سزا
ان دنوں حیدر آباد کے افسر خان سائیکل چلانے کے لئے بےحد مشہور تھے۔ وہ ملک کے مختلف بڑے شہروں میں کئی کئی گھنٹے مسلسل سائیکل چلانے کا مظاہرہ کر چکے تھے۔ جن کے بارے میں ہم اخبارات میں پڑھتے تھے۔ ان کے پروگرام کے اشتہارات بھی نظروں سے گزرتے رہتے تھے۔ ہمارا دل چاہتا تھا کہ وہ کبھی ہمارے شہر میں آ کر سائیکل چلائیں اور ہم بھی دوسرے شہروں کے خوش قسمت بچوں کی طرح افسر خاں کو اپنی آنکھوں سے سائیکل چلاتا دیکھ سکیں۔
’’کہتے ہیں خدا بچوں کی دعائیں جلدی ہی سن لیتا ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ ایک دن اخبار میں یہ خبر پڑھ کر کہ مشہور سائیکلسٹ افسر خاں ٹاؤن ہال کے میدان میں 120 گھنٹے مسلسل سائیکل چلا کر اپنا گذشتہ 100 گھنٹے کا ریکارڈ توڑیں گے’’ ہماری خوشی کا ٹھکانا نہیں رہا اور پھر اس روز جب ان کے گروپرام کا افتتاح ڈی۔ ایم صاحب نے کیا تو ہم اپنے دوستوں کے ساتھ سب سے آگے جاکر بیٹھ گئے۔ ٹاؤن ہال کا میدان دلہن کی طرح سجایا گیا تھا۔ بہت بڑے پنڈال کے نیچے ایک دائرے میں افسر خاں نے سائیکل چلانا شروع کی۔ لوگوں نے ان کے گلے میں پھولوں اور نوٹوں کے ہار ڈالے، لاؤڈاسپیکر سے ان کی گذشتہ کارگزاریاں بیان کی جانے لگیں اور ان کے اس پروگرام میں نئے کارناموں کا اعلان کیا گیا۔
یوں تو 120 گھنٹے مسلسل دن رات جاگ کر سائیکل چلانا ہی بہت بڑا کارنامہ تھا، اس کے ساتھ ہی ضروریات سے فارغ ہونا، شیو کرنا، نہانا اور کھانا وغیرہ روز سائیکل چلاتے ہوئے ہی کرنا تھا۔ اس وقت جب شیو کرنے یا نہانے کے لئے وہ سائیکل کے ہینڈل سے ہاتھ ہٹاتے اور سائیکل تیزی سے اپنے مدار میں گھومتی رہتی تو ہمارے دل کی دھڑکن بڑھ جاتی اور محسوس ہوتا کہ دل اچھل کر حلق میں آ گیا ہے۔ ہم دانتوں میں انگلی حیرت کی تصویر بنے افسر خاں کی تیزی سے دوڑتی ہوئی سائیکل کی گدی پر بیٹھے اور ہینڈل چھوڑے ہوئے یہ سب کرتے تکتے رہتے۔
افسر خاں اپنا 120 گھنٹے کا پروگرام مکمل کرکے کسی دوسرے شہر میں سائیکل چلانے چلے گئے اور ہمارے لیے ہمیشہ کی طرح پھر ایک خبر بن گئے۔ دو تین سال پر لگا کر اڑ گئے۔ ہم نے جونیئر بورڈ کا امتحان پاس کیا تو طے پایا کہ اب انٹرکالج میں داخلہ لیا جائےگا۔ تاکہ ہم ہائی اسکول تا انٹرمیڈیٹ وہاں تعلیم حاصل کرسکیں۔ کالج ہمارے گھر سے دور تھا۔ ہم ذرا خاموش ہوئے تو ابو کو ہماری خاموشی محسوس ہوئی تب انہوں نے کالج آنے جانے کے لئے سائیکل دلانے کا وعدہ کر لیا۔ ہمارے پڑوس کے دو تین لڑکے بھی سائیکل سے ہی کالج آتے جاتے تھے۔ سائیکل آئی تو ہمیں کالج کے میدان میں لے جاکر سائیکل چلانا سکھائی گئی۔ ایک دوبار گرنے کے بعد ہم سائیکل چلانا سیکھ گئے، کالج کھلا، ہمارا داخلہ ہو گیا تو ہم روز سائیکل سے کالج آنے جانے لگے۔ شروع شروع میں تو ذرا ڈر ڈر کر سائیکل چلانے کے تمام اصولوں کے ساتھ، آہستہ آہستہ سائیکل چلاتے رہے۔ پھر دوسرے لڑکوں کو دیکھ کر ہمت بڑھی اور ہم نے رفتار بڑھائی، پھر یہ ہونے لگا کہ کالج جاتے ہوئے یا کبھی کالج سے آتے ہوئے دوسرے لڑکوں سے ’’ریس‘‘ میں آگے نکلنے کی کوشش ہونے لگی۔ اس کوشش کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہم سائیکل چلانے میں کافی ماہر ہو گئے۔
ایسے ہی ایک دن اپنے سائیکل چلانے کے ماہرانہ کارنامے انجام دیتے ہم تیزی سے سائیکل دوڑاتے کالج سے واپس لوٹ رہے تھے کہ افسر خاں کا خیال آگیا۔ خیال کیا آ گیا ان کے پروگرام کی پوری فلم آنکھوں کے سامنے سے گزر گئی۔
’’واہ کیا سائیکل چلاتے تھے‘‘ ہم نے سوچا پینڈل چھوڑ کر چلتی سائیکل پر تمام کام کر لیا کرتے تھے۔؟
دوسرے لمحے ہمارے ہاتھ بھی ہینڈل سے ہٹ گئے، مگر ذرا سا دل میں گرنے کا خیال آیا تو دوبارہ ہینڈل پکڑ لیا۔
مگر پھر ہمت کی اور دوبارہ ہینڈل چھوڑ دیا۔
سائیکل پوری رفتار سے دوڑتی رہی اور یوں ہم پہلی بار مغل پورہ تھانے تک ہینڈل چھوڑ کر سائیکل چلاتے آئے۔ فیض گنج میں بازار ہے لہذا اس سڑک پر رفعت پورہ تک خاصی بھیڑ رہتی ہے اور ہینڈل چھوڑ کر سائیکل چلانا ممکن ہی نہیں تھا۔
دوسرے دن ہمارا ارادہ تھا کہ کالج تک ہینڈل چھوڑ کر سائیکل چلائیں گے۔ لہذا کالج کے گیٹ سے نکل کر سڑک پر آتے ہی ہم نے ہینڈل چھوڑ دیا۔ اس طرح سائیکل چلانے کے لیے رفتار معمولی سے تیز رکھنی پڑتی ہے اس لیے مغل پورہ تھانے تک آتے آتے دو جگہ ٹکرانے سے بچے، ایک بڑے میاں خود کو بچانے کے لئے گر ہی پڑے۔ منگل کا دن تھا، بازار کا ہفتہ وار چھٹی تھی، فیض گنج سے رفعت پورہ تک برائے نام ہی بھیڑ تھی، ہم نے وہاں بھی ہینڈل نہیں پکڑا۔
تب ہی سامنے سے ابو آتے دکھائی دیے۔ انہوں نے بھی ہمیں دیکھ لیا تھا، پہلے تو وہ حیرانی سے ٹھٹک گئے، پھر شاید ہمیں روکنے کے لیے ہاتھ اٹھایا، مگر ہماری سائیکل کی رفتار تیز تھی۔ انہیں حیران و پریشان کھڑا چھوڑ کر ہم آگے بڑھ گئے اور پھر ہم نے گھر کے سامنے ہی رک کر دم لیا۔ گھر میں آکر سائیکل صحن میں اگے امرود کے پیڑ کے تنے سے لگا کر کھڑی کر دی اور جلدی سے کالج یونیفارم اتار کر غسل خانے میں گھس گئے۔
غسل کر کے باہر نکلے ہی تھے کہ ابو گھر میں داخل ہوئے ان کے ساتھ شبن مستری بھی تھے جن کی چوک میں سائیکل مرمت کی چھوٹی سی دکان ہے۔ ان کے ہاتھ میں اوزاروں کا تھیلا بھی تھا۔ ابو نے صحن میں آتے ہی امرود کے تنے سے ٹکی کھڑی ہماری سائیکل کی طرف اشارہ کیا۔ اشارہ پاکر مستری اپنا اوزاروں کا تھیلا لے کر ہماری سائیکل کے پاس آ گئے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ہماری سائیکل کا ہینڈل الگ کر دیا۔
’’ارے یہ کیا کیا؟ ابو دیکھئے‘‘ ہم نے بوکھلاکر کہا۔
’’اب میاں آپ تو ہینڈل چھوڑ کر سائیکل چلا ہی لیتے ہیں۔‘‘ ابو شبّن مستری کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے بولے۔ ’’ہم نے سوچا سائیکل میں ہینڈل کی ضرورت ہی کیا ہے۔‘‘
(امنگ دہلی)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.