شعلوں سے محبت کی مری جاں میں لگی آگ
شعلوں سے محبت کی مری جاں میں لگی آگ
پھر جاں سے بھڑک جسم کے میداں میں لگی آگ
یہ آتش غم ہے کہ دم سرد سے اپنے
سرچشمۂ خورشید درخشاں میں لگی آگ
اس حور کے کوچے میں بھرے ہم جو دم گرم
مردم نے کہا روضۂ رضواں میں لگی آگ
خنداں جو ہوا یار ہمیں دیکھ کے گریاں
لوگوں نے کہا برق سے باراں میں لگی آگ
ان روزوں میں ہے رنگ جو اشکوں کا گلابی
شاید کہ مرے دیدۂ گریاں میں لگی آگ
گرمی سے نگر کے ترے گن آب ہوا دیکھ
بلبل نے پکارا کہ گلستاں میں لگی آگ
ناری ہیں جو پریاں یہ سبب ہے کہ تمہارے
نور رخ روشن سے پرستاں میں لگی آگ
اس آتشیں رو کو بہ لب بام جو دیکھا
عالم نے کہا گنبد گرداں میں لگی آگ
دریا میں وہ دھویا تھا کبھی دست حنائی
حسرت سے وہیں پنجۂ مرجاں میں لگی آگ
غیروں کی طرف جو نظر مہر سے دیکھا
غیرت سے مرے سینۂ سوزاں میں لگی آگ
کیوں کوہ کن و قیس رہیں مجھ سے نہ نالاں
نالوں سے مرے کوہ و بیاباں میں لگی آگ
وہ سوختہ دل ہوں میں پس از مرگ جو گزرا
مرقد سے مرے یار کے داماں میں لگی آگ
ماتمؔ ہے کسی سوختہ دل کا اثر آہ
بے وجہ نہیں کوچۂ جاناں میں لگی آگ
مأخذ:
Deewan-e-Matam (Pg. ebook-169 page-146)
- مصنف: ماتم فضل محمد
-
- اشاعت: 1990
- ناشر: سندھی ادبی بورڈ، کراچی
- سن اشاعت: 1990
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.