نہ ملا کر اداس لوگوں سے
نہ ملا کر اداس لوگوں سے
حسن تیرا بکھر نہ جائے کہیں
تشریح
دوستو! آج ناصر کاظمی کے ایک خوب صورت شعر کی تشریح کرتے ہیں۔ ناصر کاظمی نے شاعری کو آسان استعاروں اور آسان الفاظ کے وہ پیکر عطا کئے کہ جن کا ثانی مشکل ہی سے ملتا ہے۔ کبھی کبھی تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ ناصر کاظمی کے اشعار کے الفاظ زیور کی طرح ہیں جو دل فریب حسن عطا کرتے ہیں۔ سادہ اور سہل انداز میں دنیا جہان کے مفہوم ادا کرنے کا ہنر کوئی ناصر کاظمی سے سیکھے۔
اس شعر میں شاعر اپنے محبوب سے کہتا ہے کہ تو بہت نازک اندام، نازک مزاج، نازک خیال ہے۔ تیری یہ نازکی اور سادگی تیرا حسن ہے۔ تیری شوخی، تیری شرارت، تیری شگفتگی تیرا لاوبالی پن، یہ سب اوصاف تیرے مزاج کا حصہ ہیں، جن کو ذرا سا بھی ملال، رنج اور درد پراگندہ کر سکتا ہے۔ تیرے حسن کو دکھ درد کی چھایا بھی میلا کر سکتی ہے، غم کا معمولی سا اثر بھی گندہ کر سکتا ہے اور رنج و تفکر بدرنگ کر سکتے ہیں۔ اس لیے تیرے حسن کی خیر اسی میں ہے کہ تو مجھ جیسے اداس لوگوں سے رسم و راہ بند کردے۔ بقول شاعر یہ غم کا غبار تیرے حسن کو خراب کرنے کے لئے کافی ہے۔
شعر کے ظاہری حسن کو دیکھنے کے ساتھ ساتھ معنوی حسن کو بھی دیکھنا بہت ضروری ہے۔ ایک نکتہ جو اس شعر میں پوشیدہ ہے وہ شاعر کا غم زدہ اور ملول ہونا ہے اور اس کے محبوب کا شگفتہ مزاج، حسین اور سادہ لوح ہونا ہے۔ گویا یہ سادہ مزاج محبوب جانتا ہی نہیں ہے کہ شاعر جیسے غمزدہ انسان سے مل کر اور تو کیا ہی ہوگا البتہ خود اس کا حسن ماند پڑ جائے گا۔ اس کا حسنِ ظاہری جو پھول کی طرح تروتازہ ہے، چاندنی کی طرح سادہ ہے اور اوس کی طرح نازک ہے، ذرا سی بھی آلودگیٔ الم برداشت نہیں کر سکے گا۔ اس خوبصورت انداز میں شاعر خود کو غمزدہ رنجیدہ اور ملول بتانے اور اپنے محبوب کو نازک مزاج شگفتہ اور حسین اور معصوم بتانے میں کامیاب ہے۔
سہیل آزاد
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.