Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

شہزاد کے کارٹون

رابعہ الرباء

شہزاد کے کارٹون

رابعہ الرباء

MORE BYرابعہ الرباء

    وہ کان درد سے تڑپ رہا تھا کہ اس کے ابو اسے ڈاکٹر کے پاس لیے جانے پر مجبور ہو گئے ڈاکٹر نے چیک کیا تو کان میں کوئی مواد تھا جو اسے تکلیف دے رہا تھا۔

    خیر بچہ سمجھ کر اس بات کو نظر انداز کر دیا گیا کہ کچھ بھی کان میں جا سکتا ہے۔ نہاتے ہوئے، کھیلتے ہوئے وغیرہ وغیرہ اور علاج کے بعد وہ تندرست ہو گیا۔

    کچھ ہفتوں کے بعد اس کے گلے میں ایک چھوٹے سے سنوکر ٹیبل کا چھوٹا سا گیند پھنس گیا تو سانس رک گئی۔ اس مرتبہ بھی ڈاکٹر کی فوری طبی امداد نے اس کی جان بچا لی۔

    پھر ایک دن وہ چچا کے پاس بیٹھا ٹی وی دیکھ رہا تھا کہ اچانک اس کے ہاتھ پاؤں اور گردن کھنچنے لگے۔ چچا نے دیکھا تو گھبرا گئے اور اسے فوری طور پر ڈاکٹر کے پاس لے گئے۔

    ڈاکٹر کو جلد ہی معائنہ سے معلوم ہو گیا کہ اس نے کوئی طاقت ور چیز یا ایسا کچھ نامناسب سا کھایا ہے جس کے باعث یہ سب ہوا۔ اس کا معدہ واش ہوا، ڈرپ لگی اور ایک دن پھر وہ ہسپتال سے واپس آ گیا۔ سب نے بہت پوچھا مگر اس نے کچھ نہیں بتایا۔

    لیکن سب گھر والے پریشان تھے کہ شہزادکے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوتا ہے۔ کیوں کہ وہ بظاہر نہ ضدی ہے نہ شرارتی، نہ ہی دوسرے بچوں کی طرح ادھر ادھر بھاگتا پھرتا ہے۔ وہ تو صرف ٹی وی، کارٹون، کتابوں کا شوقین ہے یا پھر کھلونوں سے کھیلتا رہتا ہے۔

    مگر اس کے چچا کے لئے یہ راز معمہ بن گیا کہ آخر شہزاد کے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوتا ہے۔ انھوں نے اس کو کھوجنے کی ٹھان لی۔

    ایک دن چچا عظیم شہزاد کو سیر کے لیے لے گئے۔ پہلے جوائے لینڈ گئے۔ وہ پھولے پھولے غباروں کے گھروں میں کودتا رہا۔ جھولے لیے پھر چڑیا گھر گئے اور اس کے بعد انھوں نے اسے آئس کریم کھلانے کا وعدہ کیا۔ مگر ایک شرط پہ۔۔۔ کہ وہ شہزاد سے جو پوچھیں گے وہ سچ سچ بتائےگا۔

    شہزاد مان گیا۔

    وہ دونوں آئس کریم ہاؤس گئے۔ میز پر بیٹھے تو چچا نے کہا پہلے میرے سوال پھر آئس کریم۔۔۔ وہ پھر مان گیا۔

    اچھا شہزاد یہ بتاؤ کان میں ہوا کیا تھا؟ گیا کیا تھا؟

    ”چاچو وہ میں کارٹون دیکھ رہا تھا۔ کارٹون نے ایک کان میں پانی کا پائپ لگایا تو دوسرے کان سے پانی باہر نکلنے لگا میں نے بھی یونہی کیا مگر میرے دوسرے کان سے پانی باہر نہیں آیا۔

    اچھا اور وہ سنوکر بال گلے میں کیسے پھنسا؟ وہ تو میز پر کھیلنے کی چیز ہے۔

    ”چاچو وہ بھی کارٹون میں دیکھا تھا کہ وہ ایک چھوٹا سا گیند منہ میں ڈال کر کھا جاتا ہے۔ کچھ دیر بعد بہت سے رنگ برنگ گیند منہ اور کان سے نکلنے لگتے ہیں۔

    چچا مسکرائے پھر پوچھنے لگے اور وہ اس دن تمھارے ہاتھ پاؤں ٹیڑھے جو ہونے لگے تھے؟

    ”چاچو وہ بھی کارٹون میں ہی دیکھا تھا کہ ایک کارٹون طاقت کی دوا پیتا ہے تو اس میں بہت جان آ جاتی ہے اور وہ بڑے بڑے کام کرتا ہے۔ سو میں نے بھی وہ طاقت کی دوائی ساری پی لی جو امی مجھے صبح ایک چمچہ یہ کہہ کر پلاتی ہیں کہ یہ پیئے گا تو میرا بیٹا بہت طاقت ور اور جلد بڑا ہو جائےگا اور پی کر شیشی ڈسٹ بن میں پھینک دی مگر۔۔۔“

    وہ ہلکا سا مسکرانے کی کوشش کرنے لگا۔ پھر کہنے لگا۔

    چاچو اب میں نے سچ سچ بتا دیا ہے۔ میری آئس کریم؟

    اچھا شہزاد کونسی آئس کریم کھاؤگے مگر پہلے ایک وعدہ اور کرنا ہوگا۔

    ”اوکے چاچو! وعدہ۔۔۔ ”چاکلیٹ آئس کریم کھاؤنگا۔“

    چچا نے دو چاکلیٹ آئس کریم منگوائیں اور کہنے لگے۔

    ”دیکھو شہزاد بیٹا یہ کارٹون صرف دیکھنے کے لیے ہوتے ہیں۔ انجوائے کرنے کے لیے ہوتے ہیں۔

    یہ کوئی جاندار بچے نہیں ہوتے کہ ان کو نقصان پہنچے، تکلیف ہو۔ یہ صرف چلتی پھرتی تصویریں ہوتی ہیں کہ جنھیں بچوں کو خوش کرنے کے لیے بنایا جاتا ہے۔

    اگر کوئی بچہ ان جیسی حرکتیں کرےگا تو وہ تمھاری طرح مشکل میں ہی پھنسا رہےگا۔ وعدہ کرو آئندہ کوئی کارٹونی حرکت نہیں کروگے۔“

    ’’اوکے چاچو پکا وعدہ۔۔۔ پرامس، آئندہ ایسا نہیں کروں گا۔‘‘

    اتنے میں آئس کریم آ چکی تھی اور دونوں مز سے آئس کریم کھانے لگے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے