Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پیٹو میاں

ایم ایس ناز

پیٹو میاں

ایم ایس ناز

MORE BYایم ایس ناز

    جاجی کا اصلی نام تو کسی کو معلوم نہیں، البتہ سب اسے پیٹو میاں کہتے تھے۔ پیٹو بھی ایسے کہ سارا باورچی خانہ چٹ کر کے بھی شور مچاتے تھے۔ ’’ہائے میں کئی دنوں سے بھوکا ہوں اور کمزور ہو رہا ہوں، کوئی بھی مجھ غریب پر ترس نہیں کھاتا۔‘‘ اور امی جھٹ سے اس کے آگے مختلف چیزیں رکھ دیتیں مگر وہ ضد کر کے کہتے۔ ’’میں تو چینی کھاؤں گا۔‘‘ کھا کھا کے پیٹو میاں تو پھول کر کپّا ہو چکے تھے۔ ان کی ڈیڑھ من وزنی توند تو چینی کی بوری معلوم ہوتی تھی۔ پھر لباس میں نیکر پہن لیتے اور سر پر پٹھانوں جیسی ٹوپی۔ اکثر دیکھا گیا کہ ان کی جیب میں چوری کے بسکٹ ہوتے اور وہ ٹھٹھرتی سردی میں کوٹ پہنے بڑے مزے سے قُلفی کھوئے ملائی والی کھا رہے ہوتے۔ قریب سے آم پاپڑ بیچنے والا گزر رہا ہوتا، تو اسے بھی آواز دے کر ٹھہرا لیتے اور پھر سب کچھ کھا پی کے بھی باورچی خانے میں آ دھمکتے اور کہتے ’’ہائے امی، بڑی سخت بھوک لگی ہوئی ہے۔ بس چینی کا ایک پراٹھا پکا دیجئے نا!‘‘ مزے کی بات تو یہ تھی کہ چینی کا پراٹھا بھی چینی کے ساتھ کھاتے اور ساتھ ساتھ میٹھا شربت پیتے جاتے۔

    پیٹو میاں کی عمر تیرہ سال تھی۔ وہ آٹھویں جماعت میں پڑھتے تھے۔ گھر سے اسکول جاتے اور ہفتے میں دو ایک بار سکول جانے کی بجائے راستے ہی میں نو دو گیارہ ہوجاتے۔ بلو اور کاکا کو ساتھ لیتے اور سیدھے باغ میں، غلیل سے چڑیوں کا شکار کرنے پہنچ جاتے۔ بیچاری چڑیوں کو بھون بھون کر کھانے میں انہیں خدا جانے کیا لطف آتا تھا۔

    پیٹو میاں کو اپنے نام سے بہت چڑ تھی۔ جب کوئی انہیں پیٹو میاں کہہ کر بلاتا، اس سے ناراض ہوجاتے اور بعض اوقات لڑنے جھگڑنے اور مرنے مارنے پر اتر آتے۔ پھر خود ہی روتے ہوئے امی کے پاس چلے آتے اور کہتے ’’میں تو صرف آٹھ دس روٹیاں، بسکٹ کے تین چار ڈبے، ٹافیوں کا ایک عدد پیکٹ اور زیادہ سے زیادہ سالن کی آدھی دیگچی کھاتا ہوں۔ اس کے باوجود سب مجھے پیٹو کہہ کر چھیڑتے ہیں۔‘‘ امی، پیٹو میاں کا پیار سے منہ چومنے لگتیں اور کہتیں۔ ’’بڑے گندے ہیں وہ لوگ، جو میرے لعل کو پیٹو چھیڑتے ہیں۔ وہ تو میرے جاجی کو نظر لگا دیں گے۔‘‘

    امی کے اس پیار پر پیٹو میاں معصوم نظروں سے سوال کرتے۔ ’’بڑی بھوک لگی ہوئی، امی، بس چینی کا ایک پراٹھا پکا دیجئے۔‘‘ اور اس طرح دن میں انہیں کئی بار چینی کا پراٹھا کھانے کو مل جاتا۔ ابا جان انہیں منع کرتے کہ چینی زیادہ نہ کھایا کرو، بیمار ہو جاؤگے۔ مگر پیٹو میاں سنی ان سنی کر دیتے اور جواب میں کہتے، ’’چین کے لوگ بھی تو چینی کھاتے ہیں، وہ کیوں بیمار نہیں ہوتے؟‘‘ زیادہ کھانے کی وجہ سے پیٹو میاں کو کلاس میں بیٹھے بیٹھے نیند آجاتی۔ وہ خرّاٹے لینے لگتے تو سارے لڑکے ہنسنے لگتے۔ ماسٹر جی کی بھی ہنسی نکل آتی اور پیٹو میاں گھر آکر امی، ابا سے کہتے کہ اسکول کے لڑکے ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔ امی نے ایک دن کہا کہ تم دن بہ دن موٹے ہوتے جارہے ہو، کھیلا کودا کرو، ٹھیک ہوجاگے۔ پیٹو میاں کی سمجھ میں یہ بات تو آگئی، مگر انہوں نے بار بار کھانے کی عادت کو ترک نہ کیا اور وہ پیٹو کے پیٹو رہے۔

    ایک اتوار، پیٹو میاں کے ابّا نے گھر میں اپنے دوستوں کو ایک دعوت پر بلایا۔ وہ ہفتے کی رات ہی مٹھائی لے آئے تھے۔ یہ مٹھائی باورچی خانے کی الماری میں رکھی ہوئی تھی۔ پیٹو میاں کو اس کا علم ہو گیا۔ رات کے وقت جب سب میٹھی نیند سوئے ہوئے تھے، پیٹو میاں آرام سے بستر سے اٹھے اور سیدھے باورچی خانے میں پہنچ گئے۔ بتی بھی نہ جلائی کہ کہیں چوری نہ پکڑی جائے۔ انہوں نے جلدی جلدی میں پہلے برفی پر ہاتھ صاف کیے، پھر لڈو اور بالوشاہی کھائے۔ اسی دوران میں صابن کا ایک ٹکڑا بھی ہاتھ لگ گیا۔ پیٹو میاں اسے برفی سمجھ کر نگل گئے۔ جب انہیں تسلی ہوگئی کہ کلو بھر مٹھائی چٹ ہوگئی ہے، تو چپکے سے دوبارہ بستر پر آکر لیٹ گئے۔ ابھی آنکھ نہ لگی تھی کہ ان کی طبیعت خراب ہونے لگی۔ پیٹ میں کچھ درد محسوس ہونے لگا۔ اور پھر ایک ایسی قے آئی کہ گھر کے سب لوگ جاگ پڑے۔ ابّا باورچی خانے سے ہاضمے کا چورن لینے گئے، تو مٹھائی کا ڈبہ خالی پڑا تھا۔ وہ ساری بات سمجھ گئے۔ پیٹو میاں کے پاس آکر پوچھنے لگے، تو انہوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ میں نے مٹھائی کھائی ہے۔ پیٹو میاں ہاضمے کے چورن سے ٹھیک نہ ہوسکے، رات بھر ان کی طبیعت خراب رہی۔ صبح ہوتے ہی ڈاکٹر کو بلایا گیا، تو پتہ چلا کہ پیٹو میاں کہیں اندھیرے میں مٹھائی کے ساتھ صابن بھی کھا گئے ہیں۔ پیٹو میاں نے یہ سنا تو زور زور سے چلانا شروع کردیا۔ ’’مجھے بچاؤ، میں کبھی چوری کی مٹھائی نہ کھاؤں گا۔‘‘ اس کے بعد انہوں نے اللہ سے دعا مانگی۔ انہیں چند روز میں آرام آگیا، اور انہوں نے چوری سے توبہ کر لی۔ پھر ایک روز پیٹو میاں دوستوں کے ساتھ چڑیوں کے شکار کو گئے، تو ایک مداری کا بھالو رسی تڑوا کر باغ میں پہنچ گیا۔ پیٹو میاں کے کچھ دوست تو بھاگ گئے اور باقی درخت پر چڑھ گئے۔ اب پیٹو میاں کی شامت آگئی۔ وہ درخت پر چڑھ نہ سکے۔ ان سے دوڑا بھی نہ جارہا تھا۔ وہ ہانپتے کانپتے ایک جھاڑی کے پیچھے چھپ گئے۔ اتنے میں لوگوں کا شور سنائی دیا۔ ’’دوڑو، پکڑو، جانے نہ پائے۔‘‘ پھر بندوق چلنے کی آواز آئی۔

    پیٹو میاں نے جھاڑی کی اوٹ سے جھانکا، تو بھالو زخمی ہو کر زمین پر پڑا تڑپ رہا تھا۔ پیٹو میاں اکڑفوں دکھاتے ہوئے جھاڑی سے باہر نکلے۔ اس وقت تک بہت سے لوگ وہاں پہنچ چکے تھے۔

    ’’جان بچی، سو لاکھوں پائے‘‘ پیٹو میاں نے اللہ کا پھر شکر ادا کیا۔ گھر آکر نمازی پڑھی اور لگے دعائیں کرنے، ’’یا مولا، میرے موٹے پیٹ پر رحم کر‘‘ امی، پیٹو میاں کی زبانی یہ دعا سن کر ٹھہر گئیں اور بولیں: ’’تم اگر وعدہ کرو کہ کم کھایا کروگے، تو تمہاری دعا ضرور قبول ہوگی۔‘‘

    پیٹو میاں نے مصلے پر بیٹھ کر وعدہ کیا کہ وہ آئندہ سے بدپرہیزی نہیں کریں گے۔‘‘

    وہ دن اور آج کا دن، پیٹو میاں اسکول سے کبھی نہیں بھاگے اور نہ ہی چڑیوں کا شکار کرنے جاتے ہیں، کم کھاتے ہیں اور کم بولتے ہیں، جھوٹ نہیں بولتے اور نہ ہی سکول سے چھٹی کرتے ہیں۔ صبح سویرے اٹھتے ہیں۔ نماز پڑھتے ہیں اور یہ دعا ضرور مانگتے ہیں کہ ’’اللہ میاں میرے پیٹ کو چھوٹا کردے۔‘‘

    سنا ہے کہ پیٹو میاں کی دعا ابھی تک قبول نہیں ہوئی۔

    ان دنوں پیٹو میاں ہر وقت یہ نظم گاتے رہتے ہیں؎

    توبہ توبہ دہائی

    میں نہیں ہوں پیٹو بھائی

    ہردم چرنا کام تھا میرا

    اب کھاتا ہوں بس دودھ ملائی

    لیکن پھر بھی حال وہی ہے

    ڈھنگ وہی ہے چال وہی ہے

    پیٹو میاں ویسے کے ویسے ہی ہیں۔ آج کل انہیں یہ غم کھائے جارہا ہے کہ میں موٹا ہوں۔ اسی غم میں وہ اور بھی موٹے ہوتے جارہے ہیں۔

    مأخذ:

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے