مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی
مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی
ہیولیٰ برق خرمن کا ہے خون گرم دہقاں کا
تشریح
تعمیر: ترتیب کے ساتھ مرحلہ وار بنایا گیا کوئی سانچہ یا ڈھانچہ
مضمر: چھپا ہوا، پوشیدہ
ہیولی: بنیادی، مادہ، سورس، میٹیریل
برق: بجلی (آسمانی)
خرمن: کھلیان، جہاں کھیت سے کاٹ کر اناج اکٹھا کیا جاتا ہے
دہقاں: کسان، کاشتکار۔
اس شعر کی تشریح سے پہلے ضروری ہے کہ دیکھ لیا جاے کہ اسے کس طرح سمجھا گیا ہے اور کیا اس شعر کی اب تک کی گئی تشریحات شعر کے الفاظ کا پوری طرح ساتھ دیتی ہیں؟ حسرت موہانی فرماتے ہیں’’ہیولی یعنی مادّہ، خونِ گرم بہ معنی سعی و کوشش۔ دہقاں کے خون کی گرمی جو فراہمیٔ خرمن کی سعی و مشقت سے پیدا ہوتی ہے، وہی گویا اس کے لئے برق ہو جاتی ہے اس لئے نہ وہ خرمن اکٹھا کرتا ہے نہ اس کی بربادی کی صورت پیدا ہوتی‘‘ غیر ضروری صراحت اور تکرار کو حذف کرتے ہوئے اس شعر کے حوالے سے یوسف سلیم چشتی کی تشریح کچھ اس طرح ہے’’غالب کہتے ہیں کہ ہر تعمیر میں تخریب کا پہلو پوشیدہ ہے۔ اس شعر میں جو حکیمانہ نکتہ بیان کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ تخریبی عناصر خارج سے نہیں آتے بلکہ اسی شئے میں پوشیدہ ہوتے ہیں۔ دوسرے مصرع میں اس نکتہ کو اک مثال سے واضح کیا گیا ہے۔ کہتے ہیں کہ جو بجلی خرمنِ دہقاں پر گرتی ہے، اس کا ہیولیٰ دہقاں کے خونِ گرم سے تیار ہوتا ہے۔ غالب نے اپنے وجدانِ شعری کی بدولت یہ نکتہ دریافت کیا کہ یہی گرمیٔ خون اس برق کا ہیولی (مادہ) ہے جوعنقریب خرمن پر گر کر دہقاں کی تعمیر کو تخریب میں مبدل کر دے گی۔‘‘ آگے اس شعر کے بنیادی تصور کے ضمن میں لکھتے ہیں’’ہر تعمیر میں تخریب کا پہلو مضمر ہے۔‘‘
نظم طباطبائی نے اختصار کے ساتھ قدرے احتیاط سے کام لیتے ہوئے لکھا ’’یعنی میں وہ دہقاں ہوں جس کی سرگرمی خود اُسی کے خرمن کے لئے برق کا کام کرتی ہے۔ یعنی خرمن کو جلا ڈالتی ہے۔ یہ اشارہ اس طرف ہے کہ حرارتِ غریزی جو کہ باعثِ حیات ہے، خود ہی ہر وقت تحلیل و فنا بھی کر رہی ہے۔ تعمیر سے تعمیرِ جسمِ خاکی مقصود ہے۔ خونِ گرم بہ معنی سرگرمی’’اس شعر کی تشریح میں ممتازاسکالر سہا مجددی بھی خون کی گرمی، اس سے جسم کی پرورش اور پھر اُسی گرمی سے جسم کے فنا کی بحث کے بعد لکھتے ہیں’’یہی تعمیر میں تخریب یا تعمیرِ جسم میں خرابی کی صورت ہے۔ یہ ایک طبی استدلال ہے جس کو فلسفہ کی اصطلاحوں اور شاعری کے استعاروں میں انسان کی ہستیٔ بے ثبات کی تمثیل کے لئے بیان کیا گیا ہے۔‘‘ ان تشریحات میں صرف نظم طباطبائی ہیں جنہوں نے پہلا جملہ ٹھیک ٹھاک لکھا لیکن پھر جسم کی تعمیر و تخریب کی بات کرنے لگے۔ ہر تعمیر میں تخریب کے پنہاں ہونے کے فلسفیانہ اور سائنسی اصول کو اس شعر کی معنوی بنیاد بنانا اس لئے غلط ہے کہ شاعر نے ’’ہر تعمیر‘‘ کی بات ہی نہیں کی۔ وہ تو اپنی بات کر رہا ہے۔ شاعر بڑی آسانی سے کہہ سکتا تھا کہ ’’ہر اک تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی‘‘ اس طرح تو مصرع زیادہ جامع، فلسفیانہ اور بلند آہنگ ہو جاتا اور ’’ہر تعمیر‘‘ میں شاعر کی تعمیر شامل ہی ہوتی۔ باغ میں پھول صبح کے وقت کھلتے ہیں اب اگر کوئی یہ کہے کہ میرے باغ میں پھول صبح کے وقت کھلتے ہیں تو اس کا یہ بیان مضحکہ خیز ہوگا۔ صاف ظاہر ہے کہ شعر کہتے وقت شاعر کے خیال کا فوکس تعمیر و تخریب کے مبینہ عام اصول کی طرف نہیں تھا۔ ہو سکتا ہے کہ اس کے ذہن میں یہ بات رہی ہی نہ ہو۔ اب دوسرے مصرع کی طرف آتے ہیں۔ اس کو پڑھتے وقت جو باتیں متوجہ کرتی ہیں، وہ ہیں، دہقاں کے خون کا گرم ہونا۔ اس گرمی کا برق کی صورت اختیار کرنا۔ اور برق کا خرمن پر گرنا۔ فی الحال اس بحث کو چھوڑ دیتے ہیں کہ خون کی گرمی خرمن کی فراہمی کا سبب بنی یا خرمن کی فراہمی نے دہقاں کے خون کو گرم کیا۔ ہر تعمیر میں تخریب کے مضمر ہونے کی تمثیل خونِ گرم دہقاں کے برق بن کر خرمن کو جلانے سے اس لئے بے جا ہے کہ دہقاں کا خون تو خرمن کی فراہمی کے نتیجہ میں ہمیشہ ہی گرم ہوتا ہے اور وہ ہمیشہ تو برق بن کر خرمن کو جلاتا نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو آج دنیا میں اناج کا ایک دانہ بھی نہ ہوتا۔ اسی لئے ’’مری تعمیر‘‘ کا ٹکڑا اس شعر کی جان ہے۔ یہاں ’ایسا ہوتا ہے، ویسا ہوتا ہے‘ کی گنجائش نہیں، بلکہ کہا جا رہا ہے کہ یوں تھا اور یوں ہوا۔ شعر کو نثر میں سیدھا کریں تو بیان کچھ اس طرح ہو گا ’’مری تعمیر کچھ ایسی تھی کہ اس میں خرابی کی اک صورت مضمر تھی جیسے کوئی دہقاں مشقت سے خرمن فراہم کرے اور خود اسی کے خون کی گرمی برق بن کر اس کے خرمن کو جلا دے۔‘‘ جسم کی گرمی، اس سے جسم کی پرورش اور پھر اسی سے جسم کی تباہی کی بحث اس شعر کا ساتھ نہیں دیتی کیوں کہ مذکورہ جسمانی عمل نہایت خاموشی سے، غیر محسوس طریقہ سے اک طویل مدّت میں ہوتا ہے جس کی مثال برق (آسمانی بجلی) سے دینا نامناسب ہے کیونکہ بجلی پلک جھپکتے گرتی ہے، چند سیکنڈ بھی نہیں لگتے۔ دراصل غالب ’’مری تعمیر‘‘ کی بات کہہ کر اس خمیر کی طرف اشارہ کر رہے جس سے ان کی شخصیت کی تعمیر ہوئی، وہ ان جیننس (Genes) کی بات کر رہے ہیں جو ان کی جسمانی، ذہنی، فکری اور حسّیاتی نظام کی تشکیل کی اساس بنے۔ وہ کہتے ہیں کہ دوسری باتوں کے علاوہ میرے جذبہ و احساس کی شدت کی گرمی ایسی ہے جیسے خونِ گرم دہقاں برق بن کر خود اسی کے خرمن کو جلا دے۔ معاملہ عشق کا ہو، دنیا داری کا ہو، دوستی اور انسانی ہمدردی کا ہو یا اپنے ہی جذبہ و احساس کی تہذیب کا، شاعر کی جینیاتی شخصیت نے ان سب کے معیار اتنے بلند کر رکھے ہیں کہ عام دنیوی زندگی میں کچھ ہاتھ نہیں آتا اور آرزوؤں، خواہشوں اور تمناؤں کا خرمن بار بار جلتا ہی رہتا ہے۔ گویا خونِ گرم دہقاں برقِ خرمن کا کام کرتا ہے۔ خیال رہے کہ سنجیدہ فکر انسان کے وجود میں دو شخصیات اپنا کام کرتی رہتی ہیں۔ ایک شخصیت وہ جو اک عام آدمی کی حیثیت میں وہ ہوتا ہے اور جو فرج و بطن کی لذتوں کا جویا رہتا ہے اور دوسری شخصیت وہ جو وہ بننا چاہتا ہے یعنی اس کا آئڈیل۔ ان دونوں شخصیات میں مسلسل جنگ جاری رہتی ہے اور ایک دوسرے کو مٹانے کے درپے رہتا ہے۔ تعمیر میں مضمر خرابی کی یہی صورت ہے۔ غالب کے یہاں ان کے جذبہ و احساس کی شدت کے حوالہ سے تعمیر و تخریب کا یہ عمل بہت شدید ہے۔ اس شعر میں دو غالب ہیں ایک وہ جو اپنے کام بنانے کی جدو جہد میں مصروف ہے اور دوسرا وہ جو کام کے تقریباً بن جانے کے بعد اُسے بگاڑ دیتا ہے۔
محمد اعظم
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.