میں نے چاہا تھا کہ اندوہ وفا سے چھوٹوں (ردیف .. ا)
میں نے چاہا تھا کہ اندوہ وفا سے چھوٹوں
وہ ستم گر مرے مرنے پہ بھی راضی نہ ہوا
تشریح
اندوہ کے معنی ہیں دکھ، پریشانی یا فکر مندی۔ اندوہِ وفا کہہ کر غالبؔ نے وفا کے راستے میں پیش آنے والی تمام مصیبتوں کا تذکرہ کر دیا ہے۔ شعر کا سیدھا اور سامنے کا مطلب یہی نظر آتا ہے کہ عاشق نے وفا کی سختیوں سے تنگ آ کر اپنی جان دے دی لیکن پھر بھی معشوق خوش اور راضی نہیں ہوا۔ خیال رہے کہ عاشق ترکِ وفا کی بات نہیں کر رہا ہے بلکہ وفا کی مصیبتوں سے چھٹکارے کی بات کر رہا ہے۔ معشوق مرنے پہ بھی راضی نہ ہوا تو وفا کا قرض، اپنی سختیوں کے ساتھ مرنے کے بعد بھی اس کے سر پر موجود ہے۔ عاشق کی وفا کا تقاضا تو یہ تھا کہ وہ تمام مصیبتوں کے بعد بھی معشوق کی رضا جوئی میں لگا رہتا۔ لیکن وہ وفا کے اندوہ سے تنگ آ کر مر گیا لیکن مرنے کے بعد بھی اندوہِ وفا اس کے ساتھ چمٹا ہوا ہے کہ وہ وفا کے تقاضے پورے نہیں کر سکا۔ شعر کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ عاشق نے اندوہِ وفا سے نجات حاصل کرنے کے لیے معشوق کے سامنے مر جانے کی خواہش ظاہر کی لیکن معشوق نے اس کی اجازت نہیں دی، شاید اس لیے کہ اس جیسا باوفا عاشق اسے دوسرا ملنے والا نہیں تھا یا پھر اس لیے کہ ابھی وہ عاشق پر کچھ اور ستم ڈھانے کا ارادہ رکھتا تھا۔ شعر کا حاصل یہ ہے کہ عاشق کو اندوہِ وفا سے نجات نہ مر کر حاصل ہوسکتی ہے اور نہ جی کر۔ دوسرے لفظوں میں شاعر نے یہ کہا ہے کہ عشق اور وفا اور ان سے جڑی ہوئی تمام باتیں زندگی اور موت کی حدوں سے آزاد ہیں۔
محمد اعظم
- کتاب : paiman-e-gazal-avval (Pg. 144)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.