aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

نینی تال کی ایک رات

احمد مشکور

نینی تال کی ایک رات

احمد مشکور

MORE BYاحمد مشکور

    (بچوں کی انجمن ادب اطفال لکھنؤ کا چھٹیوں کا کیمپ ہر سال گرمیوں میں کسی پہاڑی مقام پر لگتا ہے۔ اس سال کیمپ نینی تال کی خوبصورت فضا میں لگا۔ اس میں بچوں کا ڈاک خانہ، کو آپریٹیو سوسائٹی اور چاچا نہرو بینک بھی قائم ہوا۔ اس کیمپ کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ اس میں بچے ہی سارا کام کرتے ہیں۔ بچے ہی بینک میں روپیہ جمع کرتے ہیں نکالتے ہیں۔ بچے ہی ٹکٹ، پوسٹ کارڈ اور لفافے خریدتے اور فروخت کرتے ہیں۔ سارا نظام بچوں کے ننھے ننھے ہاتھوں میں ہوتا ہے جس سے ان کے اندر خود اعتمادگی اور ذمہ داری کا جذبہ پیدا ہوتا ہے)

    پہلا سین

    (ایسے ہی ایک کیمپ کی ایک رات کا ذکر ہے، اسٹیج پر عدالت کا منظر ہے جج کی کرسی پر ایک دس سال کا لڑکا جاویدؔ بیٹھا ہوا ہے۔ دو تین لڑکے وکیل کا لباس پہنے کچھ کاغذات کا مطالعہ کر رہے ہیں۔ اردلی جج کے پیچھے کھڑا ہے بہت سے لڑکے کرسیوں پر عدالت کی کارروائی سننے کے لئے بیٹھے ہوئے ہیں)

    جج: عدالت کی کارروائی شروع کی جائے۔

    اردلی: (زور سے پکارتا ہے)، انور اور رشید حاضر ہوں۔

    (اس کی آواز پر سپاہی کی وردی پہنے ہوئے لڑکا دو لڑکوں کو پکڑ کر لاتے ہیں اور ملزم کے کٹہرے میں کھڑا کر دیتے ہیں۔

    وکیل: (جھکتے ہوئے) مائی لارڈ! مدعی رشید کے چھ سو روپئے انورؔ نے اس وقت چرائے جب وہ ایک درخت کے نیچے سو رہا تھا۔

    جج: (رشید سے) کیا یہ صحیح ہے کہ ملزم انور نے تمہارے روپئے چرا لئے ہیں۔

    رشید: (تقریباً روتے ہوئے) جی حضور میں نے چھ سو روپے میں اپنے دو گھوڑے بیچے تھے اور اپنے گاؤں گوپال پور جاتے وقت درخت کے نیچے گھوڑے بیچ کر سو رہا تھا کہ ملزم انور نے میرے روپئے میری جیب سے نکال لئے۔

    جج: مگر تم گھوڑے بیچ کر کیوں سوئے، بیچنے سے پہلے مگر کیوں سوئے تاکہ چوری کا کوئی خطرہ ہی نہیں رہتا۔

    رشید: حضور میں نے کتابوں میں پڑھا تھا کہ لوگ گھوڑے بیچ کر سوتے ہیں، مجھے بھی بڑا شوق تھا کہ کسی دن گھوڑے بیچ کر سوؤں اور دیکھوں کہ کیا مزہ آتا ہے۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ گھوڑے بیچ کر سونے سے چوری ہو جاتی ہے۔

    جج: (مسکراتے ہوئے) ارے نادان! گھوڑے بیچ کر سونا تو ایک محاورہ ہے جس کے معنیٰ ہیں اطمینان کی گہری نیند سونا۔

    رشید: (گڑ گڑاتے ہوئے) حضور، ہمیں معلوم نہیں تھا، اس بار معاف کر دیا جائے، آئندہ کبھی ایسی غلطی نہیں کروں گا۔

    جج: (جاوید فیصلہ کے لئے قلم اٹھاتا ہے اور تھوڑی دیر سوچ کر لکھنے لگتا ہے اور پھر اپنا فیصلہ سناتا ہے)

    ملزم کو چوری کے جرم میں تین ماہ قید کی سزا دی جاتی ہے اور مدعی رشید کو حکم دیا جاتا ہے کہ آئندہ یا تو وہ گھوڑے بیچنے سے پہلے سویا کرے یا سونے کے بعد گھوڑے بیچا کرے۔

    دوسرا مقدمہ پیش ہو۔

    اردلی: (زور سے) ملزم انصاف حاضر ہو۔

    (سپاہی ایک لڑکے کو پکڑ کر لاتے ہیں اور ملزم کے کٹہرے میں کھڑا کر دیتے ہیں)

    وکیل: (کھڑا ہوتا ہے اور جھک کر ادب سے کہتا ہے) می لارڈ: اس لڑکے پر الزام ہے کہ اس نے دریا میں ڈوبتے ہوئے لڑکی کی جان بچائی۔

    جج: (مسکراکر پوچھتا ہے) مگر یہ جرم کیسے ہوا؟ جان بچانا تو ایک نیک کام ہے۔

    وکیل: حضور والا! دراصل میری بات ادھوری رہ گئی۔ اس لڑکے انصاف نے ڈوبتے ہوئے ایک لڑکے کو دریا سے نکالا اور پھر اسے دریا میں ڈال دیا۔

    جج: (حیرت سے) کیوں؟ ایسا کیوں کیا؟ لڑکے تم اپنی صفائی میں کچھ کہنا چاہتے ہو۔

    انصاف: حضور! اس میں میرا کوئی قصور نہیں ہے۔ میں نے کتابوں میں یہ نصیحت پڑھی تھی کہ نیکی کر، دریا میں ڈال۔ لہٰذا میں نے ڈوبتے ہوئے لڑکی کی جان بچا کر نیکی کی اور پھر اس کو دریا میں ڈال دیا۔

    جج: (ڈانٹتے ہوئے) بےوقوف نیکی کر دریا میں ڈال تو ایک محاور ہ ہے۔ وکیل صاحب آپ اسے محاورہ کا مطلب سمجھا دیجئے۔

    وکیل: اس کا مطلب ہے کہ نیکی کر کے کسی پر احسان نہ جتائیے بلکہ بھول جائیے۔

    انصاف: (گڑگڑاتے ہوئے) حضور مجھے معلوم نہیں تھا ورنہ میں اتنا بڑا گناہ کبھی نہیں کرتا۔ اس بار معاف کر دیا جائے آئندہ ایسی غلطی نہیں کروں گا۔

    جج: (فیصلہ سناتے ہوئے) چوں کی ملزم انصاف کو اردو کے اس محاورے کا مطلب معلوم نہیں تھا لہٰذا اسے اس شرط پر باعزت بری کیا جاتا ہے کہ ملزم آئندہ اپنی کتاب کے سارے محاوروں کے معنیٰ یاد کرےگا۔ تاکہ ایسی سنگین غلطی پھر نہ ہونے پائے۔ اگلا ملزم حاضر کیا جائے۔

    اردلی: (زور سے پکارتے ہوئے) ملزم جیند اور فیروز حاضر ہوں۔

    (سپاہی دو لڑکوں کو پکڑ کر لاتے ہیں اور ملزم کے کٹہرے میں کھڑا کر دیتے ہیں)

    وکیل: (کھڑے ہوکر اور ادب سے جھک کر کہتا ہے) می لارڈ! ملزم جنید اور فیروز کو ایک دوسرے کی آنکھیں پھوڑنے کی کوشش کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔

    جنید اور فیروز: (ایک ساتھ) یہ جھوٹ ہے جج صاحب۔ یہ سراسر الزام ہے۔ ہم نے ایسا نہیں کیا۔

    وکیل: تو پھر تم ہی بتاؤ کہ کیا ماجرہ تھا۔ پولس نے تمہیں کیوں گرفتار کیا ہے۔

    جنید: وکیل صاحب! ہم آنکھیں نہیں پھوڑ رہے تھے بلکہ ایک دوسرے کی آنکھوں میں ہم شہتیر اور تنکا ڈھونڈ رہے تھے۔

    جج: تو کیا تم لوگ ایک دوسرے کی آنکھ نہیں پھوڑ رہے تھے، جیسا کہ تم پر الزام ہے۔

    فیروز: نہیں جج صاحب! ہم بچے بھلا اتنا بڑا گناہ کر سکتے ہیں۔

    جج: تو تم آنکھوں میں تنکا اور شہتیر کیوں ڈھونڈ رہے تھے؟

    جنید: حضور! ہم نے کتاب میں پڑھا تھا کہ دوسروں کی آنکھ کا تنکا نظر آ جاتا ہے مگر اپنی آنکھ کی شہیتر نظر نہیں آتی۔

    مگر حضور جج صاحب! ہمیں تو سوائے ایک دوسرے کی تصویر کے کچھ نظر نہیں آیا۔

    جج: ارے بےوقوفو! یہ ایک محاورہ ہے، اس کا مطلب ہے کہ انسان کو خود اپنی بڑی سے بڑی خرابی نظر نہیں آتی مگر دوسروں کی چھوٹی سے چھوٹی برائی دکھائی دے جاتی ہے۔

    فیروز: (گڑگڑاتے ہوئے) جج صاحب ہمیں معاف کر دیا جائے ہم بے گناہ ہیں کیوں کہ ہمیں معلوم نہیں تھا کہ ایک محاورہ ہے۔

    جج: (فیصلہ سناتے ہوئے) ملزم جنید اور فیروز کو اس شرط پر بری کیا جاتا ہے کہ آئندہ وہ محاورے صحیح معنیٰ کے ساتھ یاد کیا کریں گے۔

    دوسرا سین

    (نینی تال کی ایک خوبصورت عمارت کا ایک وسیع کمرہ رات کا وقت ہے اور کمرے میں ایک ہلکی روشنی کا بلب جل رہا ہے۔ انجمن ادب اطفال بچے اس ہال نما کمرہ میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔سبھی بچے اپنے اپنے لحافوں میں دبکے ہوئے گہری نیند میں سو رہے ہیں۔ ان ہی بچوں میں جاوید بھی سو رہا ہے اچانک وہ چیخ مار کر اٹھ بیٹھتا ہے)

    جاوید: (نیند سے چیختے ہوئے) محاورے صحیح یاد کیا کرو۔ صحیح یاد کیا کرو۔

    (اس کی چیخ سن کر سارے بچے جاگ جاتے ہیں۔ جاوید کے پلنگ سے ملا ہوا انجمن جنرل سکریٹری عندلیب کا پلنگ ہے وہ چیخ سن کر اچھل کر اس کے پلنگ پر آ جاتے ہیں اور اسے گود میں لے کر جھنجھوڑتے ہوئے کہتے ہیں)

    عندلیب: جاوید جاوید ہوش میں آؤ کیا بات ہے؟

    جاوید: (کچھ کچھ ہوش میں آتے ہوئے) انکل انہوں نے غلط محاورے یاد میں کئے تھے۔ انکل بالکل غلط۔

    عندلیب: (کچھ نہ سمجھتے ہوئے) کس نے؟ کیسے محاورے؟

    جاوید: (پوری طرح ہوش آ جاتا ہے) آئی ایم ساری انکل میں عجیب و غریب خواب دیکھ رہا تھا۔

    عندلیب: (چونک کر) خواب دیکھ رہے تھے؟

    جاوید: ہاں انکل میں نے ایک بڑا پر لطف خواب دیکھا ہے۔

    بچوں کی عدالت ہے۔ میں جج ہوں۔ ایسے لڑکے کے ملزم کے طور پر میرے سامنے پیش ہوتے ہیں جو محاوروں کو ان کے لفظی معنی میں لے کر خطائیں کرتے ہیں۔

    انکل: ہمارے کیمپ میں سچ مچ کی بچوں کی عدالت لگنی چاہئے۔

    صدر : تمہاری خواہش کے مطابق اب آئندہ سال سے ہمارے کیمپ میں بچوں کے چاچا نہرو بینک، ڈاکٹ خانہ، کو آپریٹیو سوسائٹی، انشورنس کے علاوہ ’’بچوں کی عدالت‘‘ بھی لگا کرےگی۔

    سب بچے: ہپ ہپ ہرے ہپ ہپ ہرے

    (پردہ گرتا ہے)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے