کہا میں نے کتنا ہے گل کا ثبات (ردیف .. ا)
کہا میں نے کتنا ہے گل کا ثبات
کلی نے یہ سن کر تبسم کیا
تشریح
یہ شعر اس قدر مشہور ہے کہ اس پر اظہار خیال شاید غیر ضروری معلوم ہو۔ لیکن درحقیقت اس میں کئی باتیں توجہ طلب ہیں۔ پہلا مصرع عام طور پر یوں مشہور ہے۔
کہا میں نے گل کا ہے کتنا ثبات
لیکن یہ صحیح شکل وہی ہے جو درج متن ہے۔ ’’کتنا‘‘ کا لفظ مقدم ہونے سے مصرع میں زور بڑھ گیا ہے۔ شعر کا مفہوم اتنا واضح نہیں جتنا بادی النظر میں معلوم ہوتا ہے۔ پہلے مصرع میں جو سوال ہے (گل کا ثبات کتنا ہے؟) اس کا مخاطب کوئی نہیں، وہ کلی تو ہرگز نہیں جس نے اسے ’’سن کر‘‘ جواب دیا ہے، بلکہ محض تبسم کیا ہے۔ ممکن ہے یہ سوال محض ایک خودکلامی ہو، اور اس کے جواب کی توقع پوچھنے والے کو نہ ہو۔ ممکن ہے یہ سوال نہ ہو بلکہ اظہار حیرت ہو کہ گل کا ثبات کتنا (یعنی کس قدر زیادہ، یا کس قدر کم) ہے! لیکن جواب پھول کی طرف سے نہیں آتا، ایک کلی ضرور مسکراتی ہے، لیکن ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ جواباً مسکرائی ہے۔ (یعنی اس کی مسکراہٹ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ پھول کی زندگی بس اتنی ہے کہ کلی مسکرا کر پھول بن جائے، جتنا وقفہ کلی کو مسکرا کر پھول بننے میں لگتا ہے، اتنا ہی وقفہ پھول کو مرجھانے میں لگتا ہے۔) یا طنزاً مسکرائی ہے ۔ (یعنی اس کی مسکراہٹ زبان حال سے کہتی ہے کہ تم احمق ہو جو ایسا سوال پوچھتے ہو۔) یا شاید کلی اس لئے مسکرائی ہے کہ ’’گل کا ثبات کتنا ہے‘‘ کہنے والے شخص کا خود کچھ بھروسا نہیں، خود اس کی زندگی کا کوئی اعتبار نہیں، اور وہ اس فکر میں مبتلا ہے کہ گل کا ثبات کتنا ہے! یہ سوال پوری طرح نہیں ہوتا کہ کلی کیوں (جواباً یا طنزاً) مسکرائی ہے؟ ردعمل تو پھول کی طرف سے ہونا چاہئے تھا، لیکن پھول خاموش رہتا ہے۔غالباً اس وجہ سے کہ پھول کو یارائے گویائی نہیں۔ کِھل جانے کے بعد اس کی دل جمعی ختم ہوجاتی ہے۔ یا شاید اس وجہ سے کہ پھول کا وجود صرف اسی وقت تک ہے جب تک وہ کلی کی شکل میں ہے، کیوں کہ جب تک کلی ہے، پھول کا وجود برقرار ہے۔ کلی کھل کر پھول بنی تو اس کے وجود کو زوال آگیا، کیونکہ پھول بننے کے بعد مرجھانا لازم ہے۔ کلی کے مسکرانے میں ایک طرح کا الم ناک وقار (tragic dignity) بھی ہے، کیوں کہ مسکرانا اس کے لئے فنا کی تمہید ہے لیکن پھر بھی وہ مسکرانے سے باز نہیں آتی، کیونکہ اسے اپنی زندگی کے منصب سے عہدہ بر آ ہونا ہے۔ یہ نکتہ بھی دلچسپ ہے کہ پھول کے کان فرض کئے جاتے ہیں، لیکن وہ نہیں سنتا، کلی سنتی ہے اور تبسم کرتی ہے۔ شاید پھول کے کان محض مصنوعی ہیں، اور کیوں نہ ہوں، جب اس کا وجود ہی مشتبہ ہے۔ کلی شاید یہ کہہ رہی ہے کہ جب ہم کو ہی ثبات نہیں (ادھر مسکرائے ادھر ہوا ہوئے) تو پھول کو ثبات کہاں سے ہوگا۔
شمس الرحمن فاروقی
- کتاب : paiman-e-gazal-avval (Pg. 59)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.