Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

راجہ نگر کی صاف گلی

مختار احمد

راجہ نگر کی صاف گلی

مختار احمد

MORE BYمختار احمد

    عامر کے ابو ایک اسکول ٹیچر تھے۔ وہ پہلے اپنے شہر کے ایک سرکاری اسکول میں پڑھاتے تھے مگر جب ان کی ترقی ہوئی اور وہ ہیڈ ماسٹر بن گئے تو ان کا تبادلہ راجہ نگر نامی ایک دیہات کے ہائی اسکول میں کر دیا گیا۔ اگر وہ راجہ نگر جانے سے انکار کر دیتے تو پھر انھیں یہ ترقی نہ ملتی اور انھیں بطور ٹیچر اپنے پرانے اسکول ہی میں بچوں کو پڑھانا پڑتا۔ اس لیے انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ راجہ نگر چلے جائیں گے۔ انھیں اندازہ تو تھا کہ راجہ نگر میں انھیں بہت دشواریاں ہونگی، مگر اپنی ترقی کا سوچ کر وہ رضامند ہوگئے۔

    ان کی بیوی کو بھی ان کے اس فیصلے کا علم ہوگیا تھا۔ ایک بڑے شہر سے ایک چھوٹے دیہات میں جانا ان کے لیے ایک مشکل کام تھا، مگر انہوں نے خندہ پیشانی سے اپنے شوہر کے فیصلے کو قبول کیا اور ان کی ہمت بھی بندھائی۔

    عامر کو راجہ نگر جاتے ہوئے تھوڑا سا افسوس ہورہا تھا۔ اس شہر میں اس کے بہت سے دوست تھے اور راجہ نگر چلے جانے سے وہ اپنے دوستوں سے دور ہوجاتا مگر اس کی امی نے اسے یہ کہہ کر تسلی دی کہ راجہ نگر زیادہ دور تھوڑا ہی ہے، وہ لوگ اپنے شہر آتے جاتے رہا کریں گے۔

    عامر کے ابو کو سات دن کے اندر اندر راجہ نگر کے اسکول میں جوائن کر نا تھا اس لیے وہ پہلے چلے گئے۔ انہوں نے بیوی سے کہا تھا کہ وہ وہاں جا کر پہلے مکان کا بندوبست کریں گے پھر اس کے بعد انھیں بھی وہاں لے آئیں گے۔

    پھر ایسا ہی ہوا۔ دو تین روز میں انھیں مکان مل گیا اور وہ اپنی بیوی اور عامر کو لے کر وہاں آگئے۔ یہ سب تو ٹرین سے آئے تھے مگر ان کا سامان ٹرک میں آنا تھا۔

    عامر کے ابو نے اس بات کا خیال رکھا تھا کہ ان کا نیا گھر ان کے اسکول کے پاس ہو تاکہ انھیں آنے جانے میں آسانی رہے۔ گھر تو اسکول کے پاس مل گیا مگر عامر نے دیکھا کہ ان کے محلے کی گلی میں بہت گندگی ہے۔ ہر گھر کے سامنے کوڑے کرکٹ کے ڈھیر تھے اور نالیوں سے گندہ پانی نکل نکل کر پوری گلی میں پھیلا ہوا تھا۔ بچے سارا دن اسی گندی گلی میں کھیلتے کودتے تھے، جو ان کی صحت کے لیے خطرناک تھا۔

    یہ منظر دیکھ کر اسے بہت افسوس ہوا۔ مگر جب اس نے گھر دیکھا تو وہ اسے پسند آگیا۔ اس گھر میں چار بڑے بڑے اونچی چھتوں کے کمرے تھے، ایک بڑا سا صحن تھا جس میں، آم، انار، لوکاٹ اور جنگل جلیبی کے بڑے بڑے درخت لگے ہوئے تھے۔ آم کے درخت میں چھوٹے چھوٹے بہت سے ہرے ہرے آم لگے تھے اور ان کی خوشبو پورے گھر میں پھیلی ہوئی تھی۔ ان درختوں کے سائے کی وجہ سے پورا گھر ٹھنڈا تھا۔ صحن میں پانی کا ایک ہینڈ پمپ بھی تھا جس سے ٹھنڈا اور میٹھا پانی آتا تھا۔

    وہ شام کو گھومنے پھرنے نکلا تو اس نے دیکھا کہ آس پاس کی تمام گلیاں بھی بہت گندی تھیں اور ان میں بھی چاروں طرف کوڑا ہی کوڑا اور پانی پھیلا نظر آرہا تھا۔

    اگلے روز ٹرک بھی ان لوگوں کا سامان لے کر پہنچ گیا۔ وہ بچے جو گلی میں کھیل رہے تھے، وہ ٹرک کے پاس آکر جمع ہوگئے اور جھانک جھانک کر عامر کے گھر میں دیکھنے لگے۔ عامر بھی وہیں کھڑا تھا مگر اس کی ابھی تک کسی بچے سے بات چیت نہیں ہوئی تھی۔ بچے بھی جھجک رہے تھے اور عامر بھی۔ ان میں سے اکثر بچے اس کے ہی ہم عمر تھے۔

    ٹرک کے ساتھ آئے ہوئے مزدوروں نے سامان کو اتارنا شروع کردیا۔ اس کی امی انھیں بتاتی جا رہی تھیں کہ کون سی چیز کس کمرے میں رکھنی ہے۔ تھوڑی دیر بعد سارا سامان گھر میں منتقل ہوگیا۔ عامر کے ابو نے ٹرک والے کو سامان لانے کے پیسے دیے اور گھر میں آکر عامر کی امی کے ساتھ مل کر سامان کو قرینے سے رکھنے میں ان کا ہاتھ بٹانے لگے۔ اس کام میں عامر بھی ان کی مدد کر رہا تھا۔

    دو تین گھنٹوں میں وہ سب اس کام سے فارغ ہوگئے۔ ان لوگوں کے آنے سے پہلے اس کے ابو نے گھر میں رنگ وغیرہ کروالیا تھا مگر وہاں پر بہت زیادہ کوڑا جمع ہوگیا تھا۔ عامر کی امی نے اس دوران جھاڑو بھی لگا دی تھی اور کوڑے کو پلاسٹک کے بڑے سے تھیلے میں ڈال کر ایک کونے میں رکھ دیا تھا۔ یہ کام بھی ختم ہوگیا تو وہ کھانا پکانے میں مصروف ہوگئیں۔ ابو اس مشقت کے کام سے تھک گئے تھے اس لیے وہ کچھ دیر کے لیے لیٹ گئے۔ عامر نے کوڑے کا تھیلا اٹھایا اور اسے لے کر باہر نکلا۔

    وہ باہر نکلا تو اسے ایک لڑکا دروازے کے سامنے نظر آیا۔ دوسرے کئی بچے گلی میں کھیل رہے تھے۔

    ’’تم لوگ نئے آئے ہو؟‘‘۔ اسے دیکھ کر اس لڑکے نے وہیں کھڑے کھڑے پوچھا۔

    ’’ہاں۔ ہم لوگ کل ہی یہاں پہنچے ہیں۔ میرے ابو اسکول کے ہیڈ ماسٹر ہیں‘‘۔ عامر نے بتایا۔

    ’’تم تو اپنے ابو سے بہت ڈرتے ہوگے‘‘۔ وہ لڑکا قریب آگیا۔ ’’ماسٹر لوگ تو بہت سخت ہوتے ہیں اور غصہ بھی کرتے ہیں‘‘۔

    ’’میں اپنے ابو سے بالکل بھی نہیں ڈرتا۔ ہاں ان کا ادب بہت زیادہ کرتا ہوں اور ان کی ہر بات مانتا ہوں‘‘۔ عامر نے بتایا۔

    ’’تم کہاں جا رہے ہو؟‘‘۔ وہ لڑکا بے تکلف ہو گیا تھا۔

    ’’ہم یہاں آئے تھے تو گھر بہت گندہ تھا۔ لگتا تھا کئی سالوں سے صفائی نہیں ہوئی ہے۔ میری امی نے صفائی کی تو بہت سا کوڑا نکلا، میں وہ ہی کوڑا پھینکنے جا رہا ہوں‘‘۔ عامر نے بتایا۔

    وہ لڑکا اسے حیرت سے دیکھنے لگا پھر بولا۔ ’’گلی کے سارے لوگ اپنا کوڑا دروازے کے آگے ڈال دیتے ہیں۔ تم بھی ایسا ہی کرو۔ اتنی دور جانے کی کیا ضرورت ہے۔ جب تیز ہوا چلتی ہے تو کوڑے کو بھی ادھر ادھر پھیلا دیتی ہے‘‘۔

    ’’نہیں بھئی۔ میں ایسا نہیں کرسکتا‘‘۔ عامر نے نفی میں سر ہلا کر کہا۔’’یہ بہت ہی بری بات ہے کہ ہم اپنے گلی محلے کو گندہ رکھیں۔ اس سے ہماری گلی بھی بد صورت لگتی ہے اور بیماری کے جراثیم بھی پھیل کر لوگوں کو طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ اگر میرے ابو کو یہ پتہ چلا کہ میں نے کوڑا دروازے پر ہی ڈال دیا ہے تو مجھے ڈانٹ پڑے گی۔ مجھے ان کی ڈانٹ سے ڈر لگتا ہے‘‘۔

    ’’میرے ابو تو اس بات پر کچھ نہیں کہتے۔ میری اماں تو جب صفائی کے بعد مجھ سے کہتی ہیں کہ میں کوڑا پھینک آوں تو میں تو اسے دروازے کے باہر ہی ڈال دیتا ہوں۔ میں تو سوچتا ہوں بس اپنا گھر صاف ستھرا ہونا چاہیے۔ خیر چلو میں بھی تمہارے ساتھ چلتا ہوں‘‘۔ اس لڑکے نے کہا اور عامر کے ساتھ چل پڑا۔

    اس کی بات سن کر عامر کو افسوس ہوا۔ اسے احساس ہوگیا تھا کہ یہ لڑکا صفائی کی اہمیت سے ناواقف ہے۔

    ’’میرا نام عامر ہے۔ تمہارا نام کیا ہے؟‘‘۔ عامر نے چلتے چلتے پوچھا۔

    ’’میرا نام عثمان ہے۔ میرے ابا سبزی منڈی میں کام کرتے ہیں۔ ہمارے گھر میں سبزیاں بہت پکتی ہیں۔ جو سبزی بکنے سے بچ جاتی ہے وہ ابا گھر لے آتے ہیں اور اماں کو وہ ہی پکانا پڑ جاتی ہے‘‘۔ یہ کہہ کر عثمان ہنسنے لگا پھر اس نے پوچھا۔ ’’تمہیں راجہ نگر کیسا لگا ہے۔ تم تو شہر سے آئے ہو نا؟‘‘۔

    ’’مجھے راجہ نگر اس لیے بہت اچھا لگا ہے کہ یہاں میرے امی ابو میرے ساتھ ہیں‘‘۔ عامر نے کہا۔

    ’’یہ تو کوئی بات نہیں ہوئی‘‘۔ عثمان نے بے دلی سے کہا۔ ’’اگر مجھے کوئی شہر بھیج دے، وہاں میری امی بھی نہ ہوں اور ابا بھی نہ ہوں تو میں پھر بھی بہت خوش رہوں گا۔ مجھے شہر میں رہنے کا بہت شوق ہے۔ وہاں بڑے مزے مزے کی چیزیں ہوتی ہیں‘‘۔

    ’’مگر یہ بھی تو بتاؤ کہ اگر تم ان دونوں کے بغیر وہاں چلے بھی گئے تو پھر رہو گے کہاں؟۔ کون تمہیں کھانا پکا کر دے گا، کون تمہارے کپڑے دھوے گا۔ کون تم سے اتنی محبت کرے گا جتنی تمھارے ماں باپ کرتے ہیں۔ ہم بچوں کے سارے مزے، ساری خوشیاں اور سارے آرام اپنے ماں باپ اور بھائی بہنوں کی وجہ سے ہی تو ہوتے ہیں۔ جتنا وہ لوگ ہماری ضروریات کا خیال رکھتے ہیں، کوئی دوسرا رکھ ہی نہیں سکتا‘‘۔

    ’’یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں تھا‘‘۔ عثمان نے شرمندگی سے کہا۔ ’’تم ٹھیک ہی کہتے ہو۔ ایک دفعہ میں اپنی خالہ کے گھر چند روز گزارنے چلا گیا تھا تو ایک روز خالو ان سے کہنے لگے کہ بہت دن ہوگئے ہیں۔ عثمان کے گھر والے تو اسے یہاں بھیج کر بھول ہی گئے ہیں۔ یہ سن کر مجھے بڑی شرمندگی ہوئی تھی اور پھر میں انھیں بتائے بغیر بھاگ کر اپنے گھر آگیا تھا‘‘۔

    باتیں کرتے کرتے وہ لوگ میدان میں پہنچ گئے تھے۔ میدان کے آخر میں ایک بہت بڑا گڑھا تھا جس میں بہت سا کوڑا کرکٹ پڑا تھا– عامر نے ساتھ لایا ہوا تھیلا اس میں پھینک دیا اور دونوں واپس ہولیے۔

    وہ ابھی اپنی گلی میں داخل ہوئے ہی تھے کہ ایک گھر کا دروازہ کھلا اور اس میں ایک عورت کی شکل نظر آئ۔ اس نے عثمان سے کہا۔ ’’عثمان بچے۔ تو نے ناصر کو دیکھا ہے۔ مجھے کچھ سودا منگوانا تھا‘‘۔ ناصر اس عورت کا بیٹا تھا۔

    ’’وہ کچھ لڑکوں کے ساتھ جنگل کی طرف جا رہا تھا۔ کہہ رہا تھا کہ بیر توڑنے جا رہا ہوں‘‘۔

    عثمان یہ کہہ کر آگے بڑھ گیا مگر عامر اس عورت کے قریب آیا اور بولا۔’’خالہ ہم کل ہی اس محلے میں آئے ہیں۔ اگر آپ کہیں تو ہم جا کر آپ کا سودا لادیں‘‘۔

    اس کی بات سن کر وہ عورت کچھ حیرت زدہ سی ہوگئی، اسے اس بات پر حیرت تھی کہ یہ لڑکا اس کے بغیر کہے ہی اس کا سودا لانے کا کہہ رہا تھا۔ محلے کے دوسرے بچے ایسے نہیں تھے۔ اس نے خوش ہو کر عامر کے سر پر ہاتھ پھیرا اور بولی۔ ’’الله تجھے جیتا رکھے بیٹا۔ ناصر تو جانے کب آئے گا، میرا کھانا پکنے سے رہ جائے گا‘‘۔

    یہ کہہ کر اس نے عامر کو پیسے اور کپڑے کا ایک تھیلا تھمایا اور بتانے لگی کہ اسے کیا کیا منگوانا ہے۔ عامر نے ان چیزوں کو ذہن نشین کرلیا۔

    اس دوران عثمان اسے حیرت سے دیکھ رہا تھا۔ جب وہ کچھ دور چلے آئے تو اس نے عامر سے کہا۔’’میں تمھاری جگہ ہوتا تو کبھی بھی یہ کام نہیں کرتا۔ میری تو امی بھی کسی کام کے لیے کہتی ہیں تو میں سو نخرے دکھاتا ہوں‘‘۔

    ’’یہ تو تمھاری غلطی ہے ۔ اگر ہم ہی اپنے گھر کا کام نہیں کریں گے تو چائنا سے تو کوئی اسے کرنے کے لیے آئے گا نہیں‘‘۔ عامر ہنس کر بولا۔’’اور پھر ہم جس محلے میں رہتے ہیں، وہ بھی ایک طرح سے ہمارا گھر ہی ہوتا ہے۔ اس میں رہنے والوں کے کام آنا بہت اچھی بات ہے۔ ہمارا اسلام بھی ایسی باتوں کو کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ دوسروں کی مدد کر کے ہمیں جو خوشی حاصل ہوتی ہے، وہ کسی اور چیز سے حاصل نہیں ہو سکتی‘‘۔

    اس کی بات سن کر عثمان نے کہا۔ ’’ناصر کی امی نے جب محبت سے تمہارے سر پر ہاتھ پھیرا تھا تو ان کی آنکھوں میں شفقت اور محبت تھی‘‘۔

    ’’یہ محبت اور شفقت ہر اس شخص کی آنکھوں میں ہوتی ہے جس کے ساتھ تم اچھا سلوک کرتے ہو۔ یہ بہت قیمتی چیز ہوتی ہے‘‘۔ عامر نے مسکرا کر کہا۔

    ’’میں تمھارے ساتھ تھوڑی دیر سے ہی ہوں مگر میں نے تم سے بہت اچھی اچھی باتیں سیکھی ہیں‘‘۔ عثمان نے بڑے خلوص سے اعتراف کیا۔

    ’’تم ایک اچھے لڑکے ہو‘‘۔ عامر نے اس کے شانے پر تھپکی دیتے ہوئے کہا۔ ’’مجھے خوشی ہے کہ میری اس محلے میں پہلی دوستی ایک بہت اچھے لڑکے سے ہوئی ہے‘‘۔

    اپنے گھر کے قریب پہنچ کر اس نے دروازے پر کھڑے ہو کر اپنی امی کو آواز دی، وہ دروازے پر آئیں تو اس نے کہا ۔’’امی میں ذرا عثمان کے ساتھ بازار تک جا رہا ہوں۔ عثمان میرا نیا دوست ہے۔ کونے سے تیسرے گھر کی خالہ نے کچھ چیزیں منگوائی ہیں‘‘۔

    اس کی امی نے اسے اجازت دے دی ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ وہ جلدی آجائے۔

    جب وہ کچھ دور آگئے تو عثمان ہنسنے لگا اور بولا۔ ’’تم اتنی سی دور تو جا رہے ہو پھر اپنی امی کو اس کے بارے میں بتانے کی کیا ضرورت تھی؟۔ میں تو سارا سارا دن گھر سے باہر رہتا ہوں۔ جانے کہاں کہاں گھومتا ہوں۔ میں تو تب بھی اپنی اماں کو نہیں بتاتا‘‘۔

    ’’یہ اچھی بات نہیں ہے‘‘۔ عامر نے کہا۔ ’’بچوں کو کہیں جانا ہو تو امی کو ضرور بتا کر جانا چاہیے تاکہ انھیں علم رہے کہ وہ کہاں جا رہے ہیں‘‘۔ عثمان یہ سن کر خاموش ہوگیا۔

    تھوڑی دیر بعد وہ لوگ راجہ نگر کے چھوٹے سے بازار میں پہنچ گئے۔ وہاں پر بہت ساری دکانیں تھیں۔ عامر نے ناصر کی ماں کی بتائی ہوئی تمام اشیا لیں۔ وہ دونوں جب انھیں لے کر ناصر کے گھر پہنچے تو ناصر کی ماں نے انھیں بہت ساری دعائیں دیں۔ جب وہ واپس جانے لگے تو اس نے انھیں باجرے کی دو دو میٹھی ٹکیاں بھی دیں۔ انہوں نے جب منع کیا تو وہ جھوٹ موٹ کا غصہ کرنے لگی، جس سے وہ ڈر گئے اور ٹکیاں لے لیں اور اپنے اپنے گھر آگئے۔

    عامر نے چھٹی جماعت پاس کر لی تھی اور اب اس کا داخلہ ساتویں جماعت میں ہونا تھا۔ دوپہر کو اس کے ابو اسکول سے آئے تو انہوں نے بتایا کہ اس کے داخلے کا فارم اسکول میں جمع کروا دیا ہے ابھی اس پر کام جاری ہے۔ جب یہ کام مکمل ہوجائے گا تو تب ہی وہ اسکول جا سکے گا۔

    یہ اگلے روز کی بات ہے۔ اس کے ابا اسکول جا چکے تھے۔ امی باورچی خانے میں مصروف تھیں۔ عامر نے کوڑے کی ٹوکری اٹھائی اور جھاڑو لے کر باہر گلی میں آیا۔

    حالانکہ ابھی صبح کا وقت تھا مگربہت سے بچے گلی میں کھیل رہے تھے۔ پہلے تو انہوں نے عامر کی طرف کوئی دھیان نہیں دیا مگر جب اسے گھر کے سامنے جھاڑو لگاتے دیکھا تو سب اس کے نزدیک آ کر کھڑے ہوگئے اور حیرت سے اسے دیکھنے لگے۔ انھیں اپنی طرف دیکھتا پا کر عامر نہ تو گھبرایا اور نہ شرمایا، بدستور اپنے کام میں مصروف رہا۔

    ان میں سے ایک لڑکا آگے بڑھ کر بولا۔ ’’تم تو اتنے بڑے ہیڈ ماسٹر کےبیٹے ہو۔ پھر بھی جھاڑو لگا رہے ہو‘‘۔

    اس کی بات سن کر عامر کو ہنسی آگئی۔ اس نے کہا ’’دیکھو بھئی۔ میں چاہتا ہوں کہ ہمارا پورا محلہ اتنا صاف ستھرا ہوجائے کہ لوگ اس کی مثالیں دیں۔ اپنے گھر کی اور اپنے محلے کی صفائی ستھرائی میں کیسی شرم‘‘۔

    یہ کہہ کر وہ پھر اپنے کام میں مصروف ہوگیا۔ اتنی دیر میں عثمان بھی اپنے گھر سے نکل کر وہاں آگیا ۔ وہ کچھ دیر تک تو عامر کو دیکھتا رہا پھر اپنے گھر جا کر وہ بھی جھاڑو اور ٹوکری لے آیا اور اپنے دروازے کے آگے صفائی شروع کردی۔

    عامر اور عثمان کی دیکھا دیکھی چند دوسرے بچے بھی اس کام میں مصروف ہوگئے، وہ ہنس رہے تھے، مسکرا رہے تھے ، تیز آوازوں میں ایک دوسرے سے باتیں کر رہے تھے اور صفائی میں لگے ہوئے تھے۔ ان سب نے تین چار گھنٹوں میں ہی پوری گلی کو صاف ستھرا کر کے رکھ دیا تھا۔ گلی میں جس جس جگہ گندہ پانی پھیلا ہوا تھا وہاں انہوں نے میدان سے خشک مٹی لا کر ڈال دی جس سے آنے جانے کا راستہ بن گیا۔

    جب وہاں سے مختلف پھیری والے گزرے اور انہوں نے چمچاتی گلی دیکھی تو سب بہت خوش ہوئے کیونکہ پہلے تو گندے پانی کی وجہ سے ان کے جوتے چپل اور ریڑھیوں کے پہیے گندے ہوجاتے تھے۔ وہ عورتیں جو ان سے سودا خریدتی تھیں انھیں بھی بہت پریشانی ہوتی تھی۔ ان سب نے بچوں کی بہت تعریف کی۔ ان کے منہ سے تعریفی جملے سن کر سب خوش ہوگئے۔

    ایک لڑکے نے جس کا نام راجو تھا، کہا۔’’مل جل کر کام کرنے کا کتنا فائدہ ہوتا ہے۔ پورے راجہ نگر میں ہماری جیسی صاف ستھری گلی اور کوئی نہیں ہوگی‘‘۔

    عامر کی امی بھی وقفے وقفے سے دروازے پر آکر بچوں کو کام کرتا دیکھ رہی تھیں۔ انھیں اس بات کی خوشی تھی کہ اس کام کی ابتدا عامر نے کی تھی اور سب بچوں کو صفائی ستھرائی کی اہمیت کا احساس دلایا تھا۔

    گرمی کا موسم تھا، جب عامر کی امی نے دیکھا کہ بچوں نے کام ختم کرلیا ہے تو انہوں نے سب بچوں کو بہت شاباش دی اور مختصر الفاظ میں صفائی کی اہمیت سے آگاہ بھی کیا۔ جب بچے کام میں مصروف تھے تو اس دوران انہوں نے ان کے لیے سموسے اور آلو کے چپس بھی بنا لیے تھے اور شربت بھی تیار کرلیا تھا۔ انہوں نے بچوں کو گھر میں بلا کر ان سے صابن سے اچھی طرح ہاتھ منہ دھونے کا کہا۔ جب بچے تازہ دم ہو کر بیٹھک میں قالین پر بیٹھ گئے تو وہ ان کے لیے ڈھیر ساری کھانے پینے کی چیزیں لے آئیں۔ سب لوگ اس پارٹی سے بہت لطف اندوز ہوئے۔

    راجو نے کہا۔ ’’اس سے پہلے ہمیں صفائی ستھرائی کا اتنا پتہ نہیں تھا۔ عامر کو دیکھ کر ہی ہمیں اس کام کو کرنے کا خیال آیا تھا۔ ہماری گلی اب راجہ نگر کی صاف گلی کے نام سے مشہور ہوجائے گی‘‘۔

    عثمان بولا۔’’اب ہم صفائی کا بہت دھیان رکھیں گے۔ اپنی گلی کو کبھی گندہ نہیں ہونے دیں گے‘‘۔

    ’’وہ تو ٹھیک ہے۔ مگر ہمیں یہ بھی عہد کرنا ہے کہ اس کام کے ساتھ ساتھ ہم اپنی پڑھائی لکھائی پر بھی خوب دھیان دیں گے اور اسکول کی کبھی چھٹی نہیں کریں گے‘‘۔

    سب بچوں نے اس کا بھی وعدہ کرلیا۔

    شام کو جب لوگ اپنے اپنے کاموں سے گھروں کو لوٹے تو گلی کی حالت دیکھ کر حیران رہ گئے۔ انھیں یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ یہ صاف ستھری گلی ان کی ہے۔ جب انھیں پتہ چلا کہ محلے کے تمام بچوں نے یہ صفائی کی ہے تو وہ بہت خوش ہوئے اور سب بچوں کو شاباش دی۔

    (ختم شد)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے