Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

گرتی دیواریں

شفیع مشہدی

گرتی دیواریں

شفیع مشہدی

MORE BYشفیع مشہدی

    خلیفہ جی کو محلے کے سارے لوگ جانتے تھے۔ بچے، بوڑھے، مرد عورت سب ہی انھیں خلیفہ جی کہتے۔ ویسے نام تو ان کا علی محمد تھا مگر کوئی انھیں نام لے کر نہیں پکارتا تھا۔ حتی کہ ان کے بیٹے بھی اکثر انھیں خلیفہ جی ہی کہتے تھے۔ جب کوئی بچہ اپنی توتلی زبان میں کھلیپا جی کہتا تو خلیفہ جی عجیب شان بے نیازی سے مسکرا دیتے۔ ویسے نہ تو وہ اکھاڑے کے استاد تھے اور نہ پہلوان۔ پیشے کے اعتبار سے سلائی کا کام کرتے تھے۔ میانہ قد، گھٹا ہوا جسم، سانولا رنگ جو سیاہی سے زیادہ قریب تھا۔ گول چہرے پر چھوٹی چھوٹی گول گول آنکھیں، داڑھی، مونچھ اور سر بالکل صاف، بغیر سلی ہوئی سفید تہہ بند جسے وہ پنجابیوں کی طرح لپیٹے رہتے اور اس پر سفید موٹیا کا کرتا اور دوپلی ٹوپی، یہی تھا خلیفہ جی کا حلیہ۔ سنتے ہیں جوانی میں کشتی بھی لڑتے تھے اور بڑے طرح دار جوان تھے۔ اب بھی کوئی ان کی جوانی اور ان کے معاشقے کی فرضی داستان انہیں یاد دلاتا تو خلیفہ جی کے چہرے پر رنگ آ جاتا اور وہ جلدی جلدی حقہ کا کش لینے لگتے مگر میں نے جب انھیں دیکھا تو وہ جوانی کی سرحد پار کر چکے تھے اور بالوں میں چاندی جھلکنے لگی تھی۔

    سردیوں میں کبھی جوانی کے دن یاد آ جاتے تو خلیفہ جی کچھا باندھ کر دھوپ میں تیل مالش کرنے لگتے اور ہم لوگوں کو اشتیاق سے دیکھتے پاکر دو چار بیٹھکیں بھی لگا دیتے۔ گرچہ ان کی سانس پھولنے لگتی مگر گردن فخر سے تنی رہتی اور چہرے پر ایسا جلال رہتا جیسے کہہ رہے ہوں،

    ’’اب کیا دیکھتے ہو۔ تم نے میری جوانی تو دیکھی ہی نہیں، جب شانے پر مکھی نہیں بیٹھتی تھی۔‘‘

    وہ ہمارے مکان کے سامنے گلی کی دوسری طرف مٹی کے کھپڑے پوش مکان میں رہتے تھے۔ بیوی سے روز جھگڑا کرنا ان کے معمول میں تھا۔ دو بیٹے بھی تھے جنھیں وہ ناکارہ، آوارہ، لفنگا جیسے القاب سے نوازتے تھے۔ البتہ دوسروں کے سامنے ان کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیا کرتے تھے۔ انھیں اس بات کا بڑا غم تھا کہ ان کے بیٹے سب جا ہل رہ جائیں گے جب کہ وارث علی استاد سے انھوں نے عم پارہ اور قواعد بغدادی پڑھی تھی۔ اور اپنے عربی داں ہونے پر فخر بھی تھا جس کا اظہار وہ اکثر کیا کرتے تھے۔

    پتہ نہیں خلیفہ جی رات کو سوتے بھی تھے یا نہیں کیوں کہ میں جب تک جاگتا رہتا ان کے کھانسنے یا بیوی سے جھگڑا کرنے کی آواز آتی رہتی اور جب صبح نیند ٹوٹتی تو خلیفہ جی کی لہک دار آواز سنائی دیتی۔

    ’’میرے مولا بلا لو مدینے مجھے

    جسے وہ بڑی عقیدت سے ایک مخصوص لے میں الاپتے رہتے، دو تین الاپ کے بعد کچھ وقہ۔ ہو جاتا اور میں سمجھ جاتا کہ یقیناً اس وقفے میں وہ اپنے ناریل کے حقے سے تمباکو کے کش لے رہے ہوں گے۔ دو تین کش لے کر وہ تازہ دم ہو جاتے اور پھر ان کی آواز ابھر آتی۔

    ’’سلام اے آمنہ کے لال اے محبوب سبحانی۔‘‘

    اسی بیچے میں محلے کا کوئی شریر لڑکا ان کے آنگن میں لگے بیر کے درخت پر ڈھیلا پھینک دیتا اور وہ موٹی سی گالی دیتے ہوئے بھول جاتے کہ ابھی ابھی وہ سلام پڑھ رہے تھے۔ دراصل ان کے آنگن کے بیر کا درخت ان کے لئے بلائے جان تھا۔ ویسے تو بیر ایسی ترش تھی کہ ایک بیر منہ میں ڈال دینے سے سارے دانت کھٹے پڑ جاتے مگر خلیفہ جی نے سارے محلے کے لڑکوں سے اس کے لئے بیر مول لے رکھی تھی۔ روزانہ ڈھیلے گرتے اور خلیفہ جی بلا تکلف موٹی، بھدی بھدی گالیوں کی بوچھار کر دیتے جنھیں سن کر ہماری آیا بہوڑن بوا، منہ بسور دیتیں اور جل کر بول اٹھتیں۔

    ’’ای کھلیپا، کت٘ا گالی بکے ہے۔‘‘ مگر بہوڑن بوا کی نحیف آواز خلیفہ جی کی لہک دار آواز میں دب کر رہ جاتی جو پھر اسی عقیدت سے گانا شروع کر دیتے۔

    ’’سلام اس پر کہ جس نے گالیاں سن کر دعائیں دیں۔‘‘

    نو بجتے بجتے وہ سلائی کے کپڑوں کی گٹھری اپنے بڑے لڑکے کے سر پر رکھ کر ہر کس و ناکس کی خیرت دریافت کرتے، مزاج پوچھتے اور سلام علیکم، وعلیکم سلام، جیتے رہو، خوش رہو کی گل افشانی کرتے ہوئے بازار کا رخ کر لیتے، جہاں تھانے والے پیر صاحب کی مزار کے صحن میں ان کی سلائی کی زنگ خوردہ مشین ان کا انتظار کرتی رہتی تھی۔ وہ چونکہ پرانے ڈھنگ کے ہی کپڑے سینا جانتے تھے اس لئے ان کے گاہکوں میں زیادہ تر دیہات کے مزدور طبقہ کے لوگ ہی تھے۔ جو بنڈی، کرتا اور مرزئ وغیرہ سلواتے تھے۔ مگر خلیفہ جی کا خیال تھا کہ ان سے اچھا درزی ابھی تک شہر میں پیدا ہی نہیں ہوا تھا۔

    محلے کے سبھی لوگ ان کا لحاظ کرتے تھے۔ جس کی وجہ شاید ان کی صاف گوئی، اور ان کا خلوص تھا جو سب کے لئے یکساں تھا۔ معاملہ کسی کا ہو، جھگڑا کسی کا ہو، خلیفہ جی بن بلائے فیصلہ کرنے کو تیار ہو جاتے اور فیصلہ بھی اس شان سے کرتے کہ خود مرنے مارنے کو تیار ہو جاتے۔ چارو نا چار لوگ ان سے جان چھڑانے کی غرض سے عارضی طور پر ہی سہی مگر صلح کر لیتے اور خلیفہ جی عجیب فاتحانہ انداز سے سبھوں کو نصیحت کرتے اور اپنے گھر آ جاتے۔ ویسے جائے وقوع سے گھر آنے تک جو بھی راہ میں ملتا اسے وہ بتانا نہ بھولتے کہ وہ ابھی ابھی کلوٹ قصاب اور صاحب جان کا جھگڑا ختم کروا کر آ رہے ہیں ورنہ ’’لہاش‘‘ گر جاتی، ’’لہاش‘‘ وہ لاش کی اہمیت بڑھانے کے لئے ہی کہتے ہوں گے.... ویسے وہ اپنی برادری کی چٹائی کے چھڑی دار بھی تھے۔ اور اپنے منصب پر بہت نازاں تھے اکثر ہم انھیں چھیڑنے کے لئے کہتے۔

    ’’خلیفہ جی آپ کیسے چھڑی دار ہیں کہ آپ کے ہاتھ میں چھڑی تک نہیں۔‘‘ تو وہ ہنس کر کہہ دیتے۔

    ’’بابو لوگ مجاک کیجئے ہے.... آپ کے اب٘ا سے کہہ دیں گے۔ ہم تو پنچایت کے چھڑی دار ہیں۔ آپ جانتے ہیں ہم بھی مجس ٹیٹ ہیں۔‘‘ اور ان کے چہرے پر آسودگی کے نقوش بکھر جاتے۔

    خلیفہ جی کی آمدنی واجب ہی واجب تھی۔ مگر دال روٹی مزے میں چل جاتی تھی۔ اور وہ بڑی آسودہ زندگی گذار رہے تھے۔ اکثر ان کے سکون قلب اور ان کی آسودگی پر ہمیں رشک آتا تھا مگر اس کے باوجود وہ بلا کے خود دار تھے۔ کیا مجال جو کبھی کسی کے آگے ہاتھ پھیلایا ہو یا کسی سے کچھ مانگا ہو۔ ہمیشہ دوسروں کے دکھ درد میں شریک ہوتے اور ہاتھ بٹاتے۔ محلہ کی ہر خوشی اور غمی میں وہ برابر کے شریک ہوتے خاص کر محلہ میں جتنی بھی موت ہوتی ان کا کفن سینا خلیفہ جی کا فرض تھا۔ خبر ملتے ہی بن بلائے قینچی لے کر پہنچ جاتے۔ چٹائی پر بیٹھ کر کفن سیتے جاتے اور مرنے والے کی خوبیاں بیان کرتے جاتے۔ پھر کفن لے کر قبرستان تک سارے رسوم اپنی نگرانی میں کرواتے اور کہتے جاتے کہ ’’شریت میں ایسے ہی ہونا چاہئے‘‘ اکثر سارا دن کفن سینے ہی میں لگ جاتا اور جب خالی ہاتھ گھر لوٹتے تو گھر کی ہنڈیا الٹ جاتی۔ بچے بھوک سے رونے لگتے تو بیوی جل کر بول اٹھتی۔

    ’’سارا دن کفن سینے میں برباد کر دئیو... اب کھرچی کہاں سے لاؤں، میرے پ٘لے تو پھوٹی کوڑی نہیں...‘‘ تو خلیفہ جی سمجھانے لگے۔

    ’’اری پگلی! کھرچی نہیں تو کیا ہوا پانی پی کر سو جائیں گے۔ کفن سینے میں تو ثواب کماتے ہیں۔ اللہ میاں آخرت میں بدلہ دیں گے۔‘‘ اور پھر رک کر کہنے لگتے۔

    ’’تو کیا جانے... حدیث قرآن پڑھا ہے کبھی۔ جاہل کہیں کی۔‘‘

    خلیفہ جی ایسے موقعوں پر اپنی علمیت کا رعب ضرور جھاڑتے۔ مگر روتے ہوئے بچوں کو دیکھ کر بیوی جل کر بول ٹھتی ’’ثواب کماؤ۔ مگر کفن کی سلائی کیوں نہیں لیتے۔ آخر کھائیں گے کیا۔‘‘

    اور اتنا سن کر خلیفہ جی آگ بگولہ ہو جاتے۔ چہرہ سرخ ہو جاتا اور کڑک کر چلانے لگتے۔

    ’’کم بخت ہم کو کفن کا سلائی لینے کو کہتی ہے۔ ہم کوئی فقیر ہیں کیا۔ خبردار جو کبھی ایسا حرف زبان پر لایا۔ زبان کھینچ لوں گا۔‘‘

    انھیں ایسا لگتا جیسے بیوی نے انھیں کوئی غلیظ سی گالی دے دی ہے اور وہ غصے سے پاگل ہو جاتے۔ بے چاری گھبرا کر جلدی سے خلیفہ جی کے آگے حقہ بڑھا دیتی۔ حقہ جو خلیفہ جی کی کمزوری تھا۔ پل بھر میں غصہ کافور ہو جاتا وہ جلدی جلدی تمباکو کا کش لینے لگتے۔ جیسے سارا غصہ حقہ پر ہی اتار دیں گے۔ بیوی بھی سوچ کر نادم ہو جاتی کہ اس نے ایسا کیوں کہہ دیا۔ بھلا کفن کی سلائی کے پیسوں سے وہ اپنے لاڈلوں کو کھلائے گی اور نہ جانے کیا سوچ کر وہ بیٹے کو گود میں سمیٹ لیتی۔

    تعلیم اور ملازمت کے سلسلے میں کافی عرصہ تک باہر رہنے کے بعد جب میں پچھلے ماہ گھر لوٹا تو بہت سی تبدیلیوں کو دیکھ کر چونک گیا۔ رام دھنی حجام نے مٹی کا مکان توڑ کر پختہ مکان بنوا لیا تھا۔ ننھک ساؤ نے جس کی دکان میں تیل کی ڈبیا جلتی رہتی تھی اب بجلی لگالی تھی۔ رؤف صاف پیش کار کا مکان گر چکا تھا۔ احمد صاحب مختار کا مکان بک گیا تھا اور امین صاحب کی ڈیوڑھی گر گئی تھی۔ رفیق قصاب کے مکان میں مرکری ٹیوب لگ گیا تھا۔ اور ہر وقت زور زور سے ریڈیو بجتا رہتا تھا۔ اورنگ زیب کے عہد میں بنی ہوئی شاہی مسجد میں لوگوں نے چندہ کر کے بجلی اور پنکھا لگوا دیا تھا مگر نمازیوں کی تعداد صفر کے برابر ہو گئی تھی اور بے چارے پیش امام صاحب اکثر بغیر مقتدی کے نماز پڑھتے تھے۔ مگر سب سے زیادہ دکھ خلیفہ جی کو دیکھ کر ہوا... ان کی بیوی مر چکی تھی۔ دونوں لڑکے شادی کر کے اپنا اپنا گھر بسا چکے تھے اور خلیفہ جی کی خبر بھی نہ لیتے تھے۔ مکان کی چہار دیواری اور ایک کوٹھری گر گئی تھی اور صرف ایک کوٹھری سلامت رہ گئی تھی۔ جس کی دیوار میں دراڑیں پڑ گئی تھیں۔ برسات کے دنوں میں چھپر سے اس قدر پانی ٹپکتا تھا کہ کچی زمین تالاب بن جاتی۔ آنگن میں لگا ہوا بیر کا درخت خلیفہ جی کی زندگی کی طرح جھلس کر رہ گیا تھا۔

    خلیفہ جی وقت سے پہلے بوڑھے ہو چکے تھے۔ نئے فیند کے کپڑے سینا خلیفہ جی کے بس کی بات نہ تھی۔ نئی ہوا چلی تو کارو بار ٹھپ ہو گیا۔ اب تو دیہات کے لوگ بھی بنڈی کی بجائے ڈبل کف کی قمیض اور مرزئ کی بجائے بش شرٹ پسند کرنے لگے، راج مزدور، رکشا والے، قلی، سبھی فلائنگ شرٹ پہننے میں فخر محسوس کر تے تھے۔ نہ پرانے طرز کے کپڑے لوگوں کو پسند تھے نہ خلیفہ جی کی پرانی ڈھنگ کی سلائی۔ اس پر گرانی نے قیامت ڈھائی۔ لاٹھی کی مار آدمی سہہ سکتا ہے مگر بھوک کی مار سے تو ہاتھی بھی زمین دھر لیتا ہے۔ خلیفہ جی تو آدمی ہی تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے چار پائی دھر لئے۔ بیوی نے خون تھوک تھوک جان دے دی۔ بچے نالائق نکل گئے اور گٹھیا نے خلیفہ جی کی کمر توڑ دی۔ بینائی کمزور ہو گئی اور تھانے والے پیر صاحب کی مزار تک جانا بھی دوبھر ہو گیا۔ دن رات نیم تاریک کوٹھری میں پڑے رہتے۔ کبھی کبھی سلائی کا کام مل جاتا تو دھیرے دھیرے اپنی زنگ آلود مشین پرسی لیتے۔ ورنہ بیٹوں کے ٹکڑوں کے محتاج بنے، چار پائی پر پڑے اللہ اللہ کرتے رہتے۔ محلے والے بھی گویا انھیں بھول ہی گئے تھے فرصت کسے تھی اپنے کاروبار سے جو خلیفہ جی کی جوانی یاد کرتا۔

    میں نے چاہا کہ خلیفہ جی کی کچھ مالی مدد کروں مگر ان کی خود داری کا خیال آتے ہی ہمت پست ہو گئی۔ پھر بھی ان سے ملنے چلا گیا۔ آواز دی تو تاریک کوٹھری سے آواز آئی۔

    ’’کون ہے؟‘ خلیفہ جی کی آواز کافی کمزور تھی۔

    ’’میں ہوں خلیفہ جی شفّو۔‘ میں نے اپنے بچپن کے نام سے تعارف کرایا کہ شاید یاد ہو۔

    ’’کون چھوٹے بابو... آ جائیے۔ اللہ آپ کو خوش رکھے.... کب آئے؟‘‘

    وہ مجھے دعائیں دینے لگے۔ میں کوٹھری میں داخل ہوا تو خلیفہ جی ایک ٹوٹی ہوئی چار پائی پر پڑے تھے۔ ٹوٹی ہوئی دیوار سے دھوپ کی پتلی سی لکیر خلیفہ جی کے جسم کو دو حصوں میں بانٹ رہی تھی۔ کثیف سا بستر تھا۔ جسم پر کرتے میں بے شمار پیوند لگے تھے۔ پھر بھی ان کی سیاہ جلد کرتے سے جھانک رہی تھی۔ ایک ٹوٹی سی صراحی کے بغل میں ان کا پرانا حقہ کس مپرسی کے عالم میں پڑا ہو اتھا۔ کونے میں ان کی پرانی زنگ خوردہ مشین گردوں میں اٹی پڑی تھی۔ خلیفہ جی کو دیکھ کر مجھے جھٹکا سالگا۔ وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ معلوم ہو رہے تھے۔ آنکھیں اندر کودھنس گئی تھیں جنھیں دیکھ کر خوف سا محسوس ہو رہا تھا۔

    ’’کیسے ہیں خلیفہ جی۔‘‘ میں نے ہمدردی سے پوچھا تھا مگر جیسے خلیفہ جی کے زخموں پر نمک کا چھڑکاؤ ہو گیا۔ وہ بلبلا اٹھے۔

    ’’کیا پوچھتے ہو بابو۔ یہ دنیا بہت کھراب ہے۔ بھائی بند بیٹا، بیٹی، کوئی کسی کا نہیں ہوتا۔ آدمی سے اچھی تو یہ لوہے کی مشین ہے بابو جو میرا ساتھ دے رہی ہے۔‘‘

    میں نے مشین کی طرف دیکھا جو واقعی خلیفہ جی کا ساتھ دے رہی تھی۔ خلیفہ جی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے جسے ا ن کی خود داری نے چھلکنے نہ دیا اور وہ پھر بول اٹھے۔

    ’’خلیفہ مر چکا ہے۔ ہم تو اس کی لاش ہیں لاش....‘‘

    خلیفہ جی واقعی ایک لاش تھے ایک ایسی زندہ لاش جسے دیکھ کر میں کانپ اٹھا۔ ان کی خود دار آنکھوں میں بلا کا کرب نمایاں تھا۔ میں کچھ کہنے ہی والا تھا کہ شبراتی میاں کے پوتے نے آکر اطلاع دی۔

    ’’کھلیپا جی... دادا مر گیا۔ کفن سینے کو بلایا ہے۔‘‘ اور یہ کہہ کر وہ چلا گیا میں شبراتی میاں کے متعلق سوچنے لگا جو خلیفہ جی کے بچپن کے گہرے دوست اور رشتہ دار بھی تھے۔ دونوں میں گاڑھی چھنتی تھی۔ فرق یہ تھا کہ شبراتی میاں کے بیٹے نے کپڑے کی دکان اور رکشا کی آمدنی سے دولت جمع کر لی تھی اور شبراتی میاں کو آرام و آسائش سے رکھتا تھا۔ مگر خلیفہ جی نیم تاریک کوٹھری میں زندہ لاش کی صورت پڑے تھے۔ میں نے سوچا کہ بچپن کے دوست کی موت سے خلیفہ جی کو گہرا صدمہ پہنچا ہوگا اور مجھے اس لڑکے پر غصہ آنے لگا جس نے اچانک خلیفہ جی کو ایسی المناک خبر سنا دی۔ مگر دوسرے ہی لمحہ میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب میں نے خلیفہ جی کے چہرے پر ایک عجیب سی آسودگی اور ان کی اداس آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک دیکھی۔ میں کچھ سمجھ نہ سکا۔ وہ جلدی سے اٹھے اور قینچی وغیرہ لے کر لڑکھڑاتے ہوئے قدموں سے چل پڑے جیسے جلد از جلد وہاں پہنچ جانا چاہتے ہوں۔

    میں سوچنے لگا کہ اتنا کچھ ہونے پر بھی خلیفہ جی کی وضع داری اور رواداری میں کوئی فرق نہیں آیا ہے اور آج بھی وہ اسی انہماک سے دوسروں کے غم میں شریک ہوتے ہیں۔ خلیفہ جی کی وقعت میری نگاہوں میں اور بڑھ گئی۔ کتنا عظیم ہے یہ شخص۔ مگر دوسرے لمحہ شبراتی میاں کی موت کی خبر سے خلیفہ جی کے چہرے پر پیدا ہونے والی آسودگی اور آنکھوں کی چمک ایک سوالیہ نشان بن کر میرے سامنے کھڑی ہو گئی اور میں اس کا مفہوم نہ سمجھ سکا۔

    شام کو میں شبراتی میاں مرحوم کی تعزیت میں ان کے گھر پر گیا تو تجہیز و تکفین ہو چکی تھی۔ اور سارے لوگ واپس جا چکے تھے۔ میں نے دیکھا کہ خلیفہ جی ہاتھ میں سفید نیا لٹھے کا ٹکڑا لئے جانے کو تیار کھڑے ہیں۔ معاً میرے ذہن کو دھچکا سا لگا۔ یقیناًیہ سفید کپڑا کفن کا بچا ہوا حصہ تھا۔ میری آنکھوں کو یقین نہ آیا مجھے ایسا لگا جیسے خلیفہ جی کے ہاتھوں میں سفید لٹھا نہیں ہے بلکہ کوئی لاش اپنا کفن ہاتھوں میں لئے کھڑی ہے۔

    خلیفہ جی محجوب کھڑے سے تھے کہ شبراتی میاں کے لڑکے نے آواز دی۔ ’’خلیفہ جی سلائی لیتے جائیے—‘‘ اور یہ کہتے ہوئے ایک ایک کے دو نوٹ اس نے خلیفہ جی کی داہنی ہتھیلی پر رکھ دئیے۔

    خلیفہ جی کا ہاتھ کانپ گیا۔ ان کا چہرہ سفید پڑ گیا۔ میں نے سمجھا کہ ابھی ابھی وہ یہ روپئے شبراتی میاں کے لڑکے کے منہ پر دے ماریں گے جس نے خلیفہ جی کو ایک غلیظ سی گالی دی تھی—————— مگر دوسرے ہی لمحہ خلیفہ جی کر گرفت روپیوں پر مضبوط ہو گئی اور میں سوچنے لگا کہ حقیقت میں آج کس کی موت ہوئی تھی—؟

    مأخذ:

    (Pg. 132)

    • مصنف: شفیع مشہدی
      • ناشر: تاج پریس، گیا
      • سن اشاعت: 1976

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے