شفیع مشہدی کے افسانے
مٹی کی خوشبو
گرمی کی دوپہر نے قبرستان کو مزید ویران بنا دیا تھا۔ قبرستان کافی بڑا اور دور تک پھیلا ہوا تھا۔ اکا دکا قبریں پختہ تھیں مگر بیشتر قبریں کچی مٹی کی تھیں۔ بیشتر قبریں دھنس گئی تھیں جنہیں جھاڑیوں نے چھپا لیا تھا۔ قبروں پر اگی ہوئی ہریالی، گرمی میں جھلس گئی
بنت زلیخا
’’سمسو کی ماں کو معلوم کہ ہم کھیریت سے ہیں اور تم لوگوں کا کھیریت نیک چاہتا ہوں۔‘‘ ابا کی طرف سے سمسو کو بہت بہت دعا۔ اور ضروری بات یہ ہے کہ سجان میاں کا بیٹا اسلام کے ہاتھ چالیس روپیہ بھیج دیا ہے، جو ملا ہوگا۔ باڑی والا کا کرایہ دے دو اور منّی
گرتی دیواریں
خلیفہ جی کو محلے کے سارے لوگ جانتے تھے۔ بچے، بوڑھے، مرد عورت سب ہی انھیں خلیفہ جی کہتے۔ ویسے نام تو ان کا علی محمد تھا مگر کوئی انھیں نام لے کر نہیں پکارتا تھا۔ حتی کہ ان کے بیٹے بھی اکثر انھیں خلیفہ جی ہی کہتے تھے۔ جب کوئی بچہ اپنی توتلی زبان میں
پیاس
’’اے مہاگیانی! جب میں دانتوں پر دانت جما کر اور تالو کو زبان سے لگاکر، دل و دماغ کو قابو میں کرنے کی کوشش کرتا ہوں تو مجھے پسینہ آنے لگتا ہے۔ جب میں سانس روک کر تپسّیا کرتا ہوں تو میرے کانوں سے سانس نکلنے کی آواز آتی ہے ... پھر اے گرو دیو، جب میں سانس
سید کی حویلی
’’بہو، اری او بہو‘‘۔ آواز تیز تھی۔ ’’جی بیگم صاحب‘‘! آواز کمزور تھی۔ ’’میں پوچھتی ہوں تمھاری بکریاں آنگن میں کیوں آئیں‘‘۔ آواز میں بے پناہ خفگی تھی۔ ’’کیا کریں بیگم صاحب گلتی ہو گئی‘‘۔ آواز میں معذرت تھی۔ ’’مگر غلطی ہوئی کیوں؟ دیکھو تمھاری
جلدی کرو
زمین پر تیس پینتیس بچوں کی لاشیں قطار سے رکھی، سورماؤں کو داد شجاعت دے رہی تھیں۔ دونوں جانب رائفلوں پر سنگینیں چڑھائے سپاہی پہرہ دے رہے تھے۔ کوئی بیس گز دور جلے ہوئے برگد کے نیچے دس پندرہ مزدور جلدی جلدی گڈھا کھود رہے تھے اور کچھ باوردی افسر بار بار
طوطے کا انتظار
حویلی کافی پرانی ہو چکی تھی مگر پھر بھی اس کے در و دیوار جس پر سیاہ کائی کی تہہ سی جم گئی تھی، کافی پروقار دکھائی دیتے تھے۔ اونچے اونچے پایوں پر محراب اور محراب کے اوپربنے ہوئے کمروں میں اونچی اونچی کھڑیاں تھیں۔ نہ جانے کتنے برسوں، کتنی کہانیوں اور
سلوٹیں
لوگ کہتے ہیں جوانی دیوانی ہوتی ہے مگر میں تو کہتی ہوں جوانی بلائے جان ہوتی ہے۔ ہائے بچپن کے وہ دن کیسے مزے کے تھے۔ گھنٹہ دو گھنٹہ سبق یاد کیا، مولوی صاحب کی ڈانٹ پھٹکار سنی اور پھر مزے ہی مزے۔ ابھی نمکولی کی ہنڈیا پک رہی ہے تو ابھی آم کے درختوں پر