Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پروفیسر کا وفادار کتا

سہیل ارشد

پروفیسر کا وفادار کتا

سہیل ارشد

MORE BYسہیل ارشد

    ٹوکیو کے شیبویا اسٹیشن کے سامنے اکتیا خطے کے ایک کتے کا تانبے کا مجسمہ نصب ہے۔ پائیدان پر ساکت بیٹھے ہوئے کتے کی نظر اسٹیشن کے ٹکٹ کاؤنٹر پر ٹکی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ یہ کہانی اسی ہاچی کو نامی کتے کی ہے جس کا مجسمہ وہاں نصب ہے۔

    بہت سال پہلے ٹوکیو یونیورسٹی کے شعبۂ زراعت کے پروفیسر اوئے نوایزا برو کے گھر تین سال کے ایک پلے کو لایا گیا۔ پروفیسرہاچی اس کو بہت عزیر رکھتے تھے اور ہاچی کو بھی پروفیسر صاحب سے بہت مانوس تھا۔

    ہر روز جب پروفیسر صاحب یونیورسٹی جانے کےلئے گھر سے نکلتے تو ہاچی کو بلا ناغہ ان کے ساتھ گھر کے قریب ہی واقع ریلوے اسٹیشن تک ان کے ساتھ جاتا۔ شام کو جب پروفیسر صاحب کی واپسی کا وقت ہوتا تو وہ پھر ان کو لینے اسٹیشن جاتا تھا۔ کبھی کبھی پروفیسر صاحب کو لوٹنے میں دیر ہو جاتی تو وہ بھی دیر تک اسٹیشن کے سامنے ان کا انتظار کرتا۔

    ’’یہ ہاچی کو تو ہمارے لیے مصیبت بن گیا ہے۔‘‘ لوگ پریشان ہوکر کہتے تھے۔

    اسٹیشن پر آتے جاتے مسافر اس پر ناراض ہوتے تھے، مگر ہاچی کو ان پر بھونکنے یا انہیں کاٹنے کے بجائے سکون اور خاموشی سے پروفیسر صاحب کے لوٹنے کا انتظار کرتا تھا۔

    اسی طرح ڈیڑھ سال گزر گیا۔

    لیکن 21 مئی 1925 کو جب اس نے پروفیسر صاحب کو اسٹیشن پر الوداع کہا تو پھر وہ واپس نہیں آئے۔ وہ یونیورسٹی میں بیمار ہوکے گر پڑے۔ سبھوں نے ان کا علاج کرایا، مگر ان کو بچایا نہ جا سکا۔ پروفیسر صاحب کی موت ہو گئی، مگر ہاچی کو اس حقیقت سے لاعلم تھا۔ شام ہوتے ہی ہاچی کو پروفیسر کا استقبال کرنے کے لئے اسٹیشن پہنچ جاتا تھا اور رات بھر اسٹیشن پر ان کا انتظار کرتا۔ صبح کو وہ مایوس ہو کر گھر آتا۔ اگلی شام کو وہ پھر پروفیسر صاحب کو لینے اسٹیشن پہنچ جاتا تھا۔ ہاچی کو کی اس حالت کو دیکھ کر لوگوں کی آنکھیں بھر آتی تھیں۔ ہاچی کو بیچارہ تنہا رہ گیا تھا۔ ہر روز وہ اسی طرح پروفیسر صاحب کی راہ تکتا تھا۔

    پروفیسر کا انتظار کرتے کرتے ہاچی کو کے سات سال گزر گئے اور اس بات کا تذکرہ اخبارات میں ہونے لگا۔ لوگ ہاچی کو سے ہمدردی کا اظہار کرنے لگے۔ بارش کے دنوں میں اسٹیشن کے لوگ ہاچی کو کو وہیں سلا دیتے۔ اسی حالت میں دس سال گزر گئے۔ لہذا اسٹیشن اورآس پاس کے لوگ اکٹھا ہوئے اور اتفاق رائے سے ہاچی کو تانبے کا مجسمہ لگانے کا فیصلہ کیا۔

    ہاچی کوکا مجسمہ نصب ہونے کے بعد بھی وہ پروفیسر کا انتظار کرتا رہا۔ اس طرح بارہ برس گزر گئے۔ انتظار کرتے کرتے وہ بوڑھا ہو گیا۔ وقت کے ساتھ وہ نحیف و لاغر ہوتا گیا۔ ہر روز کمروز جسم کے ساتھ اسٹیشن جانا اس کے لئے دشوار امر تھا پھر بھی وہ کسی طرح اسٹیشن جاتا اور مایوس ہو کر واپس آتا۔

    کبھی لوٹ کر نہ آنے والے اپنے محبوب پروفیسر کا انتظار کرتے کرتے آخر ہاچی کونے 8 مارچ 1935 کو اپنے مجسمے کے قریب ہی دم توڑ دیا، لیکن اس کی موت پر مغموم ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہاچی کو اپنے محبوب پروفیسر کے ساتھ جنت میں ہنسی خوشی رہتا ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے