تشریح
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ہمارے کلاسیکی شعرا نے تلازمات کی مناسبتوں سے جگہ جگہ پر ایہام کے وہ جلوے دکھائے ہیں کہ عقلِ انسانی متحیر ہوجاتی ہے۔اگرچہ سراجؔ نے بعض اشعار میں ایہام پیدا کرکے معنی کی جہتوں میں اضافہ کیا ہے مگر زیر بحث شعر کے بارے میں اتنا ضرور کہوں گا کہ یہ اپنی نوعیت کاایک عجائب خانہ ہے۔ پہلے اس کے تلازمات کے معنیٔ قریب پر غور کرتے ہیں:
نوا: آواز، صدا، آہنگ۔
سنج: ناپنے والا، پرکھنے والا وغیرہ۔
خیال: تصور، فکر، اندیشہ، وہم، گمان وغیرہ۔
تار: رشتہ، ربط۔ دھات یا تانت کی وہ شے جسے چھیڑ کر سُر نکالتے ہیں۔
ان تلازمات کے معنی کے مد نظر جو مناسبتیں بنتی ہیں ان پر غور کیجیے:
نوا کی مناسبت سے سنج، نوا سنج کی مناسبت سے طنبورہ اور تار نیز حقیقت کی مناسبت سے خیال۔ حقیقت اور خیال میں جو تناسب ہے وہ اسے مراعات النظیر کا درجہ عطا کرتا ہے۔ ان مناسبتوں کی روشنی میں شعر کی جو تشریح بنتی ہے اسے ان الفاظ میں بیان کیا جاسکتا ہے۔ دل کے طنبورے کا تار کوئی عام تار نہیں ہے بلکہ یہ ایسا تار ہے کہ جب بجتا ہے تو اس میں جو حقیقت(راستی، درستی، اصل) کی آواز نکلتی ہے اس کو خیال(وہم، گمان، اندیشہ) پرکھتا یا معنی دیتا ہے۔ یعنی دل سے نکلنے والی آواز راست، درست اور اصل نہیں ہوتی بلکہ اس کی نوعیت خیال یعنی تصور، وہم اور گمان جیسی ہے۔ اس لئے جاننا چاہیے کہ دل کی آواز کو حقیقت پر قیاس نہ کرنا چاہیے۔ دل اور خیال میں صنعتِ تضاد ہے۔ دل جذبہ پیدا کرتا ہے جبکہ خیال کا دماغ سے سروکار ہے۔ ہر چند کہ دل اور خیال متضاد ہیں مگر دونوں میں ایتلاف ہے۔ یعنی تضاد کے علاوہ ایک نوع کی مناسبت ہے۔
اب ان تلازمات کے معنیٔ بعید پر غور کرتے ہیں جن سے ایہام پیدا ہوا ہے۔
نوا:’’نام مقامے از دوازدہ مقامِ موسیقی‘‘(معین) یعنی ایرانی موسیقی کے بارہ مقامات میں سے ایک نوا کہلاتا ہے۔
سنج:’’قدیمی: از آلاتِ موسیقی و آن دو صفحۂ برنجی مدوار و محدب است کہ با دست برھم کوبیدہ می شود۔ (معین) عمید مزید وضاحت یوں کرتا ہے’’درر ارکسترہای سمفونک یکی از ساز ہای کوبی اصل است و بہ طریقہ ہای مختلف نواختہ می شود۔‘‘یعنی جھانج (جھانجھ) جلاجل، مجیرا۔ تانبے کی دو گہری رکابیاں جنہیں آپسمیں ٹکرا کر یا کسی تختے پر رکھ کر لکڑی سے بجایا جاتا ہے۔
سنی جھانجھ نے جو خوشی کی صدا
تھکنے لگا تالیوں کو بجا
)میر حسن(
خیال: دھر پد(دھرپت) کے مقابلے میں ہندوستانی موسیقی کی ایک صنف جس کے مضامین عاشقانہ ہوتے ہیں اور جس میں تان اور ترکیبوں سے خوبصورتی پیدا کی جاتی ہے۔
تار: ’’یکے از ساز ھای ایرانی بایک کاسہ، پنج تارودستہ ای بلند‘‘(معین(
اب ملاحظہ فرمائیں کہ زیرِ بحث شعر میں ایہام تناسب کیسے پیدا کیا گیا ہے۔ ’’نوا’’ میں معنیٔ قریب (صدا، آواز) مقصود ہے جبکہ معنیٔ بعید(موسیقی کا ایک مقام) غیر مقصود ہے۔ ‘‘خیال’’ میں معنیٔ قریب(وہم و گماں، اندیشہ) مقصود ہے جبکہ معنیٔ بعید(موسیقی کی ایک صنف) غیر مقصود۔ ‘‘سنج ’’ معنی معنیٔ قریب (پرکھنے والا، ناپنے والا)مقصود ہے جبکہ معنیٔ بعید(جھانج) غیر مقصود۔ اسی طرح ‘‘تار’’میں معنیٔ قریب (کسی ساز کا تار) مقصود ہے جبکہ معنیٔ بعید(ایک ساز) غیر مقصود ہے۔ دیکھیے کس کمال سے سراج نے شعر میں ایہام پیدا کیا ہے۔
شفق سوپوری