رگ سنگ سے ٹپکتا وہ لہو کہ پھر نہ تھمتا
رگ سنگ سے ٹپکتا وہ لہو کہ پھر نہ تھمتا
جسے غم سمجھ رہے ہو یہ اگر شرار ہوتا
تشریح
رگِ سنگ پتھر کی رگ اور شرار چنگاری ہے۔ شاعر تصور کرتا ہے کہ پتھر میں چنگاریاں بھری ہوئی ہیں اور جب اسے رگڑا یا آپس میں ٹکرایا جاتا ہے تو اس کی کوئی رگ پھٹ جاتی ہے تو چنگاریاں باہر نکلتی ہیں لیکن بس پل بھر کے لیے۔ عاشق معشوق کی جدائی کے غم میں پوری طرح ڈوبا ہوا ہے۔ وہ خیال کرتا ہے کہ اگر پتھر میں بھی چنگاریوں کی جگہ میری طرح کا غم بھرا ہوتا تو وہ بھی اس غم کو سنبھال نہ پاتا۔ اس کی رگ وفورِ غم سے پھٹ جاتی اور ایسا خون جاری ہوتا کہ کبھی تھمنے کا نام نہ لیتا۔ یہاں پتھر سے اصل پتھر بھی مراد لیا جا سکتا ہے اور کوئی حقیقی عشق سے بے بہرہ اور سخت دل انسان بھی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بڑے سے بڑے سخت دل، دنیادار آدمی کے ساتھ بھی کوئی نہ کوئی غم لگا رہتا ہے اور وہ خود کو غمزدہ تصور کرتا ہے۔ اس جگہ شعر کا ٹکڑا ’’جسے غم سمجھ رہے ہو‘‘ پوری معنویت کے ساتھ اپنا جلوہ دکھاتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ جسے تم غم سمجھ رہے ہو اس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی پتھر میں چنگاریاں بھری ہوں جو کبھی کبھی کسی چوٹ سے باہر آ جاتی ہیں۔ اگر ان چنگاریوں کی جگہ غم ہوتا تو تم اس کو سنبھال نہ پاتے، جسم کی رگ پھٹ جاتی اور ایسا خون جاری ہوتا کہ کبھی تھمنے کا نام نہ لیتا۔ مطلب یہ کہ غم گاہے بہ گاہے چند آنسو بہا دینے کا نام نہیں، غم تو ایسی چیز ہے کہ جس کو ملتی ہے وہ مسلسل خون کے آنسو روتا رہتا ہے۔ شاعر کہنا چاہتا ہے کہ جس شخص کو حقیقی غم، جو محبوب سے جدائی کا غم ہوتا ہے، مل جاتا ہے وہ ہر وقت اسی میں ڈوبا رہتا ہے اور اس غم کے آثار اس کے سارے وجود سے نمایاں ہوتے ہیں۔ غالبؔ نے اس شعر میں بھی، اپنی خصوصیت کے مطابق، کہیں اپنی ذات یا اپنے غم کا تذکرہ نہیں کیا لیکن قاری سمجھ جاتا ہے کہ شاعر اپنے غم اور اس کی شدت کا تذکرہ کر رہا ہے۔
محمد اعظم
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.