Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ناراض کھمبا

اعظم طارق کوہستانی

ناراض کھمبا

اعظم طارق کوہستانی

MORE BYاعظم طارق کوہستانی

    اکثر کہانیوں کا آغاز کچھ یوں ہوتا ہے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی ملک میں ایک شہزادہ رہتا تھا۔ لیکن ہماری کہانی میں ایک دفعہ کا ذکر ہے تو آئے گا لیکن شہزادے کا ذکر ہر گز نہیں ہے۔ چلیں ہم کہانی شروع کرتے ہیں۔ آپ دیکھ لیجیے کہ اس میں آخر کس بلا کا ذکر ہے۔

    ایک دفعہ کا ذکر ہے۔ لائٹ ہاؤس کے قریب ساحل پر روشنی کے کھمبے ایک قطار میں لگے ہوئے تھے۔ یہ بیس کے قریب خوبصورت کھمبے تھے۔ جن کے سر پر خوبصورت بلب لگے ہوئے تھے۔ لیکن اس میں ایک کھمبا خوش نہیں تھا۔ وہ اداس اداس رہتا تھا۔ اس کے اداس رہنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ سمجھتا تھا کہ وہ بہت اہم ہے لیکن کوئی اسے اہمیت نہیں دیتا۔ وہ لائٹ ہاؤس کی طرح نمایاں ہونا چاہتا تھا لیکن ایسا بھلا کیسے ممکن تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ وہ بھی لوگوں کو راستہ دکھائے، ان کی رہنمائی کرے مگر افسوس وہ صرف ایک بجلی کا کھمبا تھا جو اگر نہ بھی جلتا تو زیادہ فرق نہیں پڑتا کیونکہ باقی کھمبوں کی روشنی کافی تھی۔

    پھر ہوا یوں کہ ایک دن زور کی بارش ہوئی۔ بارش تیز اور پھر تیزترہوتی چلی گئی۔ تمام کھمبوں کی روشنی پانی بہا کر لے گیا۔ ساحل پر ایک وجہ گھپ اندھیرا چھا گیا۔

    ناراض کھمبے نے دیکھا کہ دورایک جہاز ساحل کی طرف بڑھ رہا ہے۔

    ’’اف یہ کیا!؟‘‘ کھمبے نے خوف سے سوچا۔

    لائٹ ہاؤس کی بجلی چلی گئی۔ اب ہر طرف اندھیرا تھا۔ نزدیک اور دور تک چٹانیں تھیں۔ اگر کھمبے نہ جلے اور لائٹ ہاؤس بھی بند رہے تو اس کا مطلب ہے جہاز کی تباہی یقینی ہے۔

    جہاز میں ایک پرسکون ماحول تھا۔ کیپٹن سمیت جہاز کے کسی ملاح کو چٹانیں نظر نہیں آرہی تھیں۔ وہ بے فکر ہو کر مسلسل چٹانوں کی طرف بڑھے چلے جارہے تھے۔ ناراض کھمبے نے سوچا کہ جو کرنا ہے آج بلکہ ابھی کرنا ہے۔ اگر آج وہ بھی اوروں کی طرح بجھ گیا تو اس حادثے کا ذمہ دار وہ بھی ہوگا۔

    ناراض کھمبے نے ایک جھرجھری لی۔ اپنی ساری قوت لگا کر اس نے اپنی روشنی بحال کرنا شروع کی۔

    روشنی جلتی اور پھر بجھ جاتی۔ ’’اے اﷲ! آج اس کو روشن کر دے تاکہ میں لوگوں کی رہنمائی کرسکوں۔ ان کی جانیں بچا سکوں۔‘‘

    ناراض کھمبا گڑگڑایا اور پھر اس نے اپنی پوری قوت جمع کرکے خود کو ایک زور کا جھٹکا لگایا۔ اف! ایک حیرت انگیز بات ہوئی۔ کھمبے کا بلب پوری آب و تاب کے ساتھ چمکنے لگا۔ اس کی چمک غیر معمولی طور پر آج زیادہ لگ رہی تھی۔ اس کی وجہ تو یہ تھی کہ ناراض کھمبے کے سوا کوئی کھمبا نہیں جل رہا تھا۔ حتیٰ کہ لائٹ ہاؤس کی کوئی بھی روشنی نظر نہیں آرہی تھی۔

    جہاز کے کیپٹن نے دور ایک روشنی کو جلتے بجھتے اور پھر تیز روشن ہوتے دیکھا تو اس کی خوف سے چیخ نکل گئی۔ جہاز چٹانوں کے بے حد قریب تھا۔ جہاز میں ہلچل مچ گئی۔ پورے جہاز پر افراتفری برپا ہوگئی تھی۔ کیپٹن نے فوراً جہاز کو موڑنے کا حکم دیا۔ جہاز ۱۸۰ ڈگری پر موڑ دیا گیا۔ جہاز کے عملے کو خوب جان لگانی پڑی لیکن بالآخر کیپٹن نے اس روشنی کی بدولت اپنے جہاز کو بچا لیا۔

    اگلے دن کیپٹن اس ناراض کھمبے کے پاس آیا۔ وہ اس کھمبے کا بے حد مشکور تھا۔ اگر کل رات سب کی طرح وہ بھی بجھا رہتا تو بڑی مشکل پیش آتی۔ ہوسکتا تھا کہ جہاز تباہ ہوجاتا اور کئی لوگ مارے جاتے۔

    کیپٹن اپنے ساتھ ایک تختی لے کر آیا تھا۔ جس پر لکھا تھا:

    معتمد لائٹ ہاؤس، خصوصی تعیناتی۔

    ناراض کھمبے کو یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ اتنے بڑے اعزاز کا مستحق ٹھہرایا جائے گا۔ وہ خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا۔ فخر سے اس کا سینہ آگے نکل آیا۔ اس نے مڑ کر اپنے دوست کھمبوں پر نگاہ ڈالی۔ وہاں رشک جھلک رہا تھا اور انھیں فخر تھا کہ ان کے ساتھی نے انسانوں کی جان بچائی۔ سب نے ناراض کھمبے کو مبارکباد دی۔

    اور ہاں۔۔۔ اب ناراض کا لفظ کھمبے کے نام سے ہٹ گیا ہے۔ اب سب اسے خوش باش کھمبا بلاتے ہیں۔ اور اب وہ بھی اپنے اس نام سے خوش ہو کر گنگناتا رہتا ہے۔

    میں ہوں اک خوش باش کھمبا

    میرا قد ہے سب سے لمبا

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے