Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پھو پھو کی شادی

شاہ تاج خان

پھو پھو کی شادی

شاہ تاج خان

MORE BYشاہ تاج خان

    ”امّاں۔۔!کیا آپ کو معلوم ہے کہ آج کیا خاص دن ہے؟“عابد نے اسکول سے آتے ہی اپنی امّی سے سوال کیا۔جو باورچی خانہ میں کھانا بنانے میں مصروف تھیں۔انہوں نے کچھ سوچتے ہوئے کہا

    ”آج تو کسی کا یومِ پیدائش بھی نہیں ہے۔۔۸ مئی کو ایسا کیا خاص ہے جو میں بھول گئی ہوں۔۔؟“انہوں نے دیوار پر لگے کیلینڈر کو غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔جو انہیں ہر روز یاد دلاتا تھا کہ آج کیا خاص ہے۔۔لیکن آج کیلینڈر کچھ نہیں دکھا رہا تھا۔عابد کی امّی کیلینڈر آتے ہی سب سے پہلے پورے سال کے خاص دنوں پر نشان لگا کر اُس پر رنگین پین سے لکھ دیا کرتی تھیں اور پھر تمام معلومات کے ساتھ باورچی خانہ کی سب سے خاص دیوار پر وہ کیلینڈر لٹکا رہتا تھا۔عابد اُس کیلینڈر کو ”ایلیکسا(elexa)“کہا کرتا تھا۔

    ”آج یو مِ تھیلسیمیا(thalassemia) ہے۔یہ آپ کے ایلیکسا پر نشان زد نہیں ہے۔“عابد نے مسکراتے ہوئے کہا

    ”ارے یہ کیا دن ہے؟ہر روز کوئی خاص دن کی معلومات لے کر آتے ہو۔میرے کیلینڈر میں اتنی جگہ نہیں ہے۔اتنا کچھ لکھوں گی تو نمایاں کیسے نظر آئے گا؟“عابد کی امّی نے کہا

    ”امّاں!پھوپھو کی شادی کے تعلق سے یہ دن اہم ہے۔“عابد نے کہا

    ”ایسا کیا ہے آج؟“عابد کی امّاں نے سب کام چھوڑ کر عابد سے پوچھا۔وہ اب کچھ پریشان ہونے لگی تھیں۔

    ”امّاں!کیا پھوپھو کا تھیلسیمیا کا ٹیسٹ کرایا ہے؟اگلے ہفتہ اُن کی شادی ہے نا!“عابد نے کہا

    ”بھئی یہ کیا ہے؟اس کی کیا ضرورت ہے؟یہ نئی بات کہاں سے سیکھ آئے؟شادی اور خون کے ٹیسٹ کا کیا تعلق؟ابھی میں بہت مصروف ہوں۔دسترخوان بچھائیے،میں کھانا لاتی ہوں۔۔وہیں پر بات کریں گے۔“عابد کی امّی نے اُسے ٹالتے ہوئے کہا۔عابد منہ لٹکائے باورچی خانہ سے باہر نکلا تو غزالی نے اُس کے لٹکے ہوئے چہرے کو دیکھ کر پوچھا

    ”کیوں ہیرو!یہ چہرہ اتنا مرجھایا ہوا کیوں ہے؟کیا ہوا؟کسی نے کچھ کہا ہے؟“عابد کی غزالی پھوپھو نے اسے اپنے پاس بٹھاتے ہوئے پیار سے پوچھا

    ”پھوپھو!امّاں تو میری بات سمجھ ہی نہیں رہی ہیں۔کیا آپ میری بات سنیں گی؟“عابد نے پھوپھو سے پوچھا

    ”جی!مجھے بتائیے کہ کیا مسئلہ ہے؟“غزالی پھوپھو نے عابد کو بہلاتے ہوئے کہا

    ”پھوپھو!آج ہمارے اسکول میں ایک ڈاکٹر صاحب آئے تھے۔انہوں نے ہمیں تھیلسیمیا بیماری کے بارے میں بہت سی باتیں بتائیں۔مجھے زیادہ تو یاد نہیں لیکن یہ یاد رہ گیا کہ یہ بہت خطرناک بیماری ہے۔لیکن اس سے بچنے کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ شادی سے پہلے لڑکا اور لڑکی کا تھیلسیمیا ٹیست کرایا جائے۔میں امّاں سے یہی پوچھ رہا تھا کہ پھوپھو کا تھیلسیمیا کا ٹیسٹ کرایا یا نہیں؟وہ میری بات پر دھیان ہی نہیں دے رہی ہیں۔“عابد نے تفصیل سے بتایا

    ”ہائے میرا بچہ!پھوپھو کا کتنا خیال ہے۔میں آپ کی امّی اور دادی سے بھی بات کروں گی۔اور اپنی تھیلیسیمیا کی جانچ بھی ضرور کراؤں گی۔اب خوش!“غزالی پھوپھو نے عابد کو گدگداتے ہوئے کہا

    غزالی کو تھیلیسیمیا کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا۔اس لئے سب سے پہلے اُس نے اپنے لیپ ٹاپ پر تھیلسیمیا کے بارے میں سرچ کیا اور بیماری کے بارے میں پڑھتے ہی اُس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔غزالی نے پاس بیٹھے اپنے بھتیجے کو گلے لگا لیا

    ”آج پھوپھو کو اپنے بھتیجے پر بڑا پیار آرہا ہے!کیا بات ہے۔۔یہ رشتہ ہمیشہ ایسا ہی رہے۔“کمرے میں داخل ہوتے ہوئے عابد کی دادی نے ڈھیروں دعائیں دے ڈالیں

    ”امّی!آج عابد نے جس بات کی طرف توجہ دلائی ہے۔اُس کے بارے میں شاید ہم میں سے کسی کو بھی کچھ معلوم نہیں ہے۔“پاس بیٹھا عابد خوش ہو رہا تھا لیکن وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ پھوپھو اُس کی تعریف کیوں کر رہی ہیں۔وہ سوچ رہا تھا کہ پھوپھو تو ہر وقت میری تعریف ہی کرتی رہتی ہیں۔تبھی دادی نے پوچھا

    ”پہیلیاں کیوں بجھا رہی ہیں۔مجھے بھی بات بتائیے۔“تب تک کھانا لے کر عابد کی امّی بھی وہاں پہنچ گئیں۔دستر خوان کسی نے بچھایا نہیں تھا یہ دیکھ کر وہ بولیں

    ”سب یہاں موجود ہیں۔۔چلئے جلدی سے دسترخوان بچھائیے مجھے تو بہت بھوک لگی ہے۔۔“کسی نے ان کی بات کی طرف دھیان نہیں دیا تو انہوں نے پوچھا

    ”کیا ہوا؟سب خیریت تو ہے؟“وہ اچانک پریشان ہو کر بولیں تو عابد کی پھوپھو نے کہا

    ”نہیں کوئی خاص بات نہیں ہے۔چلو سب کھانا کھاتے ہیں۔آج تو عابد کی پسند کے کریلے بنے ہیں!“کھانا کھانے کے بعد غزالی پھوپھو نے عابد سے کہا

    ”اب آپ اپنے کمرے میں جاکر آرام کرئیے۔“عابد کے وہاں سے جانے کے بعد غزالی نے کہا

    ”امّی!آج جس بیماری کا ذکر عابد نے کیا ہے وہ بے حد خطرناک ہے۔وہ خون کی جانچ کی جوبات کہہ رہا ہے وہ بھی درست ہے۔تھیلسیمیا کا کوئی علاج نہیں ہے اور ہے بھی۔“عابد کی امّی نے کہا

    ”ہوں۔۔یہ ایسی کون سی بیماری ہے۔آج اسکول سے آتے ہی عابد مجھ سے غزالی کے خون کی جانچ کے بارے میں پوچھ رہا تھا۔میں نے اُس کی بات پر خاص توجہ نہیں دی۔وہ کسی خاص دن کے بارے میں بھی کہہ رہا تھا۔“غزالی نے کہا

    ”جی بھابھی۔۔آج یو مِ تھیلسیمیا ہے۔یہ بہت خطرناک بیماری ہے۔“دادی بہت دیر سے سُن رہی تھیں انہوں نے کہا

    ”ایسی کیا خطرناک بیماری ہے۔۔میں نے تو آج تک اس کا نام بھی نہیں سنا۔۔“غزالی نے بتانا شروع کیا

    ”تھیلسیمیا ایک موروثی بیماری ہے۔یہ والدین سے مورثہ،کونیہ (جین (geneکے ذریعے بچوں میں منتقل ہوتی ہے۔میں نے جب اس کی تفصیل گوگل پر پڑھی تو میں حیران رہ گئی۔امّی۔۔میں نے جیسے ہی اس بیماری کے بارے میں جانا تو مجھے شہزادی آپی کے بیٹے کا خیال آیا۔جس کا چھ ماہ کی عمر میں اچانک انتقال ہوگیا تھا۔ہو سکتا ہے اُسے بھی یہی تھیلسیمیا کی بیماری رہی ہو!“دادی نے کہا

    ”آخر یہ بیماری ہے کیا یہ تو بتاؤ۔اور اس کا خون کی جانچ سے کیا تعلق؟“

    ”اگر میری رپورٹ میں تھیلسیمیا کی نشاندہی ہوتی ہے تب یہ مسئلہ بن سکتا ہے۔“دادی نے فوراً کہا

    ”اللہ نا کرے!آپ تو پوری طرح صحت مند ہیں۔“

    ”یہی تو اس بیماری کا مسئلہ ہے۔اگر مجھے تھیلسیمیاہے تو میں تھیلسیمیا مائنر یا تھیلسیمیا کرئیر ہوں۔تھیلسیمیا مائنر افراد نارمل زندگی گزارتے ہیں۔انہیں اس بات کا علم بھی نہیں ہوتا کہ اُن کی جین میں کوئی نقص ہے۔اور یہی لاعلمی شادی کے بعد ان کے یہاں پیدا ہونے والے بچوں کے لیے خطرہ بن جاتی ہے۔“غزالی نے سمجھاتے ہوئے کہا

    ”تو کیا تھیلسیمیا مائنر شادی نہیں کر سکتے؟“عابد کی امّی نے پوچھا

    ”ایسا نہیں ہے۔اگر لڑکا اور لڑکی میں سے ایک تھیلسیمیا مائنر ہے تو کوئی خطرہ نہیں۔“دادی نے فوراًپوچھا

    ”مجھے تمہاری بات پوری طرح سمجھ نہیں آئی۔بیماری ہونے کے بعد بھی خطرہ کیوں نہیں ہے؟“غزالی نے کہا

    ”اگر لڑکا اور لڑکی میں سے ایک کو یہ بیماری ہے تو بے فکر ہو جائیے۔لیکن،اگر دونوں ہی تھیلسیمیا مائنر ہیں تو اُن افراد کو آپس میں شادی کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔ایسی صورت میں اُن کے یہاں ہونے والی اولاد تھیلسیمیا میجر ہوسکتی ہے!“عابد کی امّی نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا

    ”غزالی،ابھی آپ نے کہا کہ ہوسکتی ہے۔کیابچے نارمل بھی پیدا ہو سکتے ہیں؟“

    ”جی بھابھی۔میں نے جس ریسرچ پیپر کو ابھی پڑھا اُس میں لکھا ہے کہ 25فیصد خطرہ ہوتا ہے کہ پیدا ہونے والا بچہ تھیلسیمیا میجر ہو۔“

    دادی نے کہا

    ”اس بیماری میں ہوتا کیا ہے؟کیا ابھی تک اس کا علاج نہیں تلاش کیا گیاہے؟زرا دھیان سے دیکھو۔اب تو زیادہ تر بیماریوں کا علاج ممکن ہے۔“

    ”تھیلسیمیا کوئی متعدی (contagious)مرض نہیں ہے۔یہ خون کا عارضہ ہے۔ابھی تک اس سے بچاؤ کا کوئی ٹیکہ بھی دستیاب نہیں ہے۔اس میں مبتلا بچے کو پوری زندگی خون چڑھانا پڑتا ہے۔مریض کے جسم میں ہیمو گلوبن یعنی خون کے سرخ ذرّات کی کمی پریشانی کا سبب ہوتی ہے۔ایک مہینے میں دو سے تین مرتبہ خون چڑھانے کی ضرورت پڑتی ہے۔تھیلسیمیا میجر بچے کے پیدا ہونے کے کچھ ماہ بعد ہی بیماری کی علامات نظر آنے لگتی ہیں۔بچے کی نشو ونما ٹھیک سے نہیں ہوتی،بچہ کمزور اور پیلا نظر آتا ہے۔اگر وقت پر ڈاکٹر تک پہنچ جاتے ہیں اور تشخیص بھی ہو جاتی ہے۔تب بھی بچے کی تکلیف کا ایک لمبا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔اس کا ایک علاج bone marrow transplantہے۔لیکن وہ ہر ایک کے لیے نہیں ہے۔کیونکہ وہ ہر ایک مریض کے لیے مفید ثابت ہو ایسا کہا نہیں جا سکتااور یہ طریقہ علاج بہت مہنگا بھی ہے۔لیکن اس سب پریشانیوں سے بچا جا سکتا ہے۔اگر پہلے ہی خون کی جانچ کر لی جائے تو اگلی نسلوں میں بیماری کو منتقل ہونے سے روکا جاسکتا ہے۔“دادی نے کچھ پریشان ہوتے ہوئے پوچھا

    ”اگر دو تھیلسیمیا مائنر کی شادی ہو چکی ہو تب۔۔؟“

    ”اگر دو تھیلسیمیا مائنر افراد کی شادی ہو چکی ہو توحمل کے دسویں ہفتہ میں chorionic villus sampling(CVS) ٹیست کے ذریعے معلوم کیا جاسکتا ہے۔اگر تھیلسیمیا میجر کی تشخیص ہو جائے تو ڈاکٹر حمل ضائع کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔بس امّی یہی ایک طریقہ یہاں لکھا ہوا ہے۔“غزالی نے بات پوری کی تو اس کی امّی نے کہا

    ”شکر ہے! کوئی تو راستہ ہے۔“

    ”امّی زیادہ پریشان نہ ہوں اس صورتِ حال میں بھی یہ خطرہ صرف ۵۲ فیصد ہے۔یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر بار ایسا ہی ہو۔بس محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔وقت پر ڈاکٹر سے رجوع کرنا ہے اور ڈاکٹر کے ہر مشورے پر عمل کرنا ہے۔“عابد کی امّی بہت دیر سے خاموش بیٹھی تھیں انہوں نے کہا

    ”غزالی باقی باتیں بعد میں کریں گے۔پہلے جاکر تیار ہوئیے ہم ابھی خون کی جانچ کے لئے جائیں گے۔“تبھی عابد کی دادی نے کہا

    ”بہو!آپ بھی اپنے خون کی جانچ کرائیے گا۔حالانکہ سب ٹھیک ہے لیکن اب میں کوئی جوکھم مول لینا نہیں چاہتی۔“

    ”کل شہزادی آپی بھی آجائیں گی۔تب ہم سب ساتھ چلیں گے۔“غزالی نے کہا تو عابد کی امّی نے اپنا پرس اٹھاتے ہوئے کہا

    ”کل آتے ہی اُن کے خون کی جانچ بھی کرا لیں گے۔لیکن ابھی آپ جلدی سے اُٹھیے۔آپ کا بھتیجا جاگتے ہی پھر پوچھے گا کہ پھوپھو کے خون کی جانچ کرائی تو میں کیا جواب دوں گی؟اگر رپورٹ میں سب ٹھیک آتا ہے تو بے فکر ہوکر سوئیں گے۔اور اگر کچھ غلط آیا تب ہمیں لڑکے والوں کو بھی سمجھانا ہوگا۔اور لڑکے کے خون کی بھی جانچ کرانی ہوگی۔وقت کم ہے اور کام زیادہ۔اس لیے شاباش اُٹھیے۔“

    ”جی بیٹا!بہو صحیح کہہ رہی ہے۔اگر ہمیں علم ہوگیا ہے تو دیر نہیں کرنا چاہئے۔کل شہزادی ہی نہیں اُس کے شوہر کے بھی خون کی جانچ کرانے میں خود ساتھ جاؤں گی۔اور ہاں جاتے ہوئے بی خالہ کو میرے پاس آنے کے لیے کہتے جانا۔مجھے اپنے ہی گھر میں نہیں جہاں تک ممکن ہو سکے اس کی معلومات دوسروں تک بھی پہنچانا ہیں اور ہاں بہو،اپنا ٹیسٹ کرانا بالکل مت بھولنا۔“عابد کی امّی نے کہا

    ”جی امّی!آپ کی سہیلی کو ہم آپ کے پاس بھیجتے ہوئے ہی جائیں گے۔“عابد کی امّی نے اپنی نند غزالی سے مذاق کرتے ہوئے کہا

    ”لو اب آپ کی وجہ سے مجھے بھی اپنا خون نکلوانا پڑے گا!“

    ”جی بھابھی!“دونوں ہنستی ہوئی بلڈ ٹیسٹ کرانے روانہ ہوئیں اور دادی اپنے پوتے کے کمرے کی جانب بڑھ گئیں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے