Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سچی دوستی

شمع اختر کاظمی

سچی دوستی

شمع اختر کاظمی

MORE BYشمع اختر کاظمی

    شہر سے دور گھنے جنگل میں ایک پیڑ پر ایک بندریا اپنے بچوں کے ساتھ رہتی تھی۔ اس پیڑ کی چھاؤں تلے ایک ہرنی کا اپنے بچوں سمیت بسیرا تھا۔ ہرن اور بندریا دونوں پکی سہلیاں تھیں۔ دونوں جنگل میں گھوم کر اپنے بچوں کے لئے پھل پھول اکٹھا کرتیں۔ اچھے پکے پھل ملتے تو دونوں اپنے بچوں کو بانٹ کر کھلاتیں۔ پیڑ کے قریب سے ایک ندی گزرتی تھی جس کا پانی میٹھا اور صاف تھا۔ بہت سارے چرند و پرند، جنگلی جانور اپنی پیاس بجھانے ندی کے کنارے آتے۔ ہر روز شام ڈھلے شیروں کے قافلے کی آہٹ پاتے ہی پھڑپھڑا کر سارے پرندے اڑ جاتے۔ بندریا ہرنی کو اپنے مخصوص کھیں کھیں کی آواز نکال کر چوکنا کر دیتی۔ پھر ہرنی اپنے بچوں کو خاموش رہنے کے اشارے کرتی۔

    دن یونہی گزر رہے تھے۔ دونوں کے بچے بھی بڑے ہو رہے تھے۔ لیکن بچے بڑے شریر تھے۔ ہرنی کا ایک بچہ جس کا نام سونو تھا وہ خوب دھما چوکڑی مچاتا۔ اسے اپنی خوبصورت کھال اور نازک خدوخال پر بڑا گمان تھا اور وہ بہت مغرور بھی تھا۔ بندریا کے شرارتی بچے مونو سے سونو کی کبھی نہیں بنتی تھی۔ اکثر دونوں میں تیر بھاگنے کا مقابلہ ہوتا۔ مونو ڈالیوں میں جھولتا، ہوا میں ایک ڈال سے دوسری ڈال پر چھلانگ لگاکر لہراتے بہت آگے نکل جاتا۔ پھر ٹھہر کر سونو کا انتظار کرتا۔ سونو کو مونو کی یہ عادت بالکل پسند نہیں آتی۔ وہ ناراض ہو جاتا اور دونوں لڑتے جھگڑتے اپنی اپنی ماں کے پاس واپس آ جاتے۔

    اکثر ایسا بھی ہوتا کہ ہرنی کا بچہ سونو، بندریا کے بچے مونو کی دم پیر سے دبا دیتا، پھل چھین کر کھا لیتا، دونوں کی شرارتیں اتنی کہ مونو ڈالیوں پر جھولتے ہوئے سونو کو دھڑام سے ڈھکیل کر یہ جا وہ جا ہو جاتا۔ اس کی سنہری کھال جس پر سونو کو بڑا غور تھا، مسل دیتا۔ یہ سب روز کے معمول تھے۔ دونوں کی ماں بچے کے جھگڑے سلجھاتیں۔ مگر ہرنی اور بندریا کی دوستی میں کبھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔

    ایک دن کی بات ہے کہ ہرنی جنگل کی طرف کیا نکلی کہ کبھی لوٹ کر نہیں آئی۔ بندریا کئی دنوں تک اسے ڈھونڈتی رہی۔ پھر تھک ہار کر واپس آ گئی۔ خوب روئی۔ اب اس کی ذمہ داریاں مزید بڑھ گئی تھیں۔ اپنی ہرنی سہیلی کے بچوں کا پہلے سے زیادہ وہ خیال رکھتی۔ انہیں بھوکا نہیں چھوڑتی۔ خوب دلار پیار کرتی بالکل اپنے بچوں کے برابر مگر سونو ہمیشہ مونو سے جھگڑے پر اتاولا رہتا۔ جنگل کے دیگر سبھی جانور دونوں کی شرارتوں سے واقف تھے۔

    جنگل میں ایک دن راج ہنس نے سبھی چرند و پرند کو اکٹھا کر کے کہا کہ بہت دن ہوگئے، کوئی جشن یا کھیل کا مقابلہ نہیں ہوا۔ بہار کے اس موسم میں کچھ تفریحی پروگرام ہونا چاہئے۔ سبھی نے راج ہنس کو تائید کی۔ راج ہنس ہمیشہ ایسے تفریحی پروگرام منعقد کرتا جس میں کھانے پینے کا بھی خوب انتظام رہتا۔ کئی دنوں کی تیاری کے بعد جشن کا آغاز جنگل کے اندر ایک ہرے بھرے میدان میں ہوا۔ سب اکٹھا ہوئے خوب کھیل تماشہ اور مقابلہ ہوا۔ ہر جیتنے والے کو پکے پھل ملتے، خوب تالیاں بجتیں۔ سونو اور مونو کے درمیان حسن اور قابلیت کا مقابلہ ہوا۔ جج راج ہنس کے مطابق سونو حسین اور مونو ذہین قرار دیا گیا۔ شام ہوئی مقابلہ ختم ہوا سب خوشی خوشی اپنے بسیروں کی جانب چل پڑے۔ سونو اس فیصلے سے بالکل متفق نہ تھا وہ تلملایا ہوا تھا۔ اسے حسین اور ذہین ہونے کا دونوں خطاب اپنے نام چاہئے تھا وہ ہرگز مونو کو کسی خطاب کا حقدار نہیں سمجھتا تھا۔ اپنے بسیرے کے قریب پہنچتے ہی مونو نے سونو کو کھیں کھیں کرکے چڑھا دیا۔ اب وہ پیڑ پر جست لگانا ہی چاہتا تھا سونو نے مونو کی لمبی لہراتی دم کو دانت سے پکڑ کر چبا دیا۔ چیخ پکار مچاتا مونو پیڑ پر چڑھ گیا۔ پھر بندریا نے جنگل سے ایک بوٹی لاکر اس کی دم پر لگائی۔ مگر کوئی افاقہ نہ ہوا وہ رات بھر درد سے تڑپتا اور یہی سوچتا رہا کہ موقع ملتے ہی وہ سونو سے بدلہ ضرور لےگا۔

    ایک دن کی بات ہے کہ بندریا جنگل میں کہیں گئی ہوئی تھی۔ بندریا کا زخمی بچہ مونو پیڑ پر بیٹھا ہوا تھا۔ اس کی نظر ایک شکاری کے جال پر پڑی وہ دل ہی دل میں مسکرانے لگا۔ کیونکہ سونو بڑی اداؤں کے ساتھ بے فکری سے قریب ہی ٹہل رہا تھا۔ وہ شکاری کے جال کی طرف جانکلا اور دیکھتے ہی دیکھتے جال میں پھنس گیا۔ شکاری جھٹ پھٹ اسے لے کر نکلنے ہی والا تھا کہ مونو کے دل میں سونو کے لئے ہمدردی کا ایک ایسا جذبہ بیدار ہوا جس میں احسان مندی بھی تھی اور پڑوسی کے حق کی ادائیگی بھی۔ مونو کو یاد آیا کہ وہ ایک دن کیچڑ میں گر گیا تھا تو سونو نے اپنی زبان سے اس کے جسم صاف کئے اور اس کی ماں کے پاس لے کر آیا تھا۔ دفعتاً بجلی کی سی تیزی کے ساتھ وہ ڈالیوں میں جھولتا، ہواؤں میں جست لگاتا شکاری پر حملہ آور ہوا اور غصے میں جال کو جگہ جگہ سے پھاڑ کر رکھ ڈالا اور اپنے پڑوسی کی جان بچا کر واپس اپنے بسیرے پر لے آیا۔

    مأخذ:

    شاعر (Pg. 67)

      • ناشر: ناظر نعمان صدیقی
      • سن اشاعت: 2014

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے