مانند شمع مجلس شب اشکبار پایا
مانند شمع مجلس شب اشکبار پایا
القصہ میرؔ کو ہم بے اختیار پایا
تشریح
’’القصہ‘‘ کا لفظ یہاں کس قدر معنی خیز ہے۔ پہلے مصرعے میں ایک سرسری بات کہی، مصرع بہ ظاہر اتنا کمزور ہے کہ اچھا شعر بننے کا امکان نہیں معلوم ہوتا۔ لیکن ’’القصہ‘‘ کہہ کر یہ ظاہر کیا کہ میر کی بے اختیاری اور بےچارگی کی تفصیلات اس قدر ہیں کہ وضاحت کیا کریں۔ پہلے اور دوسرے مصرعے کے درمیان بہت کچھ بے کہے چھوڑ دیا ہے، صرف ایک لفظ سے سب کام نکال لئے۔
مصرع ثانی میں لفظ ’’بے اختیار‘‘ بھی بہت معنی خیز ہے۔ جس طرح شمع مجلس کو رونے پر اختیار نہیں ہوتا، وہ جلتی ہے اور روتی ہے، اسی طرح میر کو بھی اپنے جلنے اور رونے پر اختیار نہ تھا۔ اگر لفظ ’’بے اختیار‘‘ نہ ہوتا تو مصرع اولیٰ کی معنویت بہت کم ہوجاتی اور دونوں مصرعوں کا ربط کمزور ہوجاتا۔ مصرعوں کے درمیان کامل ربط رکھنا بہت مشکل اور اہم فن ہے۔ پرانے لوگوں نے ربط بین المصرعتین کو اسی لئے بنیادی اہمیت دی ہے۔ اکثر تو کسی شاعر یا کسی کلام کی تعریف میں اتنا کہہ دینا ہی کافی سمجھا جاتا ہے کہ مربوط است۔ میر نے دکن کے شعرا پر اعتراض یہی کیا ہے کہ ان کا کلام مربوط نہیں ہوتا۔ قائم نے اپنے تذکرے میں اس اعتراض کی تردید کی ہے۔
شعر زیر بحث میں مصرع اولیٰ ایک منظر پیش کرتا ہے، کہ شمع مجلس کی مانند میر بھی اشکبار تھا۔ ظاہر ہے بنیادی بات شمع سے مشابہت ہے۔ اب اگر مصرع ثانی میں کوئی ایسی بات نہ ہو جس سے شمع کی اشکباری کی صفت ظاہر ہوتی ہو یا یہ معلوم ہوتا ہو کہ شمع کس طرح اشکبار ہوتی ہے، دونوں مصرعوں میں ربط کم رہے گا۔ طباطبائی نے بجا طور پر مصرعے پر مصرع لگانے کو بہت بڑا فن قرار دیا ہے۔
شمس الرحمن فاروقی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.