Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

شہر دل ایک مدت اجڑا بسا غموں میں

میر تقی میر

شہر دل ایک مدت اجڑا بسا غموں میں

میر تقی میر

MORE BYمیر تقی میر

    شہر دل ایک مدت اجڑا بسا غموں میں

    آخر اجاڑ دینا اس کا قرار پایا

    تشریح

    ’’اجڑا بسا‘‘ روزمرہ کے استعمال کا اچھا نمونہ ہے۔ لیکن اس کی کئی معنویتیں بھی ہیں۔ بعض غم ایسے ہیں جن سے دل اجڑ جاتا ہے، لیکن بعض ایسے بھی ہیں جن سے دل آباد ہوتا ہے۔ ایک مدت تک یہی سلسلہ رہا کہ بعض غم ایسے ملے جن سے دل شاد وآباد ہوا (مثلاً شاید غم عشق۔) اور بعض ایسے ملے جن سے دل اجڑ کر رہ گیا (مثلاً شاید غم دوراں، یا شاید مزید غم کی تاب نہ لا سکنے کا غم۔) آخر کار شہر دل کو اجاڑ دینے کی ٹھہری۔ ’’قرار پایا‘‘ سے مراد یہ نکلتی ہے کہ کسی اور شخص نے، یا شخصوں نے، باہم مشورہ کیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ اس کو اجاڑ دینا ہی مناسب ہے۔ (یعنی یہ شہر اجاڑ دینے کے لائق ہے۔) اس نتیجے پر پہنچنے والا متکلم خود ہو سکتا ہے (یعنی جو شہر دل کا برائے نام مالک ہے۔) یا وہ غم ہو سکتے ہیں جو شہر دل کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلتے رہے ہیں، یا معشوق ہوسکتا ہے، یا خود خدا ہوسکتا ہے۔ لیکن چوں کہ بعض غم ایسے بھی ہیں جو دل کو اجاڑ دینے کا کام کرتے ہیں، اس لئے اجاڑ دینا قرار پانے سے مراد یہ ہوسکتی ہے کہ اب فیصلہ یہ ہوا کہ اس کو صرف ایسے غم دیے جائیں جو اجاڑتے ہیں، آباد نہیں کرتے۔ لیکن یہ فیصلہ کیوں کیا گیا؟ کیا اس لئے کہ شہر دل کی تقدیر ہی یہی ہے، یا اس لئے کہ اجاڑنے بسانے کا یہ کھیل اب کارکنان قضا وقدر (یا معشوق) کے لئے دلچسپ نہیں رہ گیا، یا اس لئے کہ اجڑنے بسنے کے اس طویل سلسلے نے اب دل کو اس قابل نہ رکھا تھا کہ وہ ان تبدیلیوں کو برداشت کر سکے؟ دوسرے مصرعے میں ’’اجاڑ دینا‘‘ کے معنی ’’تباہ کر دینا‘‘ یعنی ’’نیست و نابود کر دینا‘‘ بھی ہو سکتے ہیں۔ بنیادی مفہوم وہی رہتا ہے۔ جس دل کی آبادی محض غموں سے ہوا اور پھر اسے ایسے غم بھی نہ ملیں جن سے دل آباد ہوسکے، اس کی بے رونقی کا کیا عالم ہوگا! غالب نے اس مضمون کو اپنے انداز میں خوب ادا کیا ہے؎

    از درختان خزاں دیدہ نہ باشم کیں ہا

    ناز بر تازگیٔ برگ و نوا نیز کنند

    (میں خزاں دیدہ درختوں کی طرح نہیں ہوں، کیوں کہ ایسے درخت اپنی تازگی اور شادابی پر کبھی تو ناز کرتے ہیں۔)

    غالب کا شعر بہت بلیغ ہے، لیکن میر کے اس شعر سے متاثر معلوم ہوتا ہے؎

    شہر دل کی کیا خرابی کا بیاں باہم کریں

    اس کو ویرانہ نہ کہئے جو کبھو معمور ہو

    (دیوان پنجم)

    احمد مشتاق نے بھی غالب کے مضمون کو خوب برتا ہے؎

    موسم گل ہو کہ پت جھڑ ہو بلا سے اپنی

    ہم کہ شامل ہیں نہ کھلنے میں نہ مرجھانے میں

    شمس الرحمن فاروقی

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے