Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

شیبہ نے روزہ رکھا

شبینہ فرشوری

شیبہ نے روزہ رکھا

شبینہ فرشوری

MORE BYشبینہ فرشوری

    بچوں۔۔۔ ضد ایک ایسی فطرت انسانی کا نام ہے جو بڑوں میں ہو تو اکڑ اور بچوں میں پائی جائے تو ادا کہلاتی ہے اور اگر بوڑھاپے میں کی جائے تو عادت۔۔۔ آج میں ایک ایسی ضد کا ذکر کرنا چاہتی ہوں جو مجھے بہت پسند آئی۔ بچوں تم نے بھی روپیٹ کر اپنے بڑوں سے ضد کر کے کسی کو دیکھ کر روزہ رکھا ہوگا۔ کیونکہ اپنے بڑوں کو یا پھر والدین کو دیکھ کر ہی آپ روزہ رکھنا نماز اور قرآن مجید پڑھنا سیکھتے ہیں۔ میں آج تمہیں ایک روزیدار بچی کا مزیدار واقعہ سنانا چاہوں گی جو میری بیٹی نبیلہ یعنی شیبہ کا ہے جو آج خود دو پیاری بیٹیوں سامعہ اور خدیجہ کی ماں ہے۔ پرسوں کی بات ہے۔ میری نواسی سامعہ کا مسقط (عمان) سے فون آیا کہ وہ روزہ رکھنا چاہتی ہے اور ممی منع کر رہی ہیں تو میں ماضی کے سنہرے اوراق الٹنے لگی۔۔۔ میں نے بیٹی شیبہ اور نواسی سامعہ کو بھی ساتھ میں شامل کر لیا آپ سب بھی شریک ہو جائیے۔

    یہ تب کی بات ہے جب شیبہ نصر اسکول خیریت آباد میں پڑھتی تھی جہاں اردو اور دینیات لازمی طور پر پڑھائی جاتی تھی۔

    دوسرے مذاہب کی لڑکیوں کو ان کی مادری زبان اور اخلاقیات Science Moral پڑھنا لازمی تھا۔ شیبہ روزانہ اپنے بھائیوں کے ساتھ روزہ رکھنا چاہتی تھیں مگر وہ روزے آج کل کی طرح بہت گرمی کے دنوں میں آئے تھے اس لئے میں نے منع کر دیا تھا۔ بات آئی گئی ہوگی۔ ایک دن جب شیبہ اسکول سے گھر واپس لوٹی تو سیدھی اپنے کمرے میں چلی گئی۔۔۔ میں پریشان ہو گئی۔ کیونکہ یہ اس کی عادت کےخلاف حرکت تھی۔ وہ گھر آتے ہی کچھ نہ کچھ ضرور کھاتی تھی۔ میں نے جاکر خیریت پوچھی تو بولی میں آج روزہ ہوں۔۔۔ روزہ۔۔۔ بولی۔ آپ سب کے ساتھ ہی سحری میں نے بھی کی تھی نا۔ مجھے یاد آیا کہ ہاں روز کی طرح وہ ہمارے ساتھ شامل تھی۔ مگر اس گرمی میں روزہ۔ شیبہ بولی میں جب ہی نیت کر لی تھی۔ اس واسطے میں روزہ ہوں۔ اب آپ سوچئے۔ میری سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ میں نے اپنی پکی سہیلیوں ارونا اور کلپنا کو فون کیا۔ کلپنا نے بتایا اس کو پتہ ہے کہ کیونکہ میگھنہ شیبہ کی کلاس میٹ تھی۔ ارونا نے کہا کہ وہ شوہر روی شرما اور بچوں اکشے اور لوہیت کے ساتھ روزے کے وقت پہونچ جائے گی۔ کلپنا نے بتایا کہ ہم سموسے اور گجراتی ڈھوکلے لے کر آ رہے ہیں۔ میں نے اسلم کو آل انڈیا ریڈیو فون لگایا۔ تفصیل سنائی جلد گھر آنے کو کہا۔ گھر میں امی اور باپو (میرے ساس سسرے) پریشان بھی تھے مگر خوش بھی کہ شیبہ نے روزہ رکھا ہے۔ امان فراز اور سلمان بھی اسکول سے آئے تو یہ سن کر خوش ہوئے کہ آج شیبہ کا روزہ ہے۔ شام ہوتے ہوتے سارا گھر میرے اور اسلم کے دوستوں اور ان کے افراد خاندان سے بھر گیا۔ افطار کا وقت ہوا مسجد کا سائرن بجا۔ شیبہ کا روزہ کھولنا تاریخ کا حصہ بن گیا۔ حالانکہ اس دن سب کا روزہ تھا مگر لگا جیسے روزہ صرف شیبہ کا تھا۔ ہمارے سارے دوست احباب نے شیبہ کے ساتھ روزہ کھولا۔ یہ وہ دور تھا جب ہم ہندو یا مسلمان نہیں بلکہ انسان ہوا کرتے تھے۔ مل جل کر رہتے تھے اور سارے عید تیوہار مل جل کر مناتے تھے کیونکہ خوشی کا مذہب سے نہیں دل سے واسطہ ہوتا ہے۔

    کوئی لوٹا دے مجھے بیتے ہوئے دن

     

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے