Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

یہ بالکل سچ ہے!

نصر ملک

یہ بالکل سچ ہے!

نصر ملک

MORE BYنصر ملک

    ’’ یہ ایک خوفناک کہانی ہے!‘‘ ایک مرغی نے کہا، اور اس نے یہ شہر کے اس حصے میں کہا جہاں ابھی رونما ہی نہیں ہوئی تھی۔‘‘ کسی مرغی خانے میں رونما ہونے والی یہ ایک خوفناک کہانی ہے اور آج رات میں اکیلی سونے کی ہمت نہیں رکھتی۔ ایک اچھی پتوارس (مرغی خانے میں مرغیون کے بیٹھنے کا اڈا )پر ہم میں سے کئی ایک ساتھ اکٹھی ہیں!‘‘ اور پھر اس نے ایک کہانی سنائی جس سے دوسری مرغیوں کےپر کھڑےہوگئے، اورمرغے کی کلغی گرگئی۔ یہ بالکل سچ ہے!

    لیکن ہم اس کا آغاز شروع سےکریں گے اور بتائیں گے کہ شہر کے دوسرے سرےپر مرغی خانے میں کیاہوا تھا۔

    سورج نیچے ڈھلا، اور مرغیاں اوپر اڑیں، ان میں سے ایک سفید پروں اور چھوٹی ٹانگوں والی مرغی تھی، جو دستور کے مطابق اپنے انڈے دیتی تھی، اور جو ہر لحاظ سے ایک معزز مرغی تھی۔ جونہی وہ پتوارس پر آکر بیٹھی اس نے اپنی چونچ سے اپنے آپ کو کھجلایا تو ایک چھوٹا سا پر اکھڑ کر باہر گرپڑا۔

    ’’یہ توگیا۔‘‘ وہ بولی۔ ’’ اس میں کوئی شک نہیں کہ جتنا میں کھجلاؤں گی،اتنی ہی خوبصورت ہوجاؤں گی۔‘‘ لیکن اس نے یہ سب کچھ محض مذاق میں کہا تھا۔ کیونکہ وہ دوسری مرغیوں میں ایک زندہ دل، خوش گپیاں کرنے والی سمجھی جاتی تھی۔ اور جیسا کہ ہم پہلے کہہ چکے ہیں، وہ بہت معزز مرغی تھی۔ اور اب وہ سوگئی تھی۔

    ہر طرف اندھیرا تھا، اور مرغیاں ایک دوسری کے بہت قریب ساتھ ساتھ بیٹھی ہوئی تھیں لیکن وہ مرغی جو سفید مرغی کے قریب بیٹھی تھی، وہ سو نہیں رہی تھی، اس نے یوں سنی ان سنی کردی، جیساکہ دنیا میں پرسکون زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ لیکن وہ یہ بات اپنی قریبی پڑوسن کو بتانے سے خود کو روک نہ پائی۔

    ’’کیا تم نے سنا جو کہا گیا؟۔۔۔ یہاں ایک مرغی ہے جواپنے سارے پر اس لئے اکھاڑ کر باہرپھینکنا چاہتی ہے تاکہ وہ اچھی دکھائی دے سکے۔ اگرمیں ایک مرغا ہوتی تو میں اسے کسی خاطر میں نہ لاتی۔‘‘

    مرغیوں کے اوپر ایک الو ماں ایک الو باپ اپنے چھوٹے الو بچوں کے ساتھ رہتے تھے۔ اس خاندان کے کان بڑے تیز تھے، اور انہوں نے وہ ہر لفظ سنا جو ان کی پڑوسن مرغی نے بولا تھا۔ ان سب نے اپنی آنکھوں کوگھمایا، اورالو ماں نے اپنے پر پھڑپھڑائے اور بولی۔ ’’اسےمت سنو!‘‘ لیکن میراخیال ہےکہ جو کچھ کہا گیا وہ تو تم سب نے سن ہی لیا ہوگا۔ میں نے اسےخود اپنے کانوں سےسنا،اورمیرےکان ابھی بہت کچھ سننے کی سکت رکھتے ہیں۔ مرغیوں میں سےایک بالکل ہی بھول گئی ہے کہ کسی مرغی کا چال چلن کیسا ہونا چاہئے، وہ بیٹھی اپنے سب پر کھینچ کھینچ کر باہر نکال رہی تھی اور مرغا اسے دیکھ رہا تھا۔‘‘

    ’’ دیواروں کےبھی کان ہوتے ہیں‘‘ الو باپ نے کہا۔ ’’بچوں کوایسی بات نہیں سننی چاہئے۔‘‘

    ’’مجھے پڑوس میں الو کو تو لازماً یہ بنانا چاہئے۔‘‘ الو ماں نے کہا۔ وہ ایک بہت عزت دار الو ہے۔‘‘ اور پھر الو ماں اڑگئی۔

    ’’ہوو۔۔۔ وہوو! ہوو۔۔۔ وہود!‘‘ ان دونوں نے سڑک کےپار ایک کابک پرکبوتروں سے اس کااظہار کیا۔’’کیا تم نے یہ سنا؟ کیا تم نے یہ سنا؟ ہوو۔۔۔ ہووو!۔۔۔ وہاں ایک مرغی ہے جس نے محض مرغے کو خوش کرنے کے لئے اپنے پر کھینچ کرنکال دئے ہیں۔ اب وہ سردی سے مر رہی ہوگی اگر وہ ابھی تک مری نہیں تو۔ ہوو۔۔۔ وہوو!‘‘

    ’’کہاں؟ کہاں؟‘‘ کبوتر گٹگنائے۔

    ’’وہاں، راستے کے اس پار احاطے میں۔ یہ باکل ایسے ہے جیسے میں نے خود دیکھا ہے۔ کم و بیش یہ ایسی کہانی نہیں کہ بتائی جائے، لیکن یہ بالکل سچ ہے!‘‘

    ’’سچ، سچ، ہرایک لفظ سچ!‘‘ کبوتروں نے کہا۔ اور نیچے اپنے احاطے میں جا کر غٹرغوں غٹرغوں کرنے لگے۔‘‘ وہاں ایک مرغی ہے اور کچھ کہتے ہیں کہ وہ مرغیاں ہیں جنہوں نے اپنے تمام پر اکھاڑ ڈالے ہیں تاکہ وہ دوسری مرغیوں سے مختلف دکھائی دیں اور مرغےکواپنی جانب متوجہ کرا سکیں۔‘‘

    ’’جاگو!جاگو!‘‘ مرغےنے آواز لگائی ’’ککڑوں کوں!‘‘ وہ خود ابھی تک آدھی نیند میں تھا۔ لیکن اس نے وہی آواز لگائی۔ ایک مرغے کی خاطر تین شکستہ دل مرغیاں ناکام محبت کی وجہ سے مرگئ ہیں، اور انہوں نے اپنے سب پر بھی اکھاڑ دیئے ہیں! یہ خوفناک کہانی ہے، لیکن میں اسے اپنے آپ تک نہیں رکھوں گا۔ ہر جگہ بتاؤں گا!‘‘

    اور پھر یہ کہانی ایک گھر سے دوسرے گھر سفر کرتی، چکرلگاتی، بالآخر اسی جگہ پر واپس پہنچی جہاں سے وہ اصل میں شروع ہوئی تھی۔

    ’’ وہاں پانچ مرغیاں ہیں۔‘‘ اب کہانی کچھ یوں آگے چلی۔ ان سب نےاپنے اپنے پر اکھاڑ دیئے ہیں تاکہ وہ یہ دکھاسکیں کہ ان میں سے کس نے اپنے مرغےکےلیے ناکام محبت میں دوسری مرغیوں کےمقابلے میں کتنا زیادہ وزن کھو دیا ہے۔ اور پھر وہ ایک دوسری کو چونچوں سےیہاں تک ٹھونگیں مارتی رہیں کہ خون وخون ہوگئیں اور مرگئیں۔ یہ ان کےخاندان کےلیے شرم اور بے عزتی ہےاوران کے مالک کے لیے ایک بڑا نقصان!‘‘

    اور وہ مرغی جس نے اپنا ایک چھوٹا سا ہلا ہوا پر کھو دیا تھا، وہ قدرتی طور پر اپنی کہانی نہ پہچان سکی اور حبیسی کہ وہ ایک عزت دار مرغی تھی، وہ بولی ’’میں ایسی مرغیوں سے نفرت کرتی ہوں، لیکن اس طرح کی ہیں بہت! ایسی کہانیوں پر خاموش نہیں رہنا چاہئے، اور میں اپنی پوری کوشش کروں گی یہ کہانی اخبارات میں آئے۔ تب یہ پورے ملک میں جانی جائے گی اور یہ ان مرغیوں کےلیے ایک سبق ہوگی اور ان کے خاندانوں کے لیے بھی اور پھر یہ کہانی اخبارات تک گئی اور یہ شائع ہوئی، اور یہ بالکل سچ ہے کہ ایک چھوٹا سا پر پانچ مرغیوں میں بدل سکتاہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے