندوق کی طرح بھرنے کا یہی نتیجہ ہوتا ہے۔ اناب شناب کھانے سے بچو اور باقاعدگی سے ورزش کیا کرو۔‘‘

    ہمدرد نونہال میں ان کے مشورے پرھ کر ہم نے اپنی صحت ٹھیک کر لی ہے اور اب ہم بہت کم بیمار ہوتے ہیں۔ بس کبھی کبھار سال میں ایک دو دفعہ دفتر سے چھٹی کرنے کو جی چاہتا ہے تو ذرا سی بیمار کو بڑھا چڑھا کر بتاتے ہیں اور لیٹ جاتے ہیں۔ خیر، لیکن ابھی تو بچپن کا قصہ چل رہا تھا۔

    ہاں، تو کیا بات ہو رہی تھی؟ خوب یاد آیا! جب ہم ذرا بڑے ہوئے تو ڈاکٹر کے پاس اکیلے جانے لگے اور ایک ڈاکٹر ہم نے ایسی بھی ڈھونڈ نکالا جو سوئی لگاتا ہی نہ تھا۔ ہم بس اسی کے پاس جاتے تھے۔ نام تھا اس کا شیخ نذیر احمد۔ موصوف کی عادت تھی کہ دواخانے پہنچتے ہی ان سارے مریضوں کو ایک ساتھ اپنے کمرے میں بلا لیتے تھے جو ان کے منتظر ہوتے تھے۔ پھر دھڑا دھڑ نسخے لکھتے جاتے۔ نظریں کاغذ پر ہوتیں اور اس سے پہلے کہ مریض اپنا پورا حال بتائے ڈاکٹر صاحب نسخہ لکھ کر فارغ ہو جاتے اور ایک بری خوبصورت مسکراہٹ کے ساتھ فرماتے:

    ’’ٹھنڈا پانی مت پینا اور چاول، دہی اور کھٹا مت کھانا۔ بیس روپے۔‘‘

    اس کے بعد اگلے مریض کی طرف ہاتھ بڑھاتے اور انگلیاں اس کی نبض پر رکھ دیتے اور قلم کاغذ پر فراٹے بھرنے لگتا، لیکن آدمی بہت اچھے اور نیک تھے۔ سب سے مسکرا کر بات کرتے اور مریض چاہے کچھ بھی کہے مسکراتے رہتے اور چہرے پر ایک نورانی سا اطمینان نظر آتا۔ مرض چاہے کسی کو کچھ بھی ہو، اہر ایک کو ایک سی ڈھیروں اودی اودی، نیلی نیلی، پیلی پیلی گولیاں اور کیپسول دیتے۔ البتہ آدھا مرض تو ان کی مسکراہٹ سے جاتا رہتا اور باقی آدھا ایک وقت کی دوا سے۔

    ایک دن ہم نے ان سے کہا:

    ’’ڈاکٹر صاحب! پہلے میرا حال سن لیجئے پھر نسخہ لکھئےگا۔‘‘

    لیکن ان کا ہاتھ چلتا رہا اور مسکراہٹ بکھرتی رہی۔ جب انہوں نے نسخہ ہماری طرف بڑھایا تو اس سے پہلے وہ کچھ بولتے ہم نے کہا:

    ’’ٹھنڈا پانی نہیں پیوں گا اور چاول، دہی اور کھٹا نہیں کھاؤں گا۔‘‘

    جواب میں وہی پیاری سی مسکراہٹ ملی۔

    کاش دنیا کے سارے ڈاکٹر ایسے ہی ہو جائیں۔ مسکرانے والے، سوئی نہ لگانے لگے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے