Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کہا میں نے کتنا ہے گل کا ثبات (ردیف .. ا)

میر تقی میر

کہا میں نے کتنا ہے گل کا ثبات (ردیف .. ا)

میر تقی میر

MORE BYمیر تقی میر

    کہا میں نے کتنا ہے گل کا ثبات

    کلی نے یہ سن کر تبسم کیا

    تشریح

    یہ شعر اس قدر مشہور ہے کہ اس پر اظہار خیال شاید غیر ضروری معلوم ہو۔ لیکن درحقیقت اس میں کئی باتیں توجہ طلب ہیں۔ پہلا مصرع عام طور پر یوں مشہور ہے۔

    کہا میں نے گل کا ہے کتنا ثبات

    لیکن یہ صحیح شکل وہی ہے جو درج متن ہے۔ ’’کتنا‘‘ کا لفظ مقدم ہونے سے مصرع میں زور بڑھ گیا ہے۔ شعر کا مفہوم اتنا واضح نہیں جتنا بادی النظر میں معلوم ہوتا ہے۔ پہلے مصرع میں جو سوال ہے (گل کا ثبات کتنا ہے؟) اس کا مخاطب کوئی نہیں، وہ کلی تو ہرگز نہیں جس نے اسے ’’سن کر‘‘ جواب دیا ہے، بلکہ محض تبسم کیا ہے۔ ممکن ہے یہ سوال محض ایک خودکلامی ہو، اور اس کے جواب کی توقع پوچھنے والے کو نہ ہو۔ ممکن ہے یہ سوال نہ ہو بلکہ اظہار حیرت ہو کہ گل کا ثبات کتنا (یعنی کس قدر زیادہ، یا کس قدر کم) ہے! لیکن جواب پھول کی طرف سے نہیں آتا، ایک کلی ضرور مسکراتی ہے، لیکن ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ جواباً مسکرائی ہے۔ (یعنی اس کی مسکراہٹ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ پھول کی زندگی بس اتنی ہے کہ کلی مسکرا کر پھول بن جائے، جتنا وقفہ کلی کو مسکرا کر پھول بننے میں لگتا ہے، اتنا ہی وقفہ پھول کو مرجھانے میں لگتا ہے۔) یا طنزاً مسکرائی ہے ۔ (یعنی اس کی مسکراہٹ زبان حال سے کہتی ہے کہ تم احمق ہو جو ایسا سوال پوچھتے ہو۔) یا شاید کلی اس لئے مسکرائی ہے کہ ’’گل کا ثبات کتنا ہے‘‘ کہنے والے شخص کا خود کچھ بھروسا نہیں، خود اس کی زندگی کا کوئی اعتبار نہیں، اور وہ اس فکر میں مبتلا ہے کہ گل کا ثبات کتنا ہے! یہ سوال پوری طرح نہیں ہوتا کہ کلی کیوں (جواباً یا طنزاً) مسکرائی ہے؟ ردعمل تو پھول کی طرف سے ہونا چاہئے تھا، لیکن پھول خاموش رہتا ہے۔غالباً اس وجہ سے کہ پھول کو یارائے گویائی نہیں۔ کِھل جانے کے بعد اس کی دل جمعی ختم ہوجاتی ہے۔ یا شاید اس وجہ سے کہ پھول کا وجود صرف اسی وقت تک ہے جب تک وہ کلی کی شکل میں ہے، کیوں کہ جب تک کلی ہے، پھول کا وجود برقرار ہے۔ کلی کھل کر پھول بنی تو اس کے وجود کو زوال آگیا، کیونکہ پھول بننے کے بعد مرجھانا لازم ہے۔ کلی کے مسکرانے میں ایک طرح کا الم ناک وقار (tragic dignity) بھی ہے، کیوں کہ مسکرانا اس کے لئے فنا کی تمہید ہے لیکن پھر بھی وہ مسکرانے سے باز نہیں آتی، کیونکہ اسے اپنی زندگی کے منصب سے عہدہ بر آ ہونا ہے۔ یہ نکتہ بھی دلچسپ ہے کہ پھول کے کان فرض کئے جاتے ہیں، لیکن وہ نہیں سنتا، کلی سنتی ہے اور تبسم کرتی ہے۔ شاید پھول کے کان محض مصنوعی ہیں، اور کیوں نہ ہوں، جب اس کا وجود ہی مشتبہ ہے۔ کلی شاید یہ کہہ رہی ہے کہ جب ہم کو ہی ثبات نہیں (ادھر مسکرائے ادھر ہوا ہوئے) تو پھول کو ثبات کہاں سے ہوگا۔

    شمس الرحمن فاروقی

    مأخذ :
    • کتاب : paiman-e-gazal-avval (Pg. 59)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے