Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

رنگ شکستہ صبح بہار نظارہ ہے

مرزا غالب

رنگ شکستہ صبح بہار نظارہ ہے

مرزا غالب

MORE BYمرزا غالب

    رنگ شکستہ صبح بہار نظارہ ہے

    یہ وقت ہے شگفتن گل ہائے ناز کا

    تشریح

    رنگ شکستہ: اڑا ہوا رنگ

    شگفتن: کھلنا

    گلہائے ناز: نازوادا کے پھول

    یہ شعر اپنے بے نظیر پیکروں اور لفظی مناسبتوں کی بدولت بار بار پڑھے جانے کے قابل ہے۔ شاعر نے اس شعر میں حسرت، انتظار اور خوشی کے ملے جلے جذبات سے جو فضا تیارکی ہے وہ نہایت دل خوش کن ہے۔ صبحِ بہارِ نظارہ اور شگفتنِ گلہائے ناز نہ صرف یہ کہ نہایت رنگین ترکیبیں ہیں بلکہ ان کا باہمی ربط بھی قابلِ دید ہے۔ شعر کو سمجھنے کی ابتدا لفظِ ’نظارہ‘ سے کیجیئے۔ نظارہ محبوب کے حسن اور اس کی اداؤں کا ہوتا ہے جو بجائے خود اک بڑا خوشگوار تجربہ ہے۔ پھر جب وہ نظارہ اپنی بہار پر ہو تو اس کا کیا عالم ہوگا! متکلم کے بقول یہ بہارِ نظارہ کی صبح ہے تو ظاہر ہے کہ اس صبح میں جو گل کھلیں گے وہ ناز و ادا کے ہی گُل ہوں گے۔ لیکن بہارِ نظارہ کی یہ صبح آخر ہے کیا؟ یہ صبح وہ نہیں جو دن کے پہلے پہر سورج طلوع ہونے کے وقت کا نام ہے۔ بہارِ نظارہ کی یہ صبح کسی بھی وقت محسوس کی جاسکتی ہے کیونکہ یہ صبح قیاسی ہے یعنی ایک رنگِ شکستہ کو شاعر صبح پر قیاس کر رہا ہے۔ رنگِ شکستہ کو صبح قیاس کرنے کے بعد شاعر کا تخیل اُسے بہارِ نظارہ اور پھر شگفتنِ گلہائے ناز کی طرف لے جاتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ رنگِ شکستہ کس کا ہے؟ امکان دو ہی ہیں۔ یا تو یہ محبوب کی بات ہو رہی ہے یا عاشق کی۔ رنگ اُڑنے، بدلنے یا تغیر ہونے کا بیان قاری کے ذہن کو وصال کے بعد والی صبح کی طرف لے جاتا ہے۔ شبِ وصال کے بعد محبوب کے چہرے کا رنگ بدل جانے کی بات فراقؔ گورکھپوری نے بھی اپنے اک شعر میں کی ہے:۔

    شبِ وصال کے بعد آئنہ تو دیکھ اے دوست

    ترے جمال کی دوشیزگی نکھر آئی

    رنگِ شکستہ کے حوالہ سے شبِ وصل کے بعد کی صبح کی طرف جانے والوں نے کہا کہ ’’شب وصل کی صبح کو محبوب کا رنگِ شکستہ صبحِ بہارِ نظارہ ہے‘‘ یعنی اس کی دل پذیری قابلِ دید ہے اس لیے کہ گلہائے ناز کے شگفتہ ہونے، یعنی سرگرم ناز ہونے کا یہی خاص وقت ہے۔ (حسرت موہانی)

    جن لوگوں نے رنگِ شکستہ سے عاشق کا رنگ مراد لیا ہے انہوں نے کہا، نظارہ اس کا موسمِ بہار ہے اور اس کے نظارے سے میرا رنگ اڑ جانا طلوعِ صبحِ بہار ہے۔ اور طلوعِ صبحِ بہار پھولوں کے کھلنے کا وقت ہوتا ہے۔ غرض یہ کہ ہر وقت نظارہ میرے منہ پر ہوائیاں اڑتے اور مہتاب چھٹتے دیکھ کر وہ سرگرمِ ناز ہوگا یعنی میرا رنگ اڑ جانا وہ صبح ہے جس میں گلہائے ناز شگفتہ ہوں گے۔’’ (نظم طباطبائی)۔

    شمس الرحمن فاروقی کا خیال ہے کہ محبوب کسی پر عاشق ہو گیا ہے۔ بہرحال شعر سے کچھ پتا نہیں چلتا کہ رنگِ شکستہ کس کا ہے۔ شعر کا لب و لہجہ عاشق کا رنگ اڑنے کو زیادہ سپورٹ نہیں کرتا محبوب کے رنگِ شکستہ کے بہرحال کئی اسباب ممکن ہیں جن کی وضاحت شاعر نے ضروری نہیں سمجھی۔ ممکن ہے محبوب کسی بیماری سے اٹھا ہو۔ اس کا رنگ اگرچہ پھیکا پڑگیا ہے لیکن اب وہ عاشقوں کے سامنے اپنے نازوادا کے پھول کھلا کر اگلا پچھلا حساب برابر کرے گا۔ اس شعر کو پڑھتے وقت رنگِ شکستہ کس کا ہے اور کیوں ہے، کے چکر میں پڑنے کی بجائے رنگِ شکستہ کو صبحِ بہارِ نظارہ کے طور پر دیکھے جانے کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہونا کافی ہے۔

    محمد اعظم

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے